بھارت میں مغلوں کی تاریخ نا قابل فراموش
بھارت کے عہد ِوسطیٰ میں سلاطینِ دہلی نے 1206 سے 1526 ء تک تقریباًپورے ہندوستان میں کامیاب حکومت کی اورپھر 1526 سے 1857 ء تک مغلوں نے بھارت کی ترقی اور نام و نمود میں مزید اضافہ کیا اور اپنے اعلیٰ نظم و نسق ، عدل و انصاف اور فنِ تعمیر سے ایسی چھاپ چھوڑ گئے کہ بھارت کی قرونِ وسطیٰ کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیش یاد رکھے جائیں گے ۔
حالیہ دنوں میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان زیر بحث ہے ،جس میں بارہویں کلاس کی تاریخ کی کتاب سے مغلوں کے عنوان کو ہٹا نے کا اعلان کیا گیا ۔اس کے علاوہ یوپی کی حکومت نے بھی اپنے سرکاری بورڈ سے مغلوں کے عنوان کو مکمل حذف کردیا ۔این سی ای آر ٹی بورڈ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر دنیش کمار نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ بچوں پر نصاب کا بوجھ زیادہ ہو رہا تھا ،جسے کم کرنے کے لیے بورڈ نے یہ قدم اٹھایا۔ مغلوں کے عنوان کے علاوہ گیارہویں درجےکی کتاب سے چند دوسرے مضامین جیسے اسلام کا آغاز ،عروج اور توسیع،تہذیبوں میں تصادم،صنعتی انقلاب بھی نصاب سے خارج کیے گئے ۔اس کے علاوہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کے عروج کی داستان اور آزادی کے بعد کانگریس کے دور حکومت کو بھی نصاب سے خارج کر دیا گیا۔
نصاب سے مغلوں کی تاریخ خارج کرنے پر اس وقت پورے ملک کے ہر طبقے میں خاص طور پر نیوز چینلوں پر خوب بحث چل رہی ہے ۔ بعض دانشور طبقوں کا ماننا یہ ہے کہ مغلوں کے عہد میں بھارت کی شہرت پوری دنیا میں بام عروج پر تھی ایسے میں نصاب سے انکی تاریخ کو حذف کرنا یہ ایک بہت بڑی ناانصافی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ نسل نو کو بھارت کے سنہری قرونِ وسطیٰ سے جاہل رکھنے کے مترادف ہے ۔وہیں دوسری طرف ہندتوا شدت پسند طبقے کے درمیان خوشی کا ماحول ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ مغل حملہ آور اور لٹیرے تھے ،جنھوں نے بھارت پر قبضہ کیا اور بہت سے راجپوتوں کو شکست دے کر ہندوستان میں حکومت کرتے رہے ۔مغلوں پر ان کا یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے بھارت میں ہندؤوں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے ،ایسے میں ان کی تاریخ کو پڑھانا ہندتوا کی کھلی توہین ہے ۔در اصل ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب و عنا د کا ایک سیل رواں موجزن ہے،جو انھیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکا نے کا کام کر رہا ہے ۔ان کے دلوں میں مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ اب وہ کسی جگہ یا کسی علاقے کامسلم نام سننا گوارا نہیں کرتے ،جس کے نتیجے میں آزادی کے 75 ویں سال (امرت مہوتس)کے موقع پر راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) کے مغل گارڈن کا نام بدل کر "امرت ادیان"کر دیاگیا اور اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں میں ملک میں کئی علاقوں کے مسلم ناموں کو بدل کر ہندو راجاؤں اور دیوتاؤں کے نام پر رکھ دیا گیا جیسے الٰہ آباد کو پریاگ راج ،مہاراسٹرا کا شہر اورنگ آباد جو معروف مغل حکمراں اورنگ زیب عالمگیر کے نام سے منسوب تھا اسے بدل کر چھترپتی شیواجی کے بیٹے سمبھاجی کے نام سے سمبھاجی نگر رکھا گیا ،اس کے علاوہ یوپی کے شہر گورکھپور میں چند علاقوں کے ناموں کو یوپی کے وزیر اعلیٰ نے بدل دیا جیسے علی نگر کو آریہ نگر ،اردو بازار کو ہندی بازار اور ہمایوں پور کو ہنومان پور کر دیا گیا ۔ اسی نفرت کےسلسلے کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ اب کتابوں سے مغلوں کی سنہری تاریخ کو نصاب سے ہٹا دیا گیا۔
کسی بھی ملک کی تاریخ ترقی اور تنزلی ہر اعتبار سے اس ملک کے مستقبل میں فائدے مندثابت ہوتی ہے کہ اگر ماضی کے سلاطین نے کچھ غلطیاں کی ہیں تو مستقبل میں ان سے بچا جائے اور ملک کی فلاح و بہبود کے لیے ماضی میں جو کام کیے گئے انھیں اپنا کر ملک کو اسی سابقہ پالیسی پر چلایا جائے ۔جب نئی نسل اپنے ملک کی تاریخ سے ناواقف ہوگی تو اپنے ملک کے مفاد اور نقصان کا فیصلہ کیسے کرے گی ۔دوسری بات یہ کہ ان کے بقول اگر مان بھی لیا جائے کہ مغلوں کے عہد میں کوئی کام نہیں ہو ا،صرف انھوں نے ملک کو لوٹا ہے اور ہندؤں پر ظلم و زیادتی کی ہے تو اس حقیقت کو کیسے چھپائیں گے کہ مغل حکمراں اورنگ زیب عالمگیر (1658ءسے1707ء) کے عہد میں پوری دنیا کی معیشت میں 24 فی صد حصہ صرف ہندوستان کا تھا ۔حق تو یہ ہے کہ مغلوں نے اپنے عہد میں دنیا میں ہندوستان کی جو شبیہ پیش کی ہے ،نہ اس سے پہلے کسی سلطنت نے پیش کی اور نہ ہی مستقبل میں کوئی حکومت پیش کر سکتی ہے لیکن افسوس کہ اتنی شان دار تاریخ رکھنے والی سلطنت مذہبی تعصب کے بھینٹ چڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔
نصاب سے عنوان ہٹا کر وہ سوچتے ہیں کہ ہم بھارت سے مغلوں کا نام ونشان مٹادیں گے لیکن مغلوں کے بنوائے آرکیٹکچرز جو آج پورے ہندوستان میں مغلوں کی کامیابی کا پتہ دے رہے ہیں ،کیا ان کو بھی مٹایا جا سکتا ہے ؟آج پوری دنیا میں ہندوستان تاج محل سے پہچانا جاتا ہے ،دنیا کے کسی بھی خطے سے آنے والا فرد بھارت آنے کے بعد پہلے تاج محل کودیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور تقریباً پانچ سو سالہ اس قدیم عمارت کی خوبصورتی آج بھی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے ۔بڑی دلچسپ بات یہ کہ مغل مخالف اس حکومت کے سربراہان بھی دل میں مغلوں کے لیے تعصب لیے اپنے مہمانوں کو تاج محل ،لال قلعہ اور دوسرے تاریخی عمارتوں کی سیر بھی کراتے ہیں۔اگر مغلوں سے اتنی ہی نفرت ہے تو انھیں مغل وقت کی ساری عمارتیں گر ادینی چاہیے لیکن یہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ اس صورت میں ان عمارتوں سے سالانہ کروڑوں کی آمدنی آنا بند ہوجائے گی ۔اس کا مطلب ہے کہ انھیں مغل حکمرانوں کو بدنام بھی کرنا ہے اور ان کی بنوائی عمارتوں سے سرکاری خزانہ بھی بھرتے رہنا ہے ۔
اِس حوالے سے دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو شدت پسند طبقے میں مغلوں کے خلاف تعصب کی ایک بڑی وجہ مغلوں کی راجپوتوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگیں ہیں ،جن میں مشہور کھانوا کی جنگ (Battle of Khanwa) جو 1557 ء میں پہلے مغل حکمراں بابر اور میواڑ کے راجہ رانا سانگا کے درمیان لڑی گئی ۔پھر ہلدی گھاٹی کی جنگ (Battle of Haldighati)ہے ،جو 1576ء میں مغل حکمراں اکبر اور رانا پرتاپ کے درمیان لڑی گئی ،اس کے علاوہ اورنگ زیب کے عہد میں مراٹھوں سے لمبے عرصے تک کشمکش چلتی رہی ، جن میں پہلی پورندر کی جنگ (Battle of Purandar)ہے جو 1665ء میں سپہ سالار جے سنگھ اور چھترپتی شواجی کے مابین ہوئی ۔اس کےعلاوہ سنہاگڑھ کی جنگ (Battle of Sinhagadh)ہے ،جو1670ءمغل کمانڈر ادے بھان سنگھ اور مراٹھا کمانڈرتانھاجی کے درمیان لڑی گئی ۔اس کے بعد بھی چھوٹی بڑی جھڑپیں مسلسل ہوتی رہیں، پھر 1689 ء میں اورنگ زیب عالم گیر اور چھترپتی سمبھا جی کے مابین لڑی جانے والی ایک جنگ میں سمبھاجی مارا گیا ۔ اس وقت ہندستان میں ایک تعصب پسند طبقہ کے ذریعہ جنگوں میں راجپوتوں کی شجاعتانہ داستانوں کو بیان کیا جا رہا ہے اور اس طرح ان کے سامنے مغلوں کو کمزور اور ڈرپوک ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔خیر اس طرح کی باتوں میں کس حد تک سچائی ہے ا س سے صرف نظرکرتے ہوئے ہوئے بھی اگر دیکھا جائے کہ کیا مغلوں کی تاریخ کے بغیر مراٹھا اور رانا پرتاپ کی تاریخ مکمل ہوسکے گی ۔آج ہندو طبقے میں ہر جگہ ان راجاؤں کی قصیدہ خوانی کی جارہی ہے ۔ان کی شجاعت و بہادری کے نغمے گائے جا رہے ہیں ،لیکن تعجب ہے مغلوں کی تاریخ کو حذف کر کے یہ ہندو راجاؤں کی جھوٹی بہادری کا ثبوت کیسے پیش کریں گے!
یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی کتابوں سے ہٹا کر بھارت میں مغلوں کی تاریخ کو مٹایا جا سکتا ہے !ہر گز نہیں ،مذہبی تعصب کی بنا پر یہ لوگ ان کی تاریخ کو نصاب سے تو ہٹا سکتے ہیں لیکن ان کے بنوائے ہوئے تعمیری شاہ کار ہر وقت اور ہر دورمیں مغلوں کی کامیا ب حکومت کا اعلان کریں گے ۔ذیل میں مغلوں کے دور میں نبی چند مشہور عمارتوں کا تاریخی پس منظر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں :
- آگرہ قلعہ: قلعہ آگرہ بھارت کے اتر پردیشصوبہ کے آگرہ شہر میں واقع ہے۔ اسے لال قلعہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے تقریبا 2.5 کلومیٹر جنوب مغرب میں ہے، دنیا کی مشہور یادگار تاج محل واقع ہے۔تیسرے مغل بادشاہ اکبر (1556ء سے 1605)نے اپنے دور اقتدار میں 1565ءمیں اسے بنوانا شروع کیا اور پورے 9 سالوں کے بعد 1574 ء میں یہ قلعہ بن کر تیار ہوا ۔ 1983ء میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم ،سائنس اور ثقافت (UNESCO)نے اسے عالمی ورثہ (World Heritage) قرار دیا۔
- فتح پور سیکری: بھارت کے اترپردیش کے ضلع آگرہ میں واقع ایک شہر ہے، اس کی بنیادتیسرے مغل شہنشاہ اکبر نے 1569 میں رکھی تھی اور 1774ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی ۔ آج یہ سب سے زیادہ مقبول سیاحوں میں سے ایک ہے ۔ فتح پور سیکری کچھ مشہور عمارتوں کا گھر ہے جس میں جودھا بائی کا محل، جامع مسجد، بلند دروازہ، اور فخر کرنے کے لیے سلیم چشتی کا مقبرہ ہے ۔یونیسکو نے 1886ء میں فتح پور سیکری کو عالمی ورثہ قرار دیا۔
- لال قلعہ: یہ عہد مغلیہ کا ایک شاندار تعمیری شاہ کار ہے،جسے پانچویں مغل حکمراں شاہ جہاں (1627ء سے 1657ء) نے سترہویں صدی میں دہلی میں تعمیر کرایا،لال قلعہ کی تعمیر کا آغاز 1639ء میں ہوا اور پورے دس سالوں کے بعد 1648 ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی ۔فن تعمیر اور عمدہ کاریگری میں یہ قلعہ دنیا بھر میں مشہور ہے ۔آزادی ہند کے بعد سے ہر سال یوم آزادی کے موقع پربھارت کے وزیر اعظم کے ہاتھوں لال قلعے ہی سے ہی پرچم کشائی کی جاتی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم ،سائنس اور ثقافت (UNESCO)نے 2007 ء میں اسے عالمی ورثہ (World Heritage) قرار دیا۔
- تاج محل : تاج محل سفید سنگ مرمر سے بنا ہوا ایک بہت بڑا مقبرہ ہے جو دریائے جمنا کے کنارے واقع ہے اور تقریباً 17 ہیکٹر اراضی پر محیط ہے۔ اس کی تعمیر 1630 عیسوی میں مغل بادشاہ شاہ جہاں کے حکم پر شروع ہوئی جو اسے اپنی بیوی ممتاز محل کی آرام گاہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ تعمیر 1649 عیسوی میں تکمیل کو پہنچی۔تاج محل کو اس وقت دنیا کے سات عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے ۔ملک اور بیرون ملک سے روزانہ ہزاروں لوگ یہاں سیر و تفریح کے آتے ہیں ۔یونیسکو نے اسے 1982ء میں عالمی ورثہ قرار دیا۔
- مسجد جہاں نما:جو جامع مسجد دہلی کے نام سے مشہور ہے، بھارت کے دار الحکومت دہلی کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کیا جو 1656ء میں مکمل ہوئی۔ یہ بھارت کی بڑی اور معروف ترین مساجد میں سے ایک ہے اور پرانی دلی کے مصروف اور معروف ترین مرکز چاندنی چوک پر واقع ہے۔
- ہمایوں کا مقبرہ:بھارت کے شہر دہلی میں واقع دوسرے مغل بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کا مقبرہ ہے جو اس کی بیوی حمیدہ بانو بیگم نے 1562ء میں بنوایا۔ یہ مقبرہ لال پتھر سے بنا ہوا ہے۔ 1993ء ء میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں اس کا اندراج ہوا ہے۔ اس طرح کے طرزِ تعمیر کا نمونہ ہندوستان میں اوّلین ہے۔اس میں ہندوستانی اور ایرانی طرزِ تعمیر کا امتزاج پایا جاتا ہے۔یہاں مقبرۂ ہمایوں کے علاوہ دوسرے مقبرے اور مسجد بھی ہیں۔ اس لیے "مغلوں کی بسترگاہ" کے نام سے بھی یہ یادگار جانی جاتی ہے۔
- بی بی کا مقبرہ : جو کہ اورنگ آباد مہراشٹر میں واقع ہے ،اسے اورنگزیب نے 1660ء میں اپنی بیوی دل راز بانو بیگم کی یاد میں تعمیر کروایا،یہ تاج محل سے مشابہت رکھتا ہے ،اسی لیے اس کو دکن کا تاج محل بھی کہا جاتا ہے ۔
مذکورہ مقامات کی شہرت ملک اور بیرون ملک میں یکساں ہے ، روزانہ ہزاروں لوگ ان مقامات پر سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں اور ان خوبصورت اور حسین عمارتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ان کے علاوہ مغلوں کے کچھ آرکیٹیکچرز اور بھی ہیں جو اِس وقت لاہور (پاکستان ) اور ڈھاکہ (بنگلہ دیش) میں موجود ہیں ۔ان خوبصورت اور پر کشش عمارتوں میں اس قدر جذابیت ہے کہ بلا تفریق مذہب و ملت لوگوں کو ہمیشہ سے اپنی طرف مائل کر کر رہی ہیں ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض نصاب سے ہٹاکر مغلوں کی تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا،آپ کتابوں میں پڑھائیں یا نہ پڑھائیں مغلوں کی تاریخ ان عمارتوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی رہے گی اور یہ تعصب پسند طبقہ کبھی اپنے مقصد میں کام یاب نہیں ہوگا۔