تحریک جنگ آزادی اور مسلم علما کا کردار (قسط دوم)
سنہ عیسوی 1857 ٕ میں اہل سنت وجماعت کےجید اکابر علما ومفتیان دین متین سے جنگ آزادی کی شروعات ہوٸی مگر چونکہ علم حق سب سے پہلے بلند کرنے والے اور انگریزوں کے خلاف استفتا پیش کرکے مفتیان اسلام سے فتوی طلب کرنے والے علامہ فضل حق خیرآبادی تھے اس لیے دور حاضر کےاکابر علما اس بات کو تسلیم کرتےہیں کہ اس تحریک جنگ آزادی کے امیرکارواں اور سرخیل علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ ہیں ۔
امیر کارواں سرخیل علما امام المنطق والفلسفہ قاٸد تحریک ہونے کی وجہ سے بالتفصیل علامہ صاحب کا ذکر جمیل ہوا اب ہم چند ان علما سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں جن پر بہت کم افراد ہی خامہ فرساٸی کی جرأت کرتےہیں :
علامہ سید شاہ احمداللہ مدراسی ۔
سنہ عیسوی 1788 اور سنہ ہجری 1204 ھ میں ایک سادات ونواب گھرانے میں آپ کی ولادت باسعادت ہوٸی ۔ نام احمد رکھاگیا عرفیت ضیا ٕ الدین اور دلاور جنگ مدراسی آپ کا خطاب تھا ۔ آپ گولکنڈہ حیدرآبادی حکومت کے بادشاہ ابوالحسن تانا شاہ کے اولاد میں سے تھے ۔
چار سال چار ماہ چار دن کی عمر میں رسم بسم اللہ ادا کی گٸ ، اس کےبعد وقت کےاکابر علما ومفتیان عظام سے مروجہ علوم وفنون کی تکمیل کی اور دستار علم وفضل سے نوازے گٸے تحصیل علوم کے بعد براٸے سیروسیاحت شہر حیدرآباد جانا ہوا وہاں کی آب وہوا نے آپ کو اتنا مسحور کیا کہ وہی کےہوکر رہ گٸے ۔ اور پھر وہی پر آپ کی شادی طی پاٸی ، شادی کے کچھ ہی ماہ بعد آپ کی اہلیہ محترمہ داغ مفارقت دے گٸی ۔
پھر اس کے بعد آپ نے زیارت بیت اللہ شریف وروضٸہ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے لیے رخت سفر باندھا اور بعد زیارت حرمین طیبین آپ کا ورود مسعود جی پور ہوا اور یہاں آپ کی ملاقات فخرملت حضرت شاہ قربان علی علیہ الرحمہ سے ہوٸی چہرہ کی چمک ودمک اور نورانیت کو دیکھ کر فورا ہی فریاد کردی کہ آپ ہمیں بیعت کرلیں حضرت فخرملت نے اسی وقت سلسلہ عالیہ چشتیہ کی اجازت و خلافت عطافرماٸی ۔
ان دنوں حضرت محراب علی علیہ الرحمہ کی ولایت وکرامت کا ہرچہار جانب ڈنکا بج رہاتھا علامہ مدراسی حضرت سے ملاقات کےلیے پہنچے حضرت محراب علی علیہ الرحمہ نے بھی آپ کو خرقہ وخلافت سے سرفراز فرمایا ۔ حضرت محراب علی سے آپ نے کافی استفادہ فرمایا اور خاص کر حریت وجہاد کا جذبہ آپ کو حضرت محراب علی علیہ الرحمہ ہی کے در سےملا اور شیخ طریقت کی صحبت باکرامت ہی کی وجہ سے آپ میدان کارزار کے سپہ سالار بنے ۔
علامہ شاہ مدراسی نے بھی علامہ فضل حق خیرآبادی کی طرح جنگ آزادی میں قاٸدانہ کردار ادا کیا ہے اور خود کی ایک تاریخ رقم کی ہے شیخ طریقت کی صحبت سے ملے جذبے سے انگریزوں کے خلاف جہاد کرتے ہوٸے آپ لکھنٶ پہنچ گٸے اور لکھنٶ کے آدھے حصہ پر قبضہ بھی جمالیے تھے مگر کچھ نااہل لاشعور قسم کے لوگوں نے دھوکہ دہی کی اور جو کچھ بھی ہاتھ آیا تھا وہ بھی ہاتھ سے نکل گیا اخیر میں سنہ 1274ھ اور سنہ عیسوی 1858کو ( یعنی علامہ فضل حق خیرآبادی کے انتقال سے تین سال پیشتر ) دو پہر کےوقت بڑی بے دردی کے ساتھ آپ کو شہید کردیا گیا ۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ۔
اللہ پاک آپ کی قبر مبارک پر رحمت وانوار کی بارشیں نازل فرماٸے آمین ۔
علامہ عنایت احمد کاکوروی ۔
( صاحب علم الصیغہ )
نام عنایت احمد ہے مسلکا حنفی نسبا قریشی تھے والد ماجد کا نام منشی محمد بخش بن غلام محمد ہے ، ولادت باسعادت سنہ 1228ھ اکتوبر 5 سنہ1813 ٕ کو ضلع بارہ بنکی میں ہوٸی ، بچپن میں ہی بارہ بنکی سے اعزا واقربا کے ساتھ کاکور چلے آٸے پھر یہی پر سکونت اختیار کرلی اسی شہر کی مناسبت سے آپ کاکوروی کہلاتےہیں ۔
تیرہ برس کی عمر میں رامپور کی طرف تحصیل علم کےلیے سفر فرمایا حضرت علامہ سید محمد علی رامپوری سے صرف ونحو کی کتابیں پڑھی اور مولانا علامہ حیدر علی و مولانا مفتی نورالاسلام صاحبان سے چند دیگر کتابوں کا علم حاصل کیا دورہ حدیث کےلیے علامہ شاہ اسحق محدث دہلوی کےپاس پہنچے اور تھوڑےہی عرصہ میں دستار فضیلت سےنوازے گٸے علم حدیث کےبعد علوم معقولات میں ماہر وبارع ہونےکےلیے علامہ بزرگ علی ( شاہ عبدالعزیز کےنامور شاگرد ) علیہ الرحمہ کےپاس علی گڑھ تشریف لاٸیں ۔
پھر استاذ علامہ بزرگ علی کےانتقال کےبعد مفتی عنایت کاکوروی صاحب کو استاذ عالی مرتبت کےمقام وعہدہ پر بٹھایا گیا پھر یہاں سے ہجرت کرکے بریلی تشریف لاٸیں اور صدرالامین کےمنصب پر فاٸز ہوٸے پھر آگرہ جلوہ گری ہوٸی صدر الصدور کے منصب جلیل پر منتخب ہوٸے ۔
جنگ آزادی میں علامہ عنایت کاکوروی کی ذات پاک بھی زمرہ قاٸدین میں شمار ہوتی ہے ، آپ آگرہ سے اپنے وطن تعطیل پر آٸے ہوٸے تھے جنگ آزادی کے شعلے بھڑک اٹھنے کی وجہ سے دوبارہ آگرہ نہیں جاسکے اور سنہ 1857 ٕ میں انگریزی بغاوت کےالزام میں حبس ودوام کی سزا سناکر جزیرہ انڈمان میں بھیج دیا گیا ۔
علامہ کاکوروی صاحب نے عمر کا ایک بڑا حصہ قید وبند کی مصیبتیں برداشت کرتےہوٸے اسی جزیرہ میں گزارا ۔ لیکن وقت کو آپ نے ضاٸع نہیں فرمایا بلکہ اس میں چند اہم کتب تصنیف فرماٸی جن میں سے کچھ درس نظامی کے کورس میں آج بھی داخل نصاب ہیں ۔
علم الصیغہ (صرف ) توارخ حبیب الہ (سیرت)
سوانح میں ہے کہ آپ پہلے حافظ قرآن نہیں تھے جب جیل سے نکلے تو مکمل قرآن پاک کے آپ حافظ بن چکےتھے ۔
1277 سنہ ہجری میں آپ کی رہاٸی ہوٸی ، اس کےبعد کانپور میں مستقل طور پرآپ قیام پزیر ہوگٸے اور تعلیمات اسلام کی نشرواشاعت کے لیے وہی پر ایک مدرسہ بنام فیض عام قاٸم فرمایا ۔
معاصرین میں علامہ فضل حق خیرآبادی ، مفتی مظہرکریم مفتی کفایت علی مراد آبادی وغیرھم آتے ہیں ۔
وصال شریف
