بھارت میں موجودہ حالات احتجاج اور نوجوانوں کا استحصال

 اس وقت بھارت میں سیاسی مفادات مذہبی تعصبات اور فرقہ وارانہ جذبات کی آڑ میں جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں وہ نہ صرف ملک کے امن و امان کے لئے خطرہ ہیں بلکہ معاشرتی توازن اور انسانی حقوق کی بھی سنگین پامالی کا باعث بن رہے ہیں۔ نوجوان نسل کو خاص طور پر سیاست اور مذہب کے نام پر ورغلا کر ان کے جذبات کو غلط سمت میں استعمال کرنا بعض مفاد پرست عناصر اور شدت پسند گروہوں کا پرانا حربہ رہا ہے۔ یہ عناصر نوجوانوں کی جذباتی کمزوریوں اور دینی یا قومی وابستگیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی سوچ و فکر کو مخصوص نظریات کی طرف موڑ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے میں نفرت  انتشار اور تصادم جنم لیتا ہے۔ اس وقت مختلف شہروں اور ریاستوں میں احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور ریلیوں کا جو سلسلہ چل پڑا ہے وہ روز مرہ کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ کبھی یہ مظاہرے کسی متنازعہ سیاسی فیصلے کے خلاف ہوتے ہیں، کبھی کسی مذہبی توہین کے رد عمل میں اور بعض اوقات حکومت کی پالیسیوں یا عدالتی فیصلوں پر عوامی برہمی کے اظہار کے طور پر بھی سامنے آتے ہیں۔ ان میں سے بعض مظاہرے عارضی اور فوری رد عمل ہوتے ہیں جبکہ بعض طویل المدتی، منظم تحریک کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ان مظاہروں میں ہر عمر، طبقے اور ہر مذہب کے لوگ شامل ہوتے ہیں مگر سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے جو جوش و جذبے سے لبریز اپنے نظریات کے اظہار کے لئے سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ یہ مظاہرے جہاں عوامی جذبات کے ترجمان ہوتے ہیں وہیں ان کے انداز، طرزِ عمل اور نظم و ضبط سے مظاہرین کی اخلاقی سطح اور تربیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی مظاہرہ پر امن طریقے سے قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جائے تو وہ نہ صرف مؤثر ہوتا ہے بلکہ مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے لیکن جب یہی احتجاج پرتشدد شکل اختیار کر لے، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ قیمتی املاک کی تباہی اور انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنے تو اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے رویے احتجاج کو غیر سنجیدہ بنا دیتے ہیں اور اصل مقصد و مطالبات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔

    گزشتہ دنوں کانپور شہر میں کچھ نوجوانوں نے اپنے پیارے نبی ﷺ سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے "آئی لو محمد ﷺ" کا ایک بینر لگایا۔ بینر لگانا ان نوجوانوں کی سادہ سی کوشش تھی کہ وہ اپنے جذبات کا پر امن اظہار کریں اور دنیا کو بتائیں کہ وہ اپنے نبی ﷺ سے کتنی شدید محبت کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ معمولی سی بات بھی بعض حلقوں کو ناگوار گزری۔ پولیس نے فوراً حرکت میں آکر پچیس مسلم نوجوانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کا مقدمہ درج کر دیا۔ بس پھر کیا تھا یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ ہر مسلمان کا دل تڑپ اٹھا کہ اپنے نبی ﷺ سے محبت کے اظہار پر بھی مقدمات درج ہوں گے؟ ملک بھر میں اس ناانصافی کے خلاف آہستہ آہستہ احتجاج شروع ہوگئے۔ ہر طرف، ہر گلی، ہر محلے میں یہی نعرہ سنائی دینے لگا: "آئی لو محمد ﷺ" نوجوان، بچے، بوڑھے، خواتین سبھی اپنے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آگئے۔ ان کے دلوں میں عشق رسول ﷺ کا جذبہ موجزن تھا۔ انہیں کسی سیاسی فائدے یا نقصان کی فکر نہیں تھی، ان کے لیے بس ایک ہی بات اہم تھی ہمارے آقا ﷺ کی محبت۔ گجرات، تلنگانہ، آندھرا پردیش، اتراکھنڈ، اتر پردیش، مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں عوام سڑکوں پر آگئے۔ لوگ ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈز لے کر پر امن انداز میں اپنے نبی ﷺ سے محبت کا اظہار کر رہے تھے لیکن بدقسمتی سے پولیس نے ان مظاہروں کو برداشت نہ کیا۔ کہیں پر لاٹھی چارج، کہیں آنسو گیس اور کہیں سیدھی گرفتاریاں۔ پولس نے ان نوجوانوں پر اشتعال انگیزی، امن میں خلل ڈالنے اور پتھراؤ جیسے سنگین الزامات لگا کر جیل میں ڈالنا شروع کر دیا۔ کاشی پور میں حالات اس وقت بگڑ گئے جب "آئی لو محمد ﷺ" کے جلوس پر کچھ شر پسند عناصر نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ پتھر پولس اہلکاروں کو بھی لگے، بس پھر معاملہ یکسر بدل گیا۔ پولس نے فوراً کارروائی کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ مظاہرین نے پولس پر حملہ کیا ہے۔ اس کے بعد تو جیسے طوفان آ گیا ہو پولس کی جانب سے لاٹھی چارج، گرفتاریاں، مقدمات اور اب تک چار سو سے زیادہ افراد پر کیس درج ہوچکے ہیں۔ یقیناً یہ تمام افراد جلد یا بدیر گرفتار بھی کر لیے جائیں گے۔ پھر میونسپل انتظامیہ حرکت میں آئی۔ مسلم علاقوں کو نشانہ بناتے ہوئے گھروں کو غیر قانونی تعمیر قرار دے کر بلڈوزر چلا دیے گئے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ کچھ نوجوانوں نے اپنے نبی ﷺ سے محبت کا اظہار کرنے کی جرات کی۔ حکومت اور پولیس ایسے ہی مواقع کی تلاش میں ہوتی ہیں اور اب یہ موقع انہیں مل چکا ہے۔ وہ نوجوانوں کو چن چن کر جیلوں میں ڈال رہے ہیں، ان کے خلاف سنگین دفعات لگا رہے ہیں اور ان کے خاندانوں کو بھی پریشان کر رہے ہیں۔

  یقیناً عشق رسول ﷺ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس محبت کا اظہار سڑکوں پر مظاہرہ کر کے کرنا ضروری ہے؟ کیا ہم یہ نہیں دیکھ رہے کہ دشمن طاقتیں اسی بات کا انتظار کرتی ہیں کہ کوئی موقع ملے اور وہ ہم پر حملہ کر سکیں؟ جب ہم سڑکوں پر آتے ہیں تو شرپسند عناصر بھی بھیس بدل کر ہمارے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ وہی لوگ پتھراؤ کرتے ہیں، فساد پھیلاتے ہیں اور پھر سارا الزام ہمارے نوجوانوں پر آجاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے ہی نوجوان گرفتار ہوتے ہیں، انہیں جیلوں میں ٹھونسا جاتا ہے، ان پر سنگین دفعات لگتی ہیں، ان کے ماں باپ کو ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پوری قوم ایک نئی آزمائش میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ لہٰذا! نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ سڑکوں پر احتجاج سے اجتناب کریں کیونکہ یہ وقت جذبات سے زیادہ حکمت اور صبر کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم اگر واقعی عاشق رسول ﷺ ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درود پاک کا ورد کریں۔ درود پاک ہی سب سے اعلیٰ اور افضل ذریعہ ہے عشق رسول ﷺ کے اظہار کا۔ نہ اس میں کوئی خطرہ ہے نہ کوئی رکاوٹ۔ نہ کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے نہ کوئی مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ اپنے گھروں کو درودِ پاک کی خوشبو سے معطر کریں۔ مساجد میں اجتماعی درود کی محافل سجائیں۔ گلی گلی، محلہ محلہ درود کی صدائیں گونجنی چاہئیں۔ یہی اصل احتجاج اور اصل محبت ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو نبی کریم ﷺ کی خوشنودی کا باعث بنے گا اور الله تعالیٰ کی مدد بھی شامل حال ہوگی۔

  یاد رکھیں کہ نوجوان قوم کی میراث اور قوم کے پاسبان ہوتے ہیں ہمیں ان کی حفاظت اور ان کے جوش و جذبے کی قدر کرنی چاہیے۔ انہیں ایسے راستے پر نہیں ڈالنا چاہیے جو ان کی زندگی تباہ کر دے بلکہ انہیں مسجدوں میں لاکر درود شریف کی محافل میں شامل کیجیے۔ انہیں عشق رسول ﷺ کے آداب سکھائیں کہ ہمارا اصل ہتھیار احتجاج نہیں بلکہ درودِ پاک، دعا، صبر اور حکمت ہے۔ لہٰذا! سڑکوں پر اپنی محبت کو ضائع نہ کریں، پولیس کی لاٹھیاں کھانے سے، جیلوں میں بند ہونے سے، مقدمات کا سامنا کرنے سے بہتر ہے کہ ہم الله کے حضور جھک کر درودِ پاک کا ورد کریں، اس کی رحمت کو متوجہ کریں کیونکہ وہی سب سے بڑا مددگار ہے اور سب سے بڑا محافظ ہے۔

  اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ احتجاج کے سلسلے میں بھی شریعتِ اسلامی نے ہمیں اصول و ضوابط سکھائے ہیں۔ سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ احتجاج، دھرنا یا ریلی کسی بھی صورت میں شرعی حدود سے تجاوز نہ کرے۔ اس میں گالم گلوچ، بدکلامی، تشدد، دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچانا، ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنا یا بے قصور انسانوں کو پریشان کرنا سراسر ممنوع اور ناقابلِ قبول ہے۔ اسلام ہمیں صبر، برداشت، حسنِ اخلاق اور حکمت کے ساتھ اپنی بات کہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زبان اور عمل سے ایسے جذبات کو اجاگر کریں جو دوسروں کے دلوں میں نرمی، فہم و فراست اور بیداری پیدا کریں نہ کہ نفرت و اشتعال۔ یہ بھی ایک اہم پہلو ہے کہ دوران احتجاج جوشِ خطابت یا جذبہ ایمانی میں بہہ کر کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لیا جائے جس سے دین اسلام یا امت مسلمہ کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔ دشمنانِ اسلام اور میڈیا کے ایسے عناصر جو اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کے درپے رہتے ہیں وہ ان مظاہروں میں ہونے والی کسی بھی غلطی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ لہٰذا! ہمارے احتجاج کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ وہ نہ صرف اسلامی وقار کا عکاس ہو بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی دعوتِ فکر و نظر بن جائے۔ نوجوانوں کو بھی اس بات کی تربیت دینی ہوگی کہ احتجاج کے مفہوم کو سمجھیں۔ صرف نعروں، جلوسوں اور بینروں سے احتجاج مکمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے فہم و بصیرت، تدبر، حکمتِ عملی اور نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم واقعی اپنے دین، اپنے حقوق اور اپنے نظریات کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں علم، شعور اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا۔ آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ احتجاج بلاشبہ ہمارا بنیادی حق ہے لیکن اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں اپنی دینی، اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کا مکمل ادراک ہونا چاہیے۔ احتجاج صرف آواز اٹھانے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے جو قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے بشرطیکہ یہ احتجاج مثبت، تعمیری، پر امن اور با مقصد ہو۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter