بی جے پی کا نیا پھندا "اسنیہ یاترا"کیا حقیقت؟ کیا فسانہ؟
سب سے پہلے ہم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے تمام ہندوستانیوں کو 77 ویں جشنِ یومِ آزادی کی مبارکبادیاں پیش کرتے ہیں۔اور دل کے نہاں خانوں سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اس پاک دھرتی کو دہشت گردی، فسادات، فرقہ واریت تشدد، اور خانہ جنگی ماحول سے حفاظت فرمائے اور ملک کے طول وعرض میں امن وامان قائم فرمائے۔ اس وقت بابائے قوم گاندھی جی کا قول حاشیہ ذہن پر ابھر رہا ہے کہ : India will be free when the women feel safe to walk in the streets of India in the midnight’:
واہ کیا نظریہ اور عمدہ خیال تھا۔ ہندوستان اس وقت آزاد ہے جب ایک عورت ملک کے طول وعرض میں بلا خوف ہوکر اندھیری رات میں چلتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں۔ افسوس اس بات کا کہ بابائے ہندوستان کا یہ نظریہ دیگر تمام نظریات کی طرح کاغذ وقرطاس کی زینت بن کر رہ گئی۔ اندھیری رات تو دور دن کے اجالے میں بھی عورت اور اس کی انمول عزت وآبرو غیر محفوظ ہے۔ اس کے لیے مجھے دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ انسانیت سوز واردات آٹھ سالہ آصفہ بانو کی عصمت دری وقتل سے لیکر کوکی برادری کے دو عورتوں کے ساتھ ہوئے دلخراش واقعات شاہد عدل ہیں۔
صرف اس چودہ سال میں بچیوں کے ساتھ جو واقعات ہوئے اس کو اگر سپرد قرطاس کیا جائیں تو ظلم و ستم اور بربریت ودرندگی کی طویل درد بھری داستان تیار ہو جائے گی۔ یہ ہمارا آج کا عنوان بھی نہیں بات آگئی تو ہم نے یوں ہی بیان کردیا۔ اور جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں تو بابائے قوم کا جملہ یاد آگیا تو الفاظ درد کی شکل میں نکل آئے۔ گاندھی جی کے اس نظریہ کے تناظر میں ہم اگر ہندوستان کا جائزہ لیں گے تو گاندھیائی بھارت اور ہے اور اب ہمارا ہندوستان دوسرا ہے۔ چلئے جیسے بھی ہو سماج میں کچھ اچھے افراد رہنے کی وجہ بھارت میں ابھی بھی امن وامان برقرار ہے۔
مطلب بر سر آمدم کچھ دن پہلے عالی جناب مسٹر وزیر اعظم نے اپنی پارٹی بی جے پی کی میٹنگ میں کہا تھا کہ پسماندہ مسلمانوں کو بھی پارٹی سے قریب کیا جائیں۔ انہیں قریب کرنے سے پارٹی کا فائدہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ اتنا سننا تھا کہ گودی میڈیا جو حکومت وقت کی زر خرید غلام ہے۔اس بات کو موضوع بحث بناکر آج کل سوشیل پر بہت آکٹیو نظر آرہی ہے۔ اچانک بی جی پی کو مسلمانوں سے ہمدردی ہماری ناقص عقل وخرد سے بالاتر ہے۔ اس میں کئی باتیں قابلِ غور ہیں۔ ایک مسلمان پسماندہ ہیں۔ چلئے آج تو آں جناب کی آنکھیں مسلمانوں کے تئیں کھلی کہ مسلمان پسماندہ اور ہر محاذ میں بچھڑے پن کے شکار ہیں۔ پھر دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کو پارٹی سے قریب کیا جائیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آنے والے لوک سبھا الیکشن میں اگر مسلمان اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکولر پارٹی کے کھاتے میں اپنا ووٹ ڈال دیں تو پھر بی جے پی کا اقتدار کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ جیسے کہ کرناٹک اسمبلی الیکشن میں ہوا۔ اسی کی پہلی کڑی تھی کہ یو بی بلدیاتی الیکشن میں 395 مسلم امیدواروں کو کھڑا کیا گیا تھا۔ اور بی جے پی کا اپوزیشن کے مقابلے میں ایک شاندار کامیابی حاصل کرنا اپوزیشن کے پشت پر ایک سخت تازیانہ ہے۔ اگر اس جیت سے کانگریس یا دیگر سیکولر پارٹیاں سبق نہیں لیں گیں تو پھر 2024 کا نقشہ ہی الگ ہوگا جیسے سے بھی ہو ہم کہہ رہے تھے کہ بی جے پی کی اچانک مسلمانوں کے تئیں یہ ہمدردانہ رویہ ضرور کسی سیاسی ایجنڈا کے تحت ہی ہے۔ جو بڑی دور اندیشی کا نتیجہ بھی ہے۔ لہذا ہم مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ہم چوکس اور چوکنا رہیں تاکہ اگلے بار کہیں بی جے پی جیت کا تاج نہ لے جائیں۔
بی جے پی کا سب سے بڑا خفیہ ایجنڈا ملک پر بر سر اقتدار ہونا ہے۔ اس کے لیے وہ ابھی کچھ بھی کرنے کےلیے تیار وآمادہ ہے۔ یوپی بلدیاتی انتخابات اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ وہ اقتدار اور کرسی کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ اسی اقتدار کی ہوس میں مسٹر مودی جی کی قیادت میں "اسنیہ یاترا " منصوبہ بند طریقہ سے نکالا جائے گا۔ جس کا کلیدی مقصد پسماندہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتی طبقے کو بی جے پی سے قریب کرنا ہے۔
لوک سبھا الیکشن-2024 کے متعلق یوپی میں بی جے پی ایک بڑے منصوبے کے ساتھ اترنے جا رہی ہے۔ سبھی 80 لوک سبھا سیٹوں پر فتحیاب ہونے کے لیے بی جے پی یکم اگست سے پسماندہ اسنیہ یاترا نکالنے کا منصوبہ تھا لیکن چند وجوہات کی بناء پر اسے ملتوی کیا گیا ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ گزشتہ سال سے بی جے پی پسماندہ برادری کے لوگوں کو اپنی طرف کرنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے اور اسی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا اقلیتی ونگ پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ مسلسل بات چیت کے لیے پروگرام منعقد کر رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق تو پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا بی جے پی کے قومی ہیڈکوارٹر سے ہری جھنڈی دکھا کر اس یاترا کا آغاز کریں گے۔ بتا دیں کہ یہ اسنیہ یاترا 27 جولائی سے ہی شروع ہونے والا تھا، لیکن اسے منسوخ کر کے اب اگست کے آواخر سے شروع کیا جانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
میڈیا کے ذریعے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ پسماندہ یاترا اگست سے شروع ہونے والا ہے۔ جس کا آغاز غازی آباد سے ہوگا اور یہ یاترا یوپی کے 27 مسلم اکثریتی اضلاع سے گزرے گی۔ اس دوران پارٹی کارکن پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ اسی کے ساتھ یہ یاترا ملک کی دیگر ریاستوں سے بھی گزرے گی۔ بتادیں کہ یاترا کے دوران پسماندہ برادری کو بیدار کیا جائے گا۔ اگر پارٹی ذرائع کی مانیں تو بی جے پی کے کارکن اور عہدیدار مسلم اکثریتی لوک سبھا سیٹوں پر پہنچ کر مسلمانوں سے بات چیت کریں گے اور لوگوں سے یو سی سی یعنی یونیفارم سیول کوڈ کے بارے میں بات کریں گے اور انہیں بیدار کریں گے۔ اس کے علاوہ مرکزی اور ریاستی حکومت کی جانب سے ان کے مفاد میں چلائی جارہی اسکیموں کے بارے میں بھی جانکاری دی جائے گی۔ اس اسنیہ یاترا کے پس پردہ جو پنہاں ہے وہ پسماندہ مسلمانوں سے ہمدردی نہیں بلکہ اقتدار وکرسی کی لالچ اور ہوس ہے۔جس کے لیے بھاجپا پلان بھی بنا رہی ہے کہ کہاں کہاں سے پارٹی کو کتنے ووٹ ملیں گے وغیرہ۔تو منصوبہ بندی بھی دیکھ لیجئے جس کے لیے بی جے پی کوشش میں لگی ہے۔لوک سبھا الیکشن کی سیٹوں کی ایک مختصر خاکہ جو بی جے پی تیار کی ہے وہ کچھ اس طرح کا ہے۔پارٹی کی فہرست میں مغربی بنگال کے حلقوں میں بہرام پور (64 فیصد اقلیتی آبادی)، جنگی پور (60 فیصد)، مرشد آباد (59 فیصد) اور جے نگر (30 فیصد) شامل ہیں۔بہار سے کشن گنج (67 فیصد)، کٹیہار (38 فیصد)، ارریہ (32 فیصد) اور پورنیہ (30 فیصد) اس فہرست میں شامل ہیں۔ اتر پردیش کی نشستوں میں بجنور (38.33 فیصد)، امروہہ (37.5 فیصد)، کیرانہ شامل ہیں۔ (38.5 فیصد)، فیصد، نگینہ (42 فیصد)، سنبھل (46 فیصد)، مظفر نگر (37 فیصد)، اور رام پور (49.14 فیصد)کیرالہ کی پارلیمانی نشستوں پر جہاں بی جے پی توجہ مرکوز کرے گی ان میں وائناد (57 فیصد اقلیت)، ملاپورم (69 فیصد)، پوننی (64 فیصد)، کوزی کوڈ (37 فیصد)، واداکارا (35 فیصد) اور کاسرگوڈ (33 فیصد) شامل ہیں۔
یہ اسنیہ یاترا کا ایک رخ ہے۔ اس کا دوسرا رخ بیان کرنے کے قابل بھی نہیں۔ جہاں بی جے پی پسماندہ کہہ کر مسلمانوں کی حالت زار پر مگر مچھ میں آنسو بہا رہی ہے وہی دوسری طرف ہریانہ میں حالیہ دنوں میں مہاپنچایت منعقد ہوئی جو سراسر مسلم مخالف اقدام ہے۔ ہریانہ میں منعقد مہا پنچایت میں ہندو تنظیم کی جانب سے مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ کے ذریعے ہندوؤں کو ہتھیار اُٹھانے پر زور دینے کا معاملہ سامنے آرہا ہے۔ اور بجرنگی کارکنان پھر ایک بار نوح میں فسادات کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ وی ایچ پی لیڈر دیویندر سنگھ نے دعوی کیا ہے کہ 28اگست کے روز یاترا نوح سے دوبارہ شروع ہوگا جہاں یاترا پر حملہ کیاگیاتھا۔یہ بات ہمارے سمجھ سے بالاتر ہے کہ اک طرف اقلیت کو قریب کرنے کے لیے اسنیہ یاترا دوسری طرف اقلیت کو نیست ونابود کرنے کے لیے نوح یاترا، مزے کی بات تو یہ ہے کہ دونوں یاترا کی قیادت بی جے پی ہی کے لیڈران کرینگے۔ اس لیے ہم نے کہا کہ ہمیں چوکنا رہنا ہے کہیں اسنیہ یاترا کے دھوکہ دہی میں پھنس کر کہیں پھر فرقہ واریت اور اقلیت مخالف پارٹی کو برسراقتدار آنے میں ہم پیش پیش رہیں۔ خدا ہماری اور ملک کی حفاظت فرمائے اس خفیہ سازشوں اور سیاسی دسیسہ کاریوں سے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالی ہم۔ سب کو سیاسی شعور وآگہی عطا فرمائے آمین