اسلام میں تربیت اولاد کی اہمیت

اسلام دنیا کا ایسا  واحد مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو ایک دقیقہ کے لیے  بھی تنہا نہیں چھوڑتا ، اسلام مسلمانوں کو جہاں ایک طرف فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی پر ابھارتا ہے  تو وہیں نوع بنی آدم کے ہر شعبہ حیات میں بھی مکمل طور سے رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے، اگر ہم اولاد کی بات کریں تو ہر انسان کی اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں یہی دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالی اسے نیک صالح اولاد عطا فرمائے  جو کہ زوجین کی  زندگیوں کو خوشیوں سے بھر دے اور مستقبل میں ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے، بلاشبہ ہر والدین اپنے بچوں  کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ، خود تو فاقہ کشی کی صعوبتیں جھیل لیتے ہیں ، خود تو پھٹے پرانے کپڑوں پر اکتفا کر لیتے ہیں، لیکن اپنے لعل کے لیے اچھے سے اچھا کھانا اور مناسب کپڑوں کا انتظام کرتے ہیں اور  پوری دنیا کے والدین کا یہی حال ہے گویا کہ یہ ایک فطری چیز ہے جسے من جانب اللہ تمام والدین کے دلوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ اس میں امیر و غریب جوان اور بوڑھے کی کوئی قید نہیں ، یقیناً والدین کو اپنی اولاد  سے محبت کرنا چاہیے  اور اس کی پرورش کا اچھا انتظام بھی کرنا چاہیے   لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی چیز والدین کے لئے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنا ہے اور بچوں کے تیئں  والدین پر یہ  سب سے بڑا فریضہ ہے ، کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدین بچوں کے کھانے پینے اور دوسری چیزوں کا خوب خیال رکھتے لیکن تربیت اولاد جو کہ سب سے ضروری چیز ہے اسی کو بھول جاتے ہیں، پھر مستقبل میں وہی بچہ جس کے حوالے سے والدین کے دلوں میں کافی حسرتیں اور امیدیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب وہ اس قدر بے راہ روی کا شکار ہو چکا ہے کہ اس کی نگاہوں میں  والدین کی کوئی قدرو منزلت ہی نہیں بچی ۔ 

دور حاضر میں مسلم نوجوان جس بے راہ روی کے شکار ہیں یہ ایک قابل ذکر مسئلہ  ہے، اس کو سمجھ کر اس کے حل کے طریقوں کو جاننے سےپہلے ہم نوجوان طبقے کو دو حصوں میں تقسیم کرتے  ہیں ۔ 

پہلا حصہ ان نوجوانوں کا ہے جو دینی و عصری دونوں طرح کے علوم سے مکمل طور سے عاری ہیں، ان کے شب و روز دوستوں اور یاروں کے ساتھ مستی  مذاق میں گزرتے ہیں، نہ ان کے پاس گفتگو کرنے کا طریقہ ہے نہ ہی اپنے حرکات و سکنات سے وہ مسلمان معلوم  ہوتے ہیں گویا کہ دنیا کی تمام خامیاں ان کے اندر موجود ہیں، ان کی زندگیوں کو اگر ہم جانوروں سے تشبیہ دیں تو بے جا نہ ہوگا ۔ 

دوسرے حصے میں وہ نوجوان لڑکے ہے جنہوں نے عصری علوم میں  تو خوب مہارت حاصل کی اور دنیا کی نظر میں باعذت  ہیں لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے  ان کے پاس کوئی جمع پوجی نہیں ہے،نماز،روزہ، حج اور زکوۃ جو کہ اسلام کے بنیادی ارکان ہیں افسوس کہ وہ ان بنیادی چیزوں سے بھی مکمل طور پر ناآشنا ہیں، مغربی تہذیب کے  اس قدر دل دادہ ہو چکے ہیں کہ وہ اپنی شناخت کو بھولے بیٹھے  ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ وہ دین سے اس قدر غافل ہیں؟ کیوں مسلمانوں کے بچے غیروں کی بودو باش اختیار کیے ہوئے ہیں؟

تو سب سے پہلا سوال ان بچوں کے والدین پر کھڑا ہوگا کہ آخر آپ نے اپنے بچوں کی  تربیت کیوں نہیں کی؟ اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے آپ اتنے غیر ذمہ دار کیسے ہو سکتے ہیں؟ آج مسلم لڑکیاں سڑکوں اور بازاروں میں بے حجاب گھوم رہی ہیں لیکن والدین خاموش ہیں، والدین کے سامنے بچے بد زبانیاں کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں لیکن والدین خاموش ہیں، گویا کہ ایسے والدین اپنے بچوں کے گناہوں میں برابر کے شریک ہیں، اس وقت ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار والدین بھی موجود ہیں جو  نماز ، روزہ اور دیگر نیک اعمال کے پابند ہیں، اور  اس ظن فاسد میں مبتلا ہیں کہ میں نمازی ہوں میری اولاد کچھ بھی  کرے مجھے اس سے کیا سروکار! تو ایسی فکر رکھنے والے تمام والدین کو میں یہ پیغام دیتا ہوں کہ  اگر آپ ایسا گمان رکھتے ہیں تو آپ غلطی کے شکار ہیں  کیونکہ  قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے، اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ (سورہ تحریم آیت نمبر 6)اور ایک حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے ک بروز قیامت اس شخص پر سب سے زیادہ عذاب ہوگا جو اپنے گھر والوں کو نماز اور دیگر اعمال صالحہ کا حکم نہ دے  اور گناہوں سے نہ روکے۔ 

 اس سے معلوم ہوا کہ اگر والدین اپنے بچوں کو راہ راست کی طرف نہ بلائیں تو آخرت میں ان سے سخت حساب و کتاب ہوگا ، لہذا تمام والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو ہر قسم کے گناہوں سے روکیں اور انھیں متبع شریعت بنانے کے لیے خوب جد و جہد کریں۔اور اس کام کا سب سے اچھا اور آسان طریقہ یہ ہے کہ والدین  بچپن ہی سے اپنی اولاد  کی تربیت شروع کر دیں، گھر میں اسلامی ماحول بناۓ رکھیں، خود بھی نماز پڑھیں اور بچوں کو بھی نماز پڑھنے کا حکم دیں ،بچوں کے سامنے جھوٹ نہ بولیں اور نہ ہی کبھی واہیات باتیں کریں ، کیونکہ بچے والدین کا عکس ہوتے ہیں ،اور آپ کے تمام کاموں کو کاپی کرنے کوشش کرتے ہیں ، بچوں کے دلوں میں ابتدا ہی سے قرآن کی محبت پیدا کریں اور سیرت مصطفی ﷺ کی مشکبار کرنوں سے ان کے دلوں کے نہاں خانوں کو منور کریں، ان شاء اللہ آپ کی اولاد آپ کے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے  اور ان کی برکت سے آپ کو دونوں جہان میں سرخروئی حاصل ہوگی۔ 

اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولی  ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن فرمائے ۔ 

از قلم: محمد احمد حسن  امجدی۔ 

ریسرچ اسکالر۔ البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ۔ 
8840061391

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter