رمضان المبارک کا مہینہ کیسے گزاریں؟
رمضان المبارک کا مہینہ بڑی برکتوں اور بڑی فضیلتوں کامہینہ ہے۔ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کی طرف سے انسانوں کو خصوصی سہولیات ملتی ہیںاور اس کے خصوصی انعام دنیائے انسانیت پر ہوتے ہیں۔اس ماہ مبارک میں اللہ کی رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ آسمانوں کے دروازے بھی کھول دیے جاتے ہیں اور ان سے انوار و برکات اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔ رمضان المبارک میں عبادات کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ فرض کا ثواب 70 گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ نفل کا ثواب فرض کے برابر کر دیا جاتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔اس ماہ کے آخری عشرے کا اعتکاف مسنون ہے۔
رمضان المبارک میں اللہ رب العزت کی طرف سے یہ انعام و اکرام اور نوازشیں اور ان کے برکات ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیںکہ عام دنوں میں جن لوگوںکے لیے عشاءکی سترہ رکعات پڑھنا مشکل ہوتا ہے، وہ رمضان میں بیس رکعات مزید پڑھ لیتے ہیں۔ سحر خیزی کی دولت سے محروم بہت سے لوگ تہجد کے پابند ہو جاتے ہیں۔ ذکر و تلاوت کامیں سب کے معمولات میںاضافہ ہو جاتا ہے۔ان کے ساتھ ساتھ اللہ کے لیے صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہنا آسان ہو جاتا ہے۔پورے مہینے فضا میں نور و نکہت کی بارش محسوس ہوتی ہے۔ لڑنے جھگڑنے والے روزہ کی ڈھال سے اپنے غصے کا مقابلہ کرنے لگتے ہیں۔ نگاہیں جھک جاتی ہیں اور دل انوار الٰہی کے دیدار میں محو ہو جاتے ہیں۔
قرآن مجید میں رمضان کی کئی فضیلت بیان کی گئی ہیں اور احادیث میں تو رمضان المبارک کے فضائل اتنی کثرت سے آئے ہیں کہ ان کے بیان کے لیے مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ رمضان المبارک کے فضائل سے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں حاضرین سے فرمایا کہ تم لوگ ممبر کے قریب آ جاﺅ۔ جب لوگ قریب آ گئے تو آپ ممبر پر چڑھے۔ جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھاتوفرمایا ’آمین‘۔ اس کے بعد دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا کہ ’آمین‘۔ اس کے بعد تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو بھی فرمایا ’آمین‘۔ جب آپ ممبر سے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آج ہم نے آپ سے ایک ایسی بات سنی جو کبھی نہیں سنی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میرے سامنے جبرئیل (علیہ السلام) آ گئے اور انھوں نے کہا کہ برباد ہو جائے وہ شخص جس کو رمضان المبارک کا مہینہ ملا لیکن وہ اپنی بخشش نہ کروا سکا، تو میں نے کہا آمین۔ یہ ایک طویل روایت ہے۔ متعدد کتب احادیث میں مروی ہے۔اس حدیث کے دو حصے اور ہیں لیکن اس کا پہلا حصہ خاص رمضان سے متعلق ہے۔اس لیے یہاں اس کو ذکر کیا۔
قابل غور بات یہ کہ رمضان المبارک تو اللہ رب العالمین کا عطیہ ہے لیکن اس عطیہ سے بہرہ مند ہونے کی ذمہ داری خود انسان کی ہے۔یعنی انسان کو کوشش کرکے اس ماہ مبارک میں اپنی مغفرت کو یقینی بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہر شخص کو اپنے طور پر ہر ممکن طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ اس کی مغفرت کی شکل پیدا ہو سکے۔ اس نقطہ نظر سے رمضان المبارک کی مبارک ساعات کو بہت احتیاط اور پورے دھیان سے گزارنے کی ضرورت ہے۔
رمضان المبارک کے بابرکت ایام کو صحیح طرح سے گزارنے اور ان سے پورا فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں قرآن و حدیث میں متعدد ہدایات ہیں۔لوگ عام طور پر ان ہدایات پرعمل بھی کرتے ہیں۔ ان کو اگر ترتیب وار دیکھاجائے توان ہدایات میں حسب ذیل اموراضافی اہمیت کے ہیں اور زیادہ اہم ہیں۔
نوافل کا اہتمام:
رمضان المبارک میں نوافل کا ثواب فرض نماز کے برابر ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایک نفل نماز پڑھنے کا مطلب ہے ایک فرض کو ادا کرنا۔ اس لیے رمضان المبارک میں کثرت سے نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تراویح تو عام طور پر لوگ پڑھتے ہیں۔ ان کے علاوہ تہجد کے وقت دو یا چار نفل ضرور پڑھ لیں اور مغرب کی سنتوں کے بعد دو یا چھ نوافل کا اہتمام کرنے کی کوشش کریں۔ ساتھ ہی اشراق کی نماز کو کم از کم رمضان المبارک میں اپنا معمول بنا لیں۔ ان کے علاوہ بھی حسب موقع اور سہولت نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے۔
تلاوت قرآن مجید:
رمضان المبارک کو تلاوت قرآن سے خاص مناسبت ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید رمضان المبارک میں ہی نازل ہوا۔ رمضان المبارک میںحضرت جبرئیل علیہ السلام پورا قرآن مجیدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سنایا کرتے تھے اور ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتے تھے۔ اس لیے رمضان کو قرآن سے بڑی مناسبت ہے۔ اس لیے رمضان المبارک میں کم از کم تین پارہ یومیہ تلاوت کا معمول بنائیں۔ رمضان میں تلاوت کے لیے کوئی خاص وقت بھی متعین نہ کریں بلکہ ہر نماز کے بعد حسب سہولت تلاوت کر لیں۔ اس طرح قرآن مجید سے شغف اور تعلق میں اضافہ ہوگا اور اس کے ذریعے اجر کا جو ذخیرہ جمع ہوگا اس کا اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ اس کو پورے طور پر اللہ رب العالمین کے لیے چھوڑ دیں۔
تلاوت کے وقت ایک بات ہمیشہ ملحوظ رہے کہ قرآن کا مقصد صرف الفاظ کی تلاوت نہیں ہے بلکہ قرآن مجید کا مفہوم سمجھنا اور اس کی ہدایات کو اپنی زندگی میں شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ قرآن اصلا تو عمل کے لیے نازل ہوا تھا، اس لیے جب تک قرآن کو سمجھا نہ جائے، اس وقت تک گویا نزول قرآن کا مقصد پورا نہیں ہوا۔ جو لوگ عربی جانتے ہیں وہ تو سمجھ لیں گے لیکن جو عربی نہیں جانتے وہ پہلی فرصت میں یہ نیت کریں کہ وہ عربی سیکھیں گے تاکہ قرآن مجیدکو سمجھ سکیں۔ جب تک عربی نہیں سیکھ پاتے اس وقت تک قرآن کا ترجمہ پڑھ کر اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔اسی کے ساتھ کسی معتبر عالم کی نگرانی بھی رکھیںتاکہ فہم قرآن میں کوئی غلطی نہ ہو۔
صدقات:
تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں جتنا ہو سکے دوسروں کی مدد کریں۔ ویسے تو سب کی مدد کریں لیکن خاص طور پر ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کریں۔ رمضان المبارک کا ایک نام شہر المواساة یعنی ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ بھی ہے۔ اس ماہ مبارک میں دوسروں کی خبر گیری کرنا اس ماہ کے مقاصد میں سے ہے۔ غریبوں کی خصوصی مدد کے لیے اس مہینہ میں صدقہ الفطر واجب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جتنا ہو سکے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔بہت سے لوگ اسی ماہ مبارک میں اپنی زکوةبھی نکالتے ہیں یہ بھی اچھا عمل ہے۔
خدمت:
اس مہینہ میں ایک ضروری کام خدمت ہے۔جہاں تک ہو سکے اپنے معاشرے اور اپنے گرد وپیش کی خدمت اور خبر گیری کریں۔خدمت کا آغاز اپنے گھر والوں سے کریں۔ جن کے پاس ان کے والدین کی دولت موجودہو وہ سب سے زیادہ ماں باپ کی خدمت کریں۔ ان کے علاوہ میاں بیوی ایک دوسرے کی خدمت کریں۔ اپنے بچوں کی خبر گیری کریں۔ ضعیف رشتہ داروں اور محلے کے بزرگوں کی خدمت کریں۔خدمت بھی ایک عظیم عبادت ہے۔
شکر نعمت:
رمضان المبارک میں دنیائے انسانیت کی سب سے بڑی نعمت انسانوں کو ملی یعنی قرآن مجید کا نزول ہوا۔اللہ کی اس عظیم نعمت اس پر اللہ رب العزت کا شکریہ ادا کرنا بہت ضروری ہے۔اگر یہ نعمت نہ ہوتی تو نہ جانے ہم کن اندھیریوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے۔اس لیے یہ اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔اس پر اس کا زیادہ سے زیادہ شکریہ ادا کریں۔ اس کے علاوہ بھی اس کی بے شمار نعمتیں ہیں جو ہم پر ہمہ وقت سایہ فگن ہیں۔ خود اللہ کا فرمان ہے کہ اس کی نعمتوں کو گننا چاہیں تو نہیں گن سکتے۔ اس لیے اس کی تمام نعمتوں پر شکر ادا کریں۔ شکر عبادت بھی ہے اور شکر کی وجہ سے نعمتوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ شکر کا ایک مطلب یہ ہے کہ زبان سے شکر ادا کریں۔ ایک مطلب یہ ہے کہ اس نے جس کام کا حکم دیا ہے اس کو بجا لائیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اپنے اعضا و جوارح سے کوئی ایسا کام نہ کریں جو اس کی نافرمانی کا موجب ہو۔
نفس کی تربیت:
رمضان المبارک میںسب سے ضروری کام نفس کی تربیت ہے۔ یہ روزہ کے مقاصد میں شامل ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ روزہ ڈھال ہے۔ اگر کوئی روزے سے ہو تو اس کو فحش گوئی نہیں کرنی چاہیے۔ نہ شور و غوغا کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو وہ کہے کہ میں روزے سے ہوں۔ یعنی میں جھگڑا نہیں کروں گا (بخاری)۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ نہیں ملتا (ابن ماجہ)۔ اس لیے اس پر خصوصی توجہ رہنی چاہیے کہ روزے کے ذریعے ہمارے نفس کی اصلاح ہو، باطن کا تزکیہ ہو، ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ کسر نفسی پیدا ہو، صبر و برداشت کا مادہ پیدا ہو، ہم معاف کرنا سیکھ جائیں، ہمارے اندر جتنے یہ خصائص پیدا ہوں گے، تقویٰ کا معیار اسی اعتبار سے بلند ہوتا جائے گا۔اور روزے کے مقاصد بھی پورے ہوں گے۔
رمضان المبارک کے ماہ مبارک کو گزارنے سے متعلق یہ چند مشورے ہیں۔ ان کی ضرورت سب سے زیادہ کہنے والے کو ہے۔ کہنا بھی ایک طرح سے خود کو دعوت دینا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہ مبارک سے پوری طرح مستفید ہونے کی توفیق نصیب فرمائے اور اس ماہ کو ہمارے لیے مغفرت کااور اپنی رضا مندی حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے۔