بعثت مصطفیٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم

          خالق ارض و سماء، مالک زمین و آسماں، ربِّ کائنات جل جلالہ نے حضرت انسان کو پیدا کرنے کے بعد لامحدود نعمتوں سے سرفراز فرمایا، اور اپنی عطا کردہ جملہ نعمتوں پر کبھی احسان نہیں جتایا، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایک ایسی نعمت بھی عطا فرمائی جس پر خود کلام مجيد میں احسان جتلا کر اُس نعمت کی عظمت و رفعت اور شان و شوکت کو اجاگر کیا، اور اس نعمت پر کیوں نہ احسان جتایا جائے ؟ یہ نعمت ایسے وقت میں عطا فرمائی گئی جس وقت انسان بصورت حیوان نظر آتے تھے، لوگوں نے انسانی تقاضوں کو بھلا کر ظلم و بربریت کو گلے لگایا لیا تھا، ذرا ذرا سی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے تھے، اگر کسی کا گھوڑا کسی کے آگے نکل جاتا تو پیچھے ره جانے والے سبقت لے جانے والے کا جانی دشمن بن جاتا۔ کثرت سے بتوں کی پرستش کی جاتی تھی، مجوسی آگ کی پوجا کیا کرتے تھے، باقی دوسرے لوگوں کا بھی یہی حال تھا کوئی چاند کی پوجا کیا کرتا تھا تو کوئی سورج کی، چہار جانب اندھیرا ہی اندھیرا پھیلا ہوا تھا، بیٹیوں کو منحوس و مکروہ سمجھا جاتا تھا، اُن کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا، ایسے تاریک دور میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھانے اور اس ظلم و جبر، کفر و شرک کی تاریکی سے نکالنے کے لیے اپنے پیارے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم میں بھیج کر ہم پر احسان عظیم فرمایا، اور خود قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: لقد من الله على المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم یتلوا علیهم ایٰته و یزكیهم و یعلمهم الكتب و الحكمة و ان كانوا من قبل لفی ضلٰل مبین۔ (آل عمران، آیت 164)

ترجمہ: بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ 

            آمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اصل میں انبیاء کرام علیہم السلام کی دعاؤں کا ثمرہ ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی تھی، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ربنا و ابعث فیهم رسولا منهم یتلوا علیهم اٰیٰتك و یعلمهم الكتب و الحكمة و یزكیهم انك انت العزیز الحكیم۔ (سورہ بقرہ، آیت 129) ترجمہ: اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمائے بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔

         حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کی یہ دعا سید انبیاء صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے لیے تھی۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کی عظیم خدمت بجا لانے اور توبہ و استغفار کرنے کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے یہ دعا کی کہ یارب! اپنے حبیب ،نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری نسل میں ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت فرما۔ یہ دعا قبول ہوئی اور ان دونوں بزرگوں کی نسل میں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی۔ امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا حالانکہ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خمیر تیار ہو رہا تھا، میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں، میں دعائے ابراہیم ہوں ،بشارت عیسیٰ ہوں، اپنی والدہ کے اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھی اور ان کے لیے ایک بلند نور ظاہر ہوا جس سے ملک شام کے ایوان اور محلات ان کے لیے روشن ہوگئے۔ (شرح السنۃ، کتاب الفضائل، الحدیث: ۳۵۲۰ بحوالہ تفسیر صراط الجنان)

            حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تخلیق میں سب سے اول اور بعثت میں سب سے آخر ہیں، آپ کی تشریف آوری کا جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کی آمد کے بعد ہونا یہ بھی آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے خصائص و فضائل میں سے ہے، آپ سے پہلے تمام انبیاء کرام علیہم السلام آپ کی ولادت کی خوش خبری دیتے ہوئے تشریف لائے، آپ کی ولادت کے بعد اب کسی نبی کا آنا محال ہے، آپ کی آمد کے ساتھ ساتھ ہی نبوت کا دروازہ بند ہو گیا، لوح محفوظ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہی لکھ دیا گیا تھا جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ”بے شک میں اللہ تعالیٰ کے حضور لوح محفوظ میں خاتم النبیین لکھا تھا جب کہ حضرت آدم اپنے خمیر میں لوٹ رہے تھے“۔ (مسند امام احمد) ایک اور روایت ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”میری اور نبیوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک مکان پورا کامل اور خوبصورت بنایا، مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی، لوگ اُس گھر میں جاتے اور اس کی خوبصورتی اور خوشنمائی سے تعجب کرتے اور تمنا کرتے کہ كس طرح یہ اینٹ کی جگہ خالی نہ ہوتی“۔ (بُخاری شریف) پھر ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ: ”پھر میں آیا اور مجھ پر انبیاء کا اختتام ہو گیا“۔ اور مزید اُس پر فضیلت یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبوت سب سے پہلے ہی عطا فرما دی گئی تھی، ظاہراً حضرت آدم علیہ السلام کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا، لیکن کثیر روایات سے یہ ثابت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے جسم مبارک میں روح پھونکنے سے پہلے ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپکو منصب نبوت پر فائز فرما دیا تھا جیسا کہ حضرت سیدنا میسرۃ الفجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کب سے نبی ہیں ؟ ارشاد فرمایا: جب کہ آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے“ (ترمذی شریف)

ولادت مصطفیٰ ﷺ کی برکت:

            حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کے طفیل اللہ تبارک وتعالیٰ نے روئے زمین کو حضور کے لیے پاک کو صاف بنا دیا، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اور میری خاطرساری زمین پاک کرنے والی اور سجدہ گاہ بنادی گئی۔ (صحیح مسلم) پچھلی قوموں کے لیے یہ حکم تھا کہ اگر عبادت کرنا ہو تو مخصوص مقام پر ہی عبادت کریں ،وہ لوگ اس کے علاوہ دوسری جگہ عبادت نہیں کر سکتے تھے ۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں جب طوفان آیا تو ساری زمین زیر آب ہوگئی اور تمام زمین کو غسل دیا گیا ،پھر بھی زمین پاک نہیں ہوئی کہ کہیں بھی سجدہ کیا جاسکے، لیکن سرکار کا قدم مبارک پڑنا کیا تھا کہ ساری زمین پاک ہی نہیں بلکہ آپ کی آمد کی برکت سے پاک کرنے والی بن گئی ۔

اسی طرح گزشتہ قوموں کے لیے تیمم نہیں تھا، لیکن سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں کی برکت سے زمین ایسی پاک ہوگئی کہ آپ کے امتی کے لئے اگر کسی وقت پانی میسر نہ ہو تو وہ مٹی سے تیمم کرکے پاکی حاصل کرسکتا ہے۔ تمام کائنات کو کفر و شرک کی نجاست، گمراہی و بے دینی کی نحوست سے پاک و صاف کرکے ایمان و اسلام کے انوار سے منور کرنے کے لیے نبی مطہر صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، آپ کی حالت شریفہ کے بارے میں خود آپ کی والدۂ ماجدہ فرماتی ہیں: جب آپ تشریف لائے تو اس حالت میں تشریف لائے کہ آپ کے جسم مبارک پر کوئی آلائش و نامناسب چیز نہ تھی ۔ (المواہب اللدنیۃ مع حاشیہ الزرقانی) سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: ”جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت ہوئی، تو یہ ندا دی گئی: "آپ کو زمین کے مشرقوں اور مغربوں کی سیر کراؤ" اور ایک کہنے والے نے کہا: ”خوش ہوجاؤ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ساری دنیا پر قبضہ کرلیا ہے، دنیا کی تمام مخلوق برضا و رغبت آپ کے قبضہ میں داخل ہوگئی“۔ (الخصائص الکبری، جلد01)

ولادت مصطفیٰ ﷺ پر خوشی کا اظہار:

                   حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ولادت باسعادت کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو۔ اس روز سورج کو عظیم نور پہنایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کی عورتوں کے لئے یہ مقدر کردیا کہ وہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے لڑکے جنیں‘‘۔

یہ وہ نعمت کبریٰ ہے جس کے لئے خود رب کریم نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا ہے: تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔ (سورہ یونس، آیت 58) علماء نے فرمایا کہ: ”اللہ پاک کا فضل حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اللہ پاک کی رحمت قرآنِ کریم ہے“۔ بعض نے فرمایا :اللہ پاک کا فضل "قرآن" ہے اور رحمت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا (سورہ انبیاء، آیت 107) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش پر خوشی منانا اتنا پسندیدہ عمل ہے کہ ابولہب جیسے کافرو مشرک کو بھی مرنے کے بعد اس کا اجر ملا۔ لہٰذا تو ہم سب کو چاہیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن خوب خوب خوشیاں منائیں، اور ادب و احترام کے ساتھ یہ ایام گزرایں، خوب خوب عبادت کریں، ہو سکے تو روزہ رکھیں، اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ماہ ربیع النور شریف کے فیضان سے مالا مال فرمائے، آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter