مساجد دین کا سینٹر ہیں
مسجد اللہ کا گھر ہے۔ جس سےمسلمانوں کا بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ ایسی جگہ ہے جہاں بندہ اپنے رب سے محو کلام ہوتا ہے۔ اپنے رب کی بارگاہ میں آکر سجدہ ریز ہوتا ہے۔ اپنے دکھ درد کو اپنے رب کے حضور پیش کرکے ان کا حل تلاش کرتا ہے۔ اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی پیشانی کو جھکا کر اپنی نیاز مندی کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ یہاں آکرخالق کائنات کی عنایات چاہتا ہے اور اپنے پروردگار کی شکر گزاری کرتا ہے۔ اپنے مالک سے اپنا رشتہ مضبوط کرتا ہے۔ تاکہ جب بھی ظالم اپنے ظلم کا ہاتھ بڑھائے تو یہ مضبوط پکڑ والے رب کی بارگاہ میں اپنی مظلومیت کی داستان سنا سکے اور رب قدیر کی عظیم پناہ میں آکر ظالموں کے ظلم و جبر سے اپنی حفاظت کر سکے۔
یہ باتیں تو بندوں کے اپنے مالک سے رشتے کےمتعلق ہوئیں، جس طریقے سے مسجدیں بندوں کے رشتے اپنے مالک سے استوار کرتی ہیں، اسی طرح سےبندوں کے رشتوں کودین سے بھی مضبوط کرتی ہیں۔ کیوں کہ ابتداے اسلام میں یہی مساجد دین کاسینٹر ہوا کرتی تھیں، یہیں سے دعوت دین کے فریضے انجام دیے جاتے تھے اور انہیں مساجد کے ذریعے دین اسلام کی تعلیمات مسلمانوں تک پہنچائی جاتی تھیں۔ یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے اور قیامت تک چلتا رہےگا ۔
اس لیے اہل اسلام کو مساجد کی اہمیت اور اس کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھانا بہت ضروری ہے کہ مساجد سے تعلق مضبوط کر کے ہی بندہ اپنے رب سے اور دین اسلام سے اپنے رشتے کو مضبوط کر سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں مساجد سے گہرا رشتہ پیدا کرنے کی فکر کرنی چاہیے اور اپنی نمازیں مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیے تاکہ ہم خدا کا فرض پوراکر سکیں۔
آج کہیں نہ کہیں اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ مساجد سے جو کام ہونا چاہیے، وہ نہیں ہو رہا ہے۔ مساجد کی مرکزیت بھلا دی گئی ہے۔ مساجد کو ہم نے صر ف پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کی جگہ بنا لی ہے، ان سے دین اسلام کو جو فروغ حاصل ہوا ہے، عہد نبوی اور خیرالقرون میں جن خطوط پر کام ہوتا تھا، مساجد سے امت مسلمہ کی جیسی ہمہ جہت ترقی ہوتی تھی ہم نے ان خطوط اور اسباق و دروس کو بھلا دیا ہے۔ اب ہمارا یہ حال ہے کہ اس وقت ہمارے ذہنوں سےمساجد کی مرکزیت ختم ہوچکی ہے۔اس کا ادب و احترام بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔اس میں شور و غوغا عام ہورہا ہے ،مسجد کو پنچایت گھر بنا لیاگیا ہے ۔جبکہ یہ دین کے فروغ و استحکام کا سینٹر ہوا کرتی تھیں ۔
مسجدوں پر غیروں کی نگاہ: مسجدوں کی مرکزیت کے پیش نظر ہی اسلام دشمن عناصراس کا نام و نشان مٹانے کےدر پے ہیں، ملک بھر میں مساجد کی زمینوں اور عمارتوں کے خلا ف نئے نئے حربے استعمال کرکے اس کو ختم کرنے اور تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،مسجدوں کی زمینوں یا عمارت کو غیرقانونی کہہ کر ان کوشہید کیا جا رہا ہےاور نت نئی پابندیاں عائد کرکے اپنے مشن میں کامیابی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔طرح طرح کے قانون کا جبری نفاذ کرکے اپنے حلقوں میں خوشیاں منا رہے ہیں اور اپنے ماننےوالوں کوخوش کر رہےہیں ۔جب کہ ایک جمہوری ملک میں کسی ذمہ دارکی اس قسم کی بیان بازی جمہوری اقدار کو ٹھیس پہنچاتی ہے، جہاں آئین اقلیتوں کو بھی بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنےمذہب پر اپنی مرضی کے مطابق عمل کر سکتے ہیں، اپنے مذہب کی تعلیم کے لیے ادارے قائم کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہندوستان کا شہری ہونے کے ناطے ایک مسلمان کی ذمےداری ہے کہ وہ آئین ہند میں موجود شہریوں کے بنیادی حقوق سے آگا ہ ہو۔ آئین کے مطابق حکومت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکے۔جو لوگ ان حقوق سے آگاہ ہوں وہ دوسروں کو اس سے آگاہی فراہم کریں ،پروگرام کے ذریعے ہو یا ورکشاپ کے ذریعے۔
باطل طاقتیں تو اہل اسلام کی طاقت و قوت کو ختم کرکے مسلمانوں کوغلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور کرنا چاہتی ہیں تاکہ مسلمان ان کے رحم و کرم پر اپنی زندگی گزاریں۔ عبادات سے غافل ہوکر زندگی گزاریں یا اپنے گھروں میں چھپ کر عبادتیں کریں۔ اپنی عبادات کا اعلا ن نہ کریں، تکبیر و تسبیح کی صدائیں بلند نہ کریں۔ اسلام و شوکت اسلام کا کھل کر اظہار نہ کریں ۔اسلام دشمن عناصر اپنے ان منصوبوں پر تیزی سے کام کر رہے ہیں اور ہر نئی صبح ان کی تکمیل کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ہمارے حالات یکسر مختلف نظر آرہے ہیں ۔حالات سے آنکھیں مِیچ کر زندگی گزاری جارہی ہے۔ حالات کے مطابق خود کو بہتر زندگی میں ڈھالنے کی کو ئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ آگ لگی ہوئی ہے لیکن اس کی سنگینی کا کسی کو احساس نہیں۔ اس کی لپٹیں ہمارے گھر کو نشانہ بنانے والی ہیں لیکن ہم مطمئن ہیں کہ ابھی ہمارے اوپرآفت نہیں آئی ہے۔ ہم کسی آفت کا انتظار نہ کریں بلکہ مصیبت آنے سے پہلے ہی اپنی کمرکس لیں۔ اپنے حالات کا جائزہ لیں۔ اپنی مساجد و مدارس کے تحفظ کی فکر کریں۔ ان کی دستاویزوں کو درست رکھیں، اس حوالے سےبالکل لاپرواہی نہ برتیں۔ مصیبت کہہ کر نہیں آتی ۔مسجدوں کو اپنے سجدوں سےبھی آباد کریں۔ مساجد اپنی آبادی کا تقاضا کرتی ہیں اور مسجدوں کی آبادی ان میں خوب نمازیں پڑھنا اور سجدے کرنا ہے، ورنہ قیامت میں رب کے حضور اپنی ویرانی کی شاکی ہوں گی۔
ملک کے سرحدی علاقوں میں یا ان علاقوں میں جہاں سے کثرت کے ساتھ لوگ ہجر ت کرکے دوسرے ملک چلے گئے، وہاں آج بھی مسجدیں غیر آباد ہیں۔ ان میں اذانیں نہیں ہو رہی ہیں، نمازیں نہیں ہو رہی ہیں۔ کہیں کہیں سے تو ایسی خبریں آئی ہیں کہ مسجدوں میں چوپایے باندھے جا رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں اہل اقتدار ہماری مسجدوں کو ہم سے چھیننے کے درپے ہیں اور آئے دن نت نئے منصوبے بنا رہے ہیں، وہیں دوسری طرف اس قدر بے حسی اور لاپرواہی ہے کہ مسجدیں صرف جمعہ جمعہ ہی بھرتی ہیں، بقیہ دنوں میں دس بیس فیصد نمازی آگئے تو بہت ہے۔اس لیے ہمیں اپنی روش کو بدلنا ہوگا، اپنی زندگی کو اپنے مالک حقیقی کے فرمان کے مطابق گزارنا ہوگا۔ مساجد کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔ جب مساجد محفوظ رہیں گی اور ان کا نظام بہتر ہوگا تو اس سےدین پر صحیح طریقے سے عمل کرنا آسان ہوگا۔
مسجد تعلیم گاہ بھی ہے : مسجدوں میں اللہ کا ذکر اور تلاوت کرنے اور دینی احکام سیکھنے سکھانے کے متعلق نبی کریم ﷺ کا فرما ن عالی شان ملاحظہ فرمائیں: اوراپنے آپ کو آمادہ کریں کہ مساجد سے مختلف نوعیت کے دینی کاموں کو فروغ دیا جائے۔
قَالَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ’’وَما اجْتَمَعَ قَوْمٌ في بَيْتٍ مِن بُيُوتِ اللهِ، يَتْلُونَ كِتابَ اللهِ، وَيَتَدارَسُونَهُ بيْنَهُمْ؛ إِلَّا نَزَلَتْ عليهمِ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَحَفَّتْهُمُ المَلائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللّٰهُ فِيمَن عِنْدَهُ،‘‘۔(صحيح مسلم :٢٦٩٩)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ اللہ کے پیارے رسول ﷺارشاد فرماتے ہیں: ’’جو کوئی گروہ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر (مسجد)میں جمع ہوتا ہے، اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتا ہے ،آپس میں اس کا درس دیتا ہے، تو اس پر سکینہ نازل ہوتا ہے۔اللہ کی رحمت ایسے لوگوں کو ڈھانپ لیتی ہے اور رحمت کے فرشتے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں ،اللہ عزوجل ایسے لوگوں کا ذکر اپنے فرشتوں میں کرتا ہے۔ (صحيح مسلم،حدیث: ٢٦٩٩)
مسجدوں میں باضابط درس و بیان کا اہتمام کیا جائے،تجوید کے ساتھ قرآن پاک کی تعلیم دی جائے ،دین کی بنیادی باتیں، فرض علوم کے درس کا انتظام کیا جائے ۔ہمارے معاشرے بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو دین کی بنیادی باتیں،فرض علوم اور قرآن پاک کو تجوید کی رعایت کرکے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن اسباب نہ ہونے کی صورت میں پڑھ نہیں پارہے ہیں، یا کسب معاش اور اہل خانہ کی مصروفیات انہیں باضابطہ مدرسے کی تعلیم حاصل کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہیں، تو ایسوں کے لیے جز وقتی تعلیم کا انتظام کیا جانا بہت ضروری ہے۔ اس سے دینی تعلیم سیکھنے سکھانے کی فضا بھی ہموار ہوگی اور اس سے نمازی بھی بڑھیں گے اور نئی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کا بھی فریضہ انجام دیا جائے گا۔دینی تربیت کے ساتھ جب تعلیم بھی دی جائے گی تو لوگوں کی عبادتیں خاص طور پر نمازیں درست ہوں گی، اور رب کی رضا حاصل ہوگی۔
یہ چیزیں ایک مسلمان کے لیے بنیادکا درجہ رکھتی ہیں، ان پر عمل کرنا ہر ایک پر ضروری ہے۔ یہ اس وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ مسجدوں کو دینی تعلیم و تربیت کا مرکز بنایا جائے، یہاں ہر وہ کام کیا جائے جو ایک مسلمان کی دینی اور دنیاوی ضروریات کو مکمل کرتا ہو اور ایک معاشرے میں اسلامی روح پھونکنے والا ہو۔
مسجد عبادت کی بھی جگہ ہےاور دینی ،سماجی مسائل کے حل کا مرکز بھی : موجودہ دور میں جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو معاشرہ اسلامی اقدار، اخلاقیات و روحانیت سے خالی نظر آتا ہے۔ معاشرے میں اسلامی روح پھونکنے کے لیے اسلامی روایات اور دینی تعلیم و تربیت کا انتظام ناگزیر ہے، ان کے بغیر معاشرہ صحیح طریقے سے ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ یہ تمام چیزیں مساجد کے ذریعے بہ آسانی انجام دی جاسکتی ہیں۔ بس ضرورت ہے کہ ذمے دارلوگ اس کی اہمیت کو سمجھیں اور خدمت دین و ملت کے لیے کوششیں کریں۔ جب مساجد میں امام کا تقرر کریں تو ذ ی علم، ہوشمند عالم اور باعمل امام کا تقرر کریں جو نمازوں کے علاوہ لوگوں کے روزمرہ کے مسائل کاحل بھی پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مسجد سے ہی لوگوں کےوہ مسائل بھی حل کیے جائیں جو کورٹ کچہریوں میں حل کیے جاتے ہیں۔ جہاں مسلم قوم غیروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے اور دھکے کھاتی ہے، سرمایے اور وقت کی بربادی کا تو پوچھنا ہی نہیں۔ نکاح طلاق کے مسائل اور گھریلو پریشانیاں یہیں پر قرآن و حدیث کی روشنی میں حل کی جائیں تاکہ مسلمان کورٹ کچہریوں کے چکر لگانے سے بچ جائیں اور ایک خوش گوار اسلامی زندگی گزار سکیں۔ یہ مصیبتیں جو ہم پر آتی ہیں وہ کہیں نہ کہیں ہمارے ہی ہاتھوں کی کمائی ہوا کرتی ہیں، بس ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔
مسجد کی تعمیر میں ایک احتیاط : معاشرے میں جب ہم اپنی مساجد کے تعمیراتی کاموں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مسجد کے رنگ وروغن اور ڈیزائن پر بے تحاشا روپے خرچ کیے جاتے ہیں، مسجد کے اندر باہر خوب نقش ونگار بنائے جاتے ہیں جو مسجد کی ضروریات سے بالکل خارج ہوتے ہیں۔ مسجدیں سادہ ہوں اور ان میں عبادت اور تعلیم و تربیت کا بندوبست بہت اعلیٰ ہو۔ تبھی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ مساجد کی تعمیر میں بے جا اخراجات بہت ہو جاتے ہیں، پہلی منزل کی چھت ہی اتنی اونچی بنائی جاتی ہے کہ اگر دوسری یا تیسری منزل تعمیر کی جائے تو نمازی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے تھک جائیں، ضعیف یا کمزور ہوں تو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے۔ ایک تو چھت اونچی اوپر سے اونچی بنانے کے اخراجات زیادہ۔ تو یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ چھت کی اونچائی اعتدال کے ساتھ ہو تاکہ کسی بھی قسم کی پریشانیوں سے بچا جا سکے۔ عوام کے پیسوں کا صحیح استعمال بھی بہت ضروری ہے تاکہ کم اخراجات میں زیادہ فائدے حاصل کیے جاسکیں۔ بلکہ ہماری زیادہ توجہ اچھے امام اور اچھے موذن کی طرف ہونی چاہیے، یوں ہی غلاظت کی جگہوں باتھ روم ،وضوخانےوغیرہ کی صفائی پر بھی بھرپور دھیان دینے کی بھی ضرورت ہے۔
مناروں پر بھی خطیر رقمیں خرچ کی جانے لگی ہیں، اس پر بھی ہمیں توجہ اور احتیاط سے کام لینا چاہیے۔منارے عبادت گاہ کی ایک نشانی ہیں، کہ لوگ دور دراز سے بھی معلوم کر لیں کہ یہاں آس پاس کوئی مسجد ہے اور مناروں کی سمت میں آکر مسجد پاسکیں۔
مسجد کی اہمیت ،اس کی مرکزیت، غیروں کے ناپاک منصوبوں سے اس کی حفاظت، اس کے تعمیراتی کاموں میں احتیاط وغیرہ کے حوالے سے چند باتیں رقم کر دی گئیں ہیں، رب کریم قبول فرما کر ان پر عمل کی ہمیں توفیق بخشے، آمین۔