سنبھل پولیس کا رویہ:اخلاقی قدروں کی خلاف ورزی

 محکمہ پولیس قوم و معاشرے کی اصلاح و فلاح اور ترقی و بلندی کا ایک اہم ترین شعبہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس شعبے کے قیام کا مقصد معاشرے سے جرائم، بدعنوانیوں اور خلافِ قانون حرکات کو ختم کرکے اس کو پاکیزہ اور صاف بنانا ہوتا ہے تاکہ معاشرہ کامیابی و کامرانی کی منازل طے کر کے ملک میں امن و امان اور راحت و اطمینان کا ذریعہ بنے۔ لوگوں کے مال و جان، عزت و آبرو اور ان کا تشخص محفوظ رہے اور وہ سکھ، چین کے ساتھ عافیت کی زندگی گزار سکیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس قوم و معاشرے میں محکمہ پولیس جتنا مضبوط و مستحکم ہوگا جرائم اور بدعنوانیاں اس میں اُتنی ہی کم ہوں گی اور امن وامان حفظ و سلامتی اس میں اسی قدر زیادہ ہوگی۔ اس حوالے سے اگر ہم یوپی محکمہ پولیس کا جائزہ لیں تو بڑے افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہاں کے محکمہ پولیس گزشتہ چند سالوں سے عوام الناس کے دل و دماغ میں اپنے متعلق کوئی مثبت اور لائق آفریں تشخص بٹھانے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ معاشرے میں اس محکمہ کے لوگ صاحب حیثیت، مقتدر، اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں کو آئین و قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ ان کی جرائم اور غلطیوں سے چشم پوشی کر کے انہیں کھلی چھوٹ دیئے رہتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ضعیف و ناتواں، کم حیثیت، غریب اور مفلس لوگوں کو آئین و قانون کے شکنجے میں کستے، ان کے جرائم اور غلطیوں کو آشکارا کر کے ان کے ساتھ ظلم و زیادتی اور انتہائی ناروا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں قتل و غارت، ظلم وستم، گالم گلوچ اور رشوت خوری وغیرہ جیسی بدعنوانیاں عروج پر ہیں۔ اس سلسلے میں دُنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں جرائم، بدعنوانیاں اور قانون شکنیوں کی شرح یہاں کے مقابلے خاصی کم ہے جس کی بنیادی اور اہم وجہ وہاں کا مضبوط و مستحکم پولیس سسٹم ہے۔ وہاں بلا تفریق رنگ و نسل مجرم کو آہنی ہاتھوں گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس کے جرم پر شواہد پیش کئے جاتے ہیں اور اس کے مطابق مناسب سزا دی جاتی ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں مجرموں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، رنگ و نسل، ذات پات، ہندو مسلم کی بنیاد پر ان میں تفریق کی جاتی ہے اور ان کی حیثیت کے مطابق ان پر قانونی کار روائی کی جاتی ہے۔

  ابھی چند دنوں پہلے اترپردیش کے سنبھل میں مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد میں پولیس نے مسلمانوں کے سینہ پر گولیاں چلائیں جس میں پانچ مسلمان جان بحق ہوگئے۔ گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی، قیمتی اشیاء کو آتش کی نذر کیا گیا جس کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ لیکن ایک بڑی سازش کے تحت پولیس انتظامیہ اس کو ایک الگ رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ گولیاں چلنے سے سنبھل میں پانچ مسلمانوں کی موت پر ایک طرف پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے بھیڑ کے خلاف کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیا۔ دوسری جانب مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود پولیس کو بھیڑ پر فائرنگ کرتے دیکھا تھا۔ مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے چیئر مین اور سینئر وکیل ظفر علی کے ان الزامات کے بعد پولیس کے اس دعوے پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ انہوں نے بھیڑ پر کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیا اور لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے صرف آنسو گیس، لاٹھی چارج ربڑ پیلٹ گن کا ہی استعمال کیا ہے۔
  سینئر وکیل ظفر علی کی جانب سے 25 نومبر کو ایک پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کرنے کے فوراً بعد پولیس نے انہیں پوچھ گچھ کے لئے بلایا اور ان کے دعوے کی تردید کے لئے اپنی طرف سے ایک پریس کانفرنس کا بھی اہتمام کیا۔ اس کے بعد سینئر وکیل ظفر علی کو گھر جانے کی اجازت دی اور پولیس نے واضح کیا کہ انہیں حراست میں نہیں لیا جا رہا اور گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے۔
  24 نومبر کی صبح شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد میں پانچ مسلمانوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ان افراد کی موت بندوق کی گولی لگنے سے ہوئی ہے۔ جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں پر دیسی ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا تھا۔ سنبھل پولیس نے کہا کہ مجسٹریٹ کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد سب کچھ واضح ہو جائے گا لیکن پولیس نے اس پورے معاملے کو ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے جیسے بھیڑ نے انتشار کے دوران ایک دوسرے پر گولی چلائی جس کی وجہ سے ان لوگوں کی موت ہوئی۔ 

 اس معاملے میں سینئر وکیل ظفر علی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا میں نے دیکھا کہ پولیس گولیاں چلا رہی تھی یہ میرے سامنے ہی ہوا۔ میری موجودگی میں عوام کی طرف سے کوئی گولی نہیں چلائی گئی، پولیس نے اپنی ہی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی۔ سینئر وکیل ظفر علی نے یہ بھی بتایا کہ واقعے کے دوران پولیس کے پاس دیسی کٹے بھی تھے اور انہوں نے مسجد کے قریب کھڑی اپنی گاڑیوں میں خود توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی۔ سینئر وکیل ظفر علی نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ مظاہرین ایک دوسرے کو کیوں ماریں گے؟ اگر انہیں گولی چلانی ہی تھی تو وہ عوام پر نہیں پولیس پر گولی چلاتے۔ یہ سوچنے والی بات ہے۔ سینئر وکیل ظفر علی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ اس وقت موقع پر موجود تھے جب انہوں نے مراد آباد کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل، سنبھل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ اور سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ کو تبادلہ خیال کرتے ہوئے سنا کہ بھیڑ کے خلاف گولی چلانے کے حکم دیے جائیں۔ تاہم سنبھل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کرشن کمار بشنوئی نے ان الزامات کی تردید کی کہ پولیس نے مظاہرین پر گولی چلائی۔ انہوں نے کہا کہ جب ربڑ کی گولیوں سے حالات پر قابو پالیا گیا تو پھر ہم فائرنگ کیوں کریں گے۔ ایس پی بشنوئی نے کہا واقعے کے وقت پولیس اور بھیڑ 150-100 میٹر سے کم کی دوری پر نہیں تھی۔ یہ کہنا کہ پولیس وہاں کھڑی تھی اور ان پر قریب سے گولی ماری اور دیسی پستول سے گولی چلائی گئی اپنے آپ میں سوال کھڑا کرتا ہے۔ ہم ایک پیشہ ور پولیس فورس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اور فسادات پر قابو پانے والی پولیس کے پاس آنسو گیس کے ہتھیار اور پمپ ایکشن گن تھیں، انہوں نے ان باتوں کو مسترد کر دیا کہ پولیس نے دیسی ہتھیار استعمال کئے تھے۔ افسر نے اس کی بھی تردید کی کہ وہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل اور ضلع مجسٹریٹ کے ساتھ فائرنگ کے حکم پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ بشنوئی نے کہا کسی بھی حالت میں ہم تینوں ایک جگہ پر نہیں تھے۔ انہوں نے سینئر وکیل ظفر علی کے اس الزام کو بھی سیاسی قرار دیا کہ پولیس نے اپنی ہی گاڑیوں کو آگ لگائی ہے۔ ایس پی اور ڈی ایم راجندر پنسیا نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ سینیٹر وکیل ظفر علی کے الزامات گمراہ کن اور ایک سازش کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ظفر علی نے ملزمان کو بچانے سماجی اور میڈیا کے دباؤ کو استعمال کرنے اور پتھراؤ کے واقعے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں سے پتھراؤ کرنے والوں کے تئیں ہمدردی حاصل کرنے کے لئے پولیس فائرنگ کے یہ الزامات لگائے ہیں۔ ڈی ایم نے ظفر علی کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ انہوں نے فائرنگ دیکھی تھی۔
  
   سینئر وکیل ظفر  علی نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ یہ سارا واقعہ اس افواہ کے پھیلنے کے بعد شروع ہوا کہ سروے ٹیم نے مسجد میں کھدائی شروع کر دی ہے۔ یہ افواہ اس وقت پھیلائی گئی جب مسجد میں نہانے کے ٹینک کو پیمائش کے لئے خالی کر دیا گیا جس کی وجہ سے لوگوں کا خیال تھا کہ کھدائی ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اس کی وضاحت کے لئے ایک اعلان کیا گیا تھا لیکن لوگوں کا اس افواہ پر یقین قائم رہا۔  ظفر علی نے کہا کہ بھیڑ کو بھڑکانے کے لئے ایس ڈی ایم اور سرکل آفیسر (سی او) پولیس سنبھل قصوروار ہیں اور یہ سب سنبھل کے ایس ڈی ایم اور سی او کی سازش کی وجہ سے ہوا ہے۔ جب لوگوں نے سی او سے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے، مسجد میں پانی کے بارے میں تو انہوں نے انہیں گالیاں دیں اور لاٹھی چارج کا حکم دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو کوئی سوال کرے گا اسے گولی مار دی جائے گی۔ ایس ڈی ایم اور سی او سنبھل نے دہشت پیدا کر دی۔ تاہم ڈی ایم نے صاف طور پر اس کی تردید کی اور کہا کہ ایسی کسی بھی افواہ کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ راجندر پنسیا نے کہا کہ ٹینک کا پانی پیمائش کے لئے نہیں بلکہ فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کے لئے خالی کیا گیا تھا۔ شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد کے لئے پولیس نے اب تک دو خواتین سمیت 25 مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیامنٹ ضیاء الرحمان برق سمیت 2500 سے زیادہ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ اتوار کے واقعہ کے ایک دن بعد پارلیامنٹ کے باہر بات کرتے ہوئے برق نے الزام لگایا کہ کچھ افسران نے اپنے بھی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ اپنے سروس ہتھیاروں سے بھی گولی چلائی اور اپنی کاروں کو آگ لگا دی۔ سنبھل پولیس نے ابھی تک ان کے الزامات کا جواب نہیں دیا ہے۔ ایس پی سربراه اکهلیش یادو نے پارلیامینٹ کے باہر ان الزامات کو دہرایا اور پولیس افسران کے خلاف کارروائی اور ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہ یہ واقعہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے کندر کی ضمنی انتخاب میں ووٹوں کی لوٹ مار سے توجہ ہٹانے کے لئے کیا گیا ہے۔ حیران کن نتائج میں بی جے پی نے یہاں جیت حاصل کی۔ پولیس نے اس معاملے میں کل سات ایف آئی آر درج کی ہیں۔ برق کا نام ایک ایف آئی آر میں ہے جس میں ان پر چند روز قبل ایک تقریر کے ذریعے ہجوم کو اکسانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ سنبھل پولیس کا ظلم و زیادتی نہ صرف قانون کی پامالی اور اخلاقی قدروں کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ جرائم میں اضافہ اور دہشت گردی کی پیدائش کا سبب بھی ہے۔ کاش!ہماری حکومتیں اس پر توجہ دیں۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter