رسومات محرم اوراصلاحات

محرم الحرام اسلامی سال اور قمری تاریخ کا آغازِ باب ہے۔ یہ مہینہ انتہائی محترم و مکرم ہے۔ کلام پاک میں جن چار مہینوں کی حرمت بیان کی گئی ہے اُن میں سے ایک محرم بھی ہے۔ محرم الحرام کو مختلف انبیائےکرام علیہم السلام سےایک خاص نسبت حاصل ہے۔اُن کے شب و روز سے متعلق بہت سے واقعات ماہِ محرم میں رونما ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں جہاں اگلی اُمتوں کےلیے ایک پیغام مضمر تھا وہیں ہمارے لیے بھی ایک پیغام مضمر ہے جس کے مطابق ہمیں اپنی زندگی سجانے اور سنوارنے کی ضرورت ہے۔
ماہِ محرم میں انبیائے کرام کی طرف منسوب چیزوں میں ایک اہم چیز کا ذکر ہم یہاں اصلاحی طور لازم سمجھتے ہیں۔ جب ہمارے پیارے نبی سرور کائنات جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مقدسہ سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تودیکھاکہ یہود ی لوگ دسویں محرم کو رُوزہ کھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سےدریافت کیا تواُنھوں نےبتایا: چوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دَسویں محرم کے دن فرعون سے نجات دی اور فرعونیوں کو دَریائے نیل میں غرق کردیاتو شکرانےکے طورپر حضرت موسیٰ نے روزہ رکھا تھا، اِس لیےہم لوگ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں اور اُن کی یادگارکے طورپر دَسویں محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو تم لوگوں کی بہ نسبت (حضرت) موسیٰ سے ہمارا رشتہ زیادہ مضبوط ہے، چناں چہ دسویں محرم کا روزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکھا اور اَپنے صحابہ کو بھی اِس کا حکم فرمایا۔
پھر صحابۂ کرام کے یہ کہنے پر کہ دسویں محرم کا ایک روزہ تو یہود بھی رکھتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آئندہ سال ہم نویں محرم کا بھی روزہ رکھیں گے۔ لیکن اِس سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔   (صحیح مسلم، حدیث:1134)

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس عمل و اِرشاد سے روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے کہ محض اغیار سے مشابہت کے سبب کسی اچھے عمل کو ترک کردینا ہرگز مناسب نہیں۔ بلکہ اس کے برخلاف اگر کسی نیک عمل میں اغیار سے مشابہت ہو/مشابہت کا کچھ شائبہ ہوتو اُس کے ساتھ کوئی ایسا طریقہ اختیار کرلیناچاہیے کہ جس سے مشابہت اغیارکا مسئلہ حل ہوجائے، جیساکہ محسن انسانیت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےخود دَسویں محرم کا روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کو بھی اِس کا حکم فرمایا۔ پھرجب صحابۂ کرام نے دسویں محرم کے روزہ کو یہود کے عمل سے مشابہت والی بات کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نویں محرم کا مزید ایک روزہ رَکھنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہوئے نہ صرف یہود سے مشابہت کو رَفع فرمادیا بلکہ اپنے صحابہ کے خدشات کو بھی دور فرمادیا۔ 
ہمارے خیال سے سیرت نبوی کا یہ پہلو نہ صرف دسویں محرم کےروزے تک محدود رَہناچاہیے بلکہ اِسے دینی اور دنیوی ہرسطح پر نافذالعمل ہونا چاہیے۔ بالخصوص ہمارے اُن برادران کو اِس پر خاص توجہ دینا چاہیے جومشابہت اغیار کی لاٹھی سے بہترین سے بہترین اعمال کی کمر توڑ دیتے ہیں اور اُن اعمال کی رحمت و برکت سے نہ صرف خود کو بلکہ اپنی قوم کو بھی محروم رکھتے ہیں۔
مزید برآں محرم کے مہینے میں بہت سارے اچھےاعمال بھی محض اِس لیے رد کردیے جاتے ہیں/اُنھیں خلاف شرع بتائے جاتے ہیں کہ وہ اعمال غیرسنی افراد اَنجام دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اہل بیت سے شدید محبت کا اظہار کرنے والےسنی افراد کو بھی غیرسنی قرار دے دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ ہمیں یہ علم اَزبر اور پختہ رَہنا چاہیےکہ اہل بیت سے محبت، ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ لہٰذا ہم اگرجانے انجانے میں بھی ایسا نظریہ رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے نظریات پر اَز سرنو غورکرنے اوراِپنے نظریات میں درستگی لانے کی ضرورت ہے۔

