اللہ کے رسولﷺکی دعائیں (۸)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:"أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْ سُوءِ الْقَضَاءِ، وَ مِنْ دَرَكِ الشَّقَاءِ، وَ مِنْ شَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ، وَ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ"۔کہ”بلا شبہ رسول اللہ ﷺانسان کے حق میں برا ثابت ہونے والے فیصلے(قضا)، بدبختی(شقاوت) کے آ لینے، اپنی تکلیف پر دشمنوں کے خوش ہونے اور عاجز کر دینے والی بلاؤں سے پناہ مانگا کرتے تھے “(مسلم)۔قضا اور قدر اسلام کے بنیادی عناصر ہیں۔انہیں آسان لفظوں میں اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ دنیا میں واقع ہونے والے تمام احوال واقع ہونے سے پہلے اللہ کے علم میں تھے کہ وہ احوال کب اور کس وقت یا کس طرح واقع ہوں گے اسی کو’قضا‘کہتے ہیں۔اسی طرح ان تمام احوال کااپنے مخصوص وقت پر ٹھیک اسی طرح پیش آنا’قدر‘ کہلاتا ہے۔
دعا میں قضا کے منفی پہلو سے پناہ مانگی گئی ہے یعنی اگر اللہ کے علم میں ایسا کچھ ہے جس سے انسان کو کسی بھی طرح کے ضرر کا اندیشہ ہے تو انسان اس سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ پناہ طلب کرنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ قضا میں موجود اس منفی پہلو کی تبدیلی کا خواہاں ہے۔اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اللہ تعالی قضا و قدر میں تبدیلی بھی فرماتا ہے ورنہ یہاں بری قضا سے پناہ مانگنے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔لہذا قضا کے برے اثرات سے پناہ مانگنے اور اس سے خود کو بچانے کے لیے یہ دعا بہت اہم ہے۔
قرآن میں ’سعادت اور شقاوت‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔اللہ عزوجل فرماتا ہے:"یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖۚ-فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ"كہ"جب وہ دن آئے گا توکوئی شخص اللہ کے حکم کے بغیر کلام نہ کرسکے گا تو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی خوش نصیب ہوگا" (ھود/105) ۔ ’سعادت‘ یعنی خوش نصیبی یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد جنت میں جائے اور’شقاوت‘ یعنی بدبختی یہ ہے کہ مرنے کے بعد جہنم میں جائے۔ایمان لانے والے خوش نصیب اور ایمان نہ لانے والے بد نصیب ہیں۔شقاوت سے اگر یہاں کفر و شرک مراد ہیں تو ظاہرہے کہ اس سے پناہ کیوں مانگی گئی ہے اور اگر کفر و شرک مراد نہیں بلکہ زندگی میں پیش آنے والی طرح طرح کی مصیبتیں ہیں تو یہ مصیبتیں بھی عام مسلمانوں کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی پہنچتی ہیں۔دنیا میں شقاوت کے آثار اس طرح ظاہر ہوسکتے ہیں کہ بندہ خداکی نافرمانی کرے،ماں باپ کو ستائے،حرام کاموں میں مصروف رہے،ظلم و زبردستی کرے وغیرہ وغیرہ اور سعادت کے آثار یہ ہیں کہ خدا کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرے،اچھے اخلاق والا ہو،نرم دل رکھتا ہو،خوش گفتار ہو وغیرہ وغیرہ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے بیان فرمایا کہ: " انسان کا نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن اور راتوں تک جمع رہتا ہے پھر وہ خون کی پھٹکی بن جاتا ہے، پھر وہ گوشت کا لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اس کے بعد فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کی روزی، اس کی موت، اس کا عمل اور یہ کہ وہ بدبخت ہے یا نیک بخت لکھ لیتا ہے" (متفق علیہ)۔
دعا کے اگلے حصے میں دشمن کی خوشی سے پناہ مانگی گئی ہے۔دشمن اس وقت خوش ہوتا ہے جب ہم پر کوئی مصیبت آن پڑتی ہے یا ہمیں اس کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ہماری ہر چھوٹی بڑی مصیبت دشمن کی خوشی کا سبب ہے یہاں اسی سے پناہ مانگی جارہی ہے کہ اللہ ہمیں کسی ایسی مصیبت میں گرفتار نہ کرے جس کی وجہ سے دشمن کو خوش ہونے کا موقع ملے۔
دعا میں دشمن کی خوشی سے پناہ مانگنے کے بعد عموما بلا سے پناہ مانگنے کا ذکر ہے۔امام نووی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے مطابق اس سے مراد اہل و عیال کا زیادہ اور مال کا کم ہونا ہے(المنھاج شرح صحیح مسلم)۔ظاہر ہے اہل و عیال اگر زیادہ ہوں گے اور مال و دولت کم تو ان کے حقوق کما حقہ اداکرنے میں دشواری پیش آئے گی اور یہ بھی اس شخص کے لیے فکر اور تشویش کا سبب بنے گا۔بہرحال اس سے ہر طرح کے مصائب و آلام مراد ہوسکتے ہیں۔دعا کے تیسرے اور چوتھے حصے میں ایک تعلق یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ ہر مصیبت سے دشمن کو خوشی ہوتی ہے لہذا پہلے دشمن کی خوشی سے پناہ مانگی گئی اور آخر میں عموما ہر مصیبت سے تاکہ دشمن کو کسی بھی طرح سے خوش ہونے کا موقع نہ ملے۔
حضرت خولہ بنت حکیم سلمیہ رضی الله عنہا روایت کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: ”جو شخص کسی منزل پر ٹھہرے اور یہ دعا پڑھے: "أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ "کہ”میں اللہ کے مکمل کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اس کی ساری مخلوقات کے شر سے، تو جب تک کہ وہ اپنی اس منزل سے کوچ نہ کرے اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی“(مسلم)۔
اللہ کے" کلمات "سے مراد اللہ کے اسماء حسنی ہیں جیسے سمیع بصیر وغیرہ تو مراد یہ ہوگا کہ اللہ کے تمام اسماء حسنی کی پناہ مانگتا ہوں۔اسماء حسنی کی پناہ میں آنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہر اسم کے اثرات مرتب ہوں مثلا وہ سمیع ہے تو میری دعاؤں کو سنے بصیر ہے تو میری فریادوں کو سنے ناصر ہے تو میری مدد کرے۔امام نووی نے لکھا ہے کہ کلمات سے قرآن بھی مراد ہوسکتا ہے کیوں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے (المنھاج شرح صحیح مسلم)۔"تامات " سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے تمام اسماء یا قرآن ہر طرح کے عیب اور نقص سے پاک ہیں لہذا وہی انسان کو پناہ دے سکتے ہیں۔
ایک دوسری حدیث میں جسے امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے اس مذكوره دعا کا پس منظر معلوم پڑتا ہے۔ ابوتیاح علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبدالرحمن بن خنبش التمیمی رضی الله عنہ سے جو کہ انتہائی عمررسیدہ تھے، پوچھا کہ: کیا آپ نے نبی ﷺ کو پایا ہے؟ انہوں نے کہا" ہاں! میں نے پوچھا کہ" لیلة الجن" یعنی شیاطين وجنات كے اللہ کے رسولﷺپر حملے کى را ت نبی ﷺ کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟ انہوں نے فرمایا کہ: اس رات مختلف وادیوں اور گھاٹیوں سے شياطين و جنات اتراتر کر نبی ﷺ پر حملے کی نیت سے آئے، ان میں سے ایک شیطان کے ہاتھ میں آگ کا شعلہ تھا ،جس سے اس کا ارادہ تھا کہ نبی ﷺ کے چہرے کو جلادے۔ اتنی دیر میں سیدنا جبریل علیہ السلام نبی ﷺ کے پاس آسمان سے اتر کر آئے اور کہنے لگے کہ" اے محمد! کہیے! نبی ﷺ نے پوچھا: کیا کہوں؟ انہوں نے کہا :آپ کہے کہ " أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، وَذَرَأَ وَبَرَأَ، وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ، وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا، وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ، يَا رَحْمَنُ" یعنی "میں اللہ کی مکمل تام صفات و كلمات کے ذریعے ان تمام چیزوں کے شر سے پناہ مانگتاہوں جنہیں اللہ نے پیدا کیا ہے انہیں وجود عطا کیا اور موجود کیا، ان تمام چیزوں کے شر سے جو آسمان سے اترتی ہیں اور جو آسمان کی طرف چڑھتی ہیں، رات ودن کے فتنوں کے شر سے اور رات کو ہر آنے والے کے شر سے سوائے اس کے جو خیر کے ساتھ آئے، اے نہایت رحم کرنے والے !"۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ان کلمات کے پڑھتے ہی ان کی آگ بجھ گئی اور اللہ نے انہیں پسپا کردیا (شرح مسند أحمد بن حنبل)۔
اس دعا میں اللہ کے رسول ﷺنے اللہ کی جملہ مخلوقات کے شر سے پناہ مانگی ہے۔اللہ کی مخلوقات میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو انسان کو تکلیف پہنچاتی ہیں۔موذی جانور، انسان، جن و شیاطین سب اس میں داخل ہیں۔سانپ کا شر اس کا ڈسنا ہے،بچھو کا شر اس کا ڈنک مارنا،انسان کا شر ظلم و ستم ہے،شیاطین کا شر اللہ کی نافرمانی پر ابھارنا ہے۔قرآن کی سورت" الفلق" میں جملہ مخلوقات کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔"مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ" یعنی "اس کی تمام مخلوق کے شر سے" (فلق/2)۔
آسمان سے نازل ہونے والے شر میں بلاؤں اور مصیبتوں کا ذکر ہے اور اس کی نسبت آسمان کی طرف کی گئی ہے جس میں اشارہ ہے کہ بلائیں اللہ کے اذن سے نازل ہوتی ہیں۔لہذا ان بلاؤں سے پناہ دینے والا اور ان سے بچانے والا بھی اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔آسمان کی طرف جانے والی چیزوں میں بندے کے اعمال ہیں جو صبح وشام آسمان تک جاتے ہیں۔برے اعمال کے اثرات اس پر مرتب ہونے والا عذاب ہے جس سے یہاں پناہ مانگی گئی ہیں۔انسان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ دن یا رات میں ہی پہنچتی ہے اس لیے دن اور رات کے فتنوں سے پناہ مانگنے کا مطلب ہے کہ انسان ہر طرح کی مصیبت سے پناہ طلب کررہا ہے۔ طارق رات میں آنے والے کو کہا جاتا ہے۔اللہ تعالی کی طرف سے اگر کوئی خیر کا معاملہ ہوتا ہے تو وہ بھی اس میں شامل ہے اور اگر کوئی شر یعنی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بھی اس میں داخل ہے۔اسی لیے دعا میں خیر لانے والی کو الگ بیان کیا کہ اس سے پناہ مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