کانپور سے حج کےلیے روانہ ہوٸے مگر ابھی پہونچ نہ سکے تھےکہ جہاز کےبھٹک جانے سے ایک چٹان سے ٹکرا جانےکی وجہ سے جہاز پاش پاش ہوگیا ، اور آپ 17 شوال المکرم سنہ 1279 ھ 17 اپریل سنہ 1863 ٕ کو بحالت سفر باون سال کی عمر میں مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوٸے ۔
اللہ پاک آپ پر رحمت وانوار کی بارشیں نازل فرماٸے آمین ۔
علامہ کفایت علی کافی مراد آبادی ۔
ضلع بجنور کے ایک سادات گھرانے میں آپ تولد ہوٸے ۔ نام کفایت علی رکھا گیا شاعری میں کافی تخلص سے پہچان ملی ۔ والد صاحب بڑے متقی پرہیزگار اور پابند صلوہ مسلمان تھے ۔ تحصیل علم علماٸے بریلی وبدایوں سے کیا ، آپ ایک جید عالم دین شیخ طریقت باوقار وباعظمت وبااثر مقرر تھے مفتی دارالافتا تھے جو کہتے اس پر سب سے پہلے عمل کرکے دکھاتے ۔ عاشق رسول وعاشق صحابہ واہل بیت تھے ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ورضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ) آپ کی انہیں خصوصیات کی وجہ سے بہادر شاہ ظفر کے دل میں آپ کےلیے بےحد احترام ووقار تھا ۔
انگریزوں کے خلاف فتوی دینے کی وجہ سے آپ کو بھی محبوس کرلیا گیا تھا قیدخانہ میں طرح طرح کے مظالم ڈھاٸےگٸے پھرمرادآباد کے چوراہے پہ لاکر آپ کی آخری خواہش پوچھی گٸی تو آپ کے زبان سے بے ساختہ یہ چند اشعار نکلے تھے :
کوٸی گل باقی رہے گا نے چمن رہ جاٸےگا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جاٸےگا
جو پڑھےگا صاحب لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جاٸے گا
سب فنا ہوجاٸیں کافی ولیکن حشر تک
نام حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جاٸےگا ۔
( اس کے اور بھی اشعار ہیں مذکورہ کےعلاوہ )
پھر پھانسی دے کر بڑی تکلیف والم کےساتھ سنہ 1274 ھ سنہ عیسوی 1858 ٕ 27 رمضان المبارک میں جمعرات کےدن عصرکےوقت بحالت روزہ آپ کو شہید کردیا گیا اور اس طرح آپ اپنے مالک وخالق حقیقی سے جاملے ۔
اللہ پاک آپ کے درجات کو بلندیاں عطافرماٸے آمین ۔
اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخاں علیہ الرحمہ علامہ کافی صاحب علیہ الرحمہ کےعشق رسول کی شمع کو دیکھ کر کافی صاحب کا کچھ اس طرح تذکرہ کرتےہیں :
پرواز میں جب حدیث شہ میں آٶں
تاعرش پرواز فکر رساں میں جاٶں ۔
مضمون کی بندش تو میسر ہے رضا
پر کافی کا درد دل کہاں سے لاٶں ۔
جنگ آزادی میں ان مذکورعلما کےعلاوہ اور دیگر علما بھی شریک تھے جو اپنے آپ میں خود ایک انجمن کی حیثیت رکھتے تھے ۔ چندکے اسما سپرد قرطاس کیے جاتےہیں :
(١) علامہ مفتی صدرالدین آزردہ علیہ الرحمہ
(٢) علامہ لٕیاقت علی الہ آبادی
(٣) علامہ رضا علی خاں جد امجد اعلی حضرت ۔
(٤) علامہ رحمت اللہ کیرانوی ۔
(٥) علامہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی
(٦) سرفروش وطن شہید اشفاق اللہ خاں
(٧) شہیدحریت نواب خاں بہادر خاں
(٨) علامہ عبدالباری فرنگی محلی وغیرھم رحمھم اللہ تعالی
واللہ اعلم بالصواب ۔