اِسی طرح یادِ حسین اور ذِکر حسین کے طریقۂ کارکو یکسر نظر انداز کردینے کی بجائے اگر واقعی اُس میں کچھ خامی اور نقص ہے تو اُسے دور کرنے پر غور ہونا چاہیے نہ یہ کہ ناپسندیدہ طریقۂ کار کے سبب یادِحسین اور ذکر حسین پر ہی سوالیہ نشان لگایا جانا چاہیے۔ ہمارے ملک میں تعزیہ داری کی ایک قدیم روایت ہے جو برسوں سے چلی آرہی ہے، اور باوجودیکہ شرع میں باضابطہ اس تعلق سے کوئی حکم نہیں ہے۔ لیکن چوں کہ اس کے ذریعے احترام محرم کے ساتھ اہل بیت سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے، اور اِس بات سے کوئی انکار کی جرأت نہیں رکھتاکہ اِحترام محرم اور اہل بیت سے محبت کے اظہارکا شرعاً اور تاکیدی حکم ہے، اِس لیے مطلق تعزیہ داری کے خاتمے کی جگہ اُس کے اندر موجود خامیوں کو دُور کرنے کی بات ہونی چاہیے۔ یعنی اُسے لہو ولعب اور غیر شرعی امور سے صاف ستھرا کیاجائے اور اِس غنیمت بھرے موقع پر دفاعی ہنرکاری کی پریکٹس ہونی چاہیے۔

اس کے علاوہ امام حسین اور احترام محرم کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اِس موقع پر مسلمانوں کی طرف سے بندگان خدا کے لیے کھانے-پینے اور مشروبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، تو اِس پر بھی کچھ لوگ ناک-بھوں چڑھاتے ہیں، یہ بھی اچھی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ اس عمل کے سبب دوہرا ثواب ملتا ہے: ایک بندگانِ خدا کو کھلانے-پلانےکاثواب، اور دوسرا شہیدکربلا سےمحبت و عقیدت کے اظہارکا ثواب، اور یہ دونوں اعمال نہ توشرعاً ممنوع ہیں اور نہ خلاف شرع۔ البتہ! اس کا لازمی پہلو یہ ہے کہ ہمارے یہ تمام اعمال لوجہ اللہ ہوں، ہرطرح کے نام ونمود اَور دکھاوے سے پاک وصاف ہوں اور کھانے-پینے کی اشیا کی بےحرمتی اور ضیاع نہ ہو۔

خلاصۂ کلام یہ کہ رسومات ِمحرم کے سلسلے میں جن علماوفقہا نے بدعات وخرافات کا قول کیا ہے تو اِس کی بنیاد لہو ولعب اور غیر شرعی امور پر ہے، اور خیال رہےکہ لہوولعب اور غیرشرعی امور کےسبب محض رسومات ہی نہیں بلکہ واجبات وفرائض تک بدعات وخرافات میں شامل ہوجاتے ہیں۔ چناں چہ رسومات محرم کا تعلق اگر لہوولعب سے ہےاور اُس میں غیرشرعی امور کا عمل دخل ہے، تو بلاشبہ اُنھیں درست نہیں کہا جاسکتا اور اگر اُن کا تعلق لہو ولعب اور غیرشرعی امور سے نہیں ہے، تو بلاشبہ وہ درست ہیں۔ جس طرح واجبات وفرائض میں لہوولعب اور غیرشرعی حرکات کے درآنے سے اُنھیں ترک نہیں کیا جاسکتا بلکہ اُن میں اصلاحات کی جائےگی کیوں کہ اُن کی ادائیگی کے سبب تعلق باللہ و تعلق بالرسول مضبوط ہوتا ہےاور احکام واجبہ کی تعمیل ہوتی ہے۔ بعینہ رسوماتِ محرم میں لہو ولعب اور غیرشرعی حرکات کے درآنے سے اُنھیں ترک نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اُن کی اصلاحات کی جانی چاہیے کہ ان کے سبب اہل بیت سے محبت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔
(ایڈیٹر ماہنامہ خضررراہ، الہ آباد)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter