اقلیت کی مآب لنچنگ اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی
آج علی الصباح نیوز پڑھنے کی غرض سے اخبار الٹتے ہی میری نگاہ "سالار" کی ایک سرخی پر پڑی سرخی کچھ یوں تھی : "بی . جے . پی. ورکروں نے مسلم نوجوانوں کو پیٹا۔ جے شری رام کہلوایا" یہ سرخی اور یہ مآب لنچنگ کی داستان کوئی نئی نہیں ہے۔ ہندوستان میں تقریبا تین چار سال سے مسلسل کسی نہ کسی اخبار کی یہی سرخی نظر آرہی ہیں۔ ایک طرف الیکشن کمیشن نے انتخابی بگل بجاتے ہوئے پریس کانفرنس میں پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر دیا ہے تو دوسری طرف بجرنگ دل اور آر، ایس، ایس کے غنڈے اقلیت کو نشانہ بناکر مبینہ طور پر تشدد اور بربریت کا شکار بنا رہے ہیں ۔ صرف زد و کوب تک معاملہ منحصر نہیں بلکہ معاملہ ایں جا رسید کہ مارنے پیٹنے کے بعد مٹی کا تیل ڈال کر زندہ جوانوں کو نذرآتش کردیا جاتا ہے۔
یہ کوئی پہلی واردات نہیں ہے بلکہ ایسے ہی ریاست اترپردیش کے ضلع چندولی میں ایک گروہ نے مبینہ طور پر ایک مسلمان لڑکے کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد آگ لگا دی۔ جرم صرف اتنا تھا کہ وہ "جے شری رام" بولنے کے لئے تیار نہیں تھا ۔ مجبورا اس لڑکے سے "جے شری رام" کے نعرے لگوانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے، نہ لگانے پر اس لڑکے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی طرح اتر پردیش میں ہی ضلع کانپور کے برہ علاقے کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں کچھ شرپسند عناصر ایک مسلمان رکشہ ڈرائیور کی پٹائی کرتے ہوئے اس سے زبردستی "جے شری رام" کا نعرہ کہلوانے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس سے بھیانک وہ واقعہ تھا جو پوری انسانیت کو لرزہ براندام کرگیا تھا؛ یعنی مشرقی ریاست جھارکھنڈ کے رہنے والے چوبیس سالہ "تبریزانصاری" نامی نوجوان کی وائرل ویڈیو جس میں تبریز انصاری کو غنڈوں نے بجلی کے کھمبے کے ساتھ باندھ کر خوب مارا۔ ویڈیو میں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ تبریز انصاری سہمے ہوئے تھے اور بے رحم درندوں سے اپنی جان کے لیے بھیک مانگ رہے تھے، جب کہ ان کے چہرے پر آنسو اور خون بہتا نظر آ رہا تھا۔
یہی نہیں شمالی مشرقی ریاست آسام کے بریبٹا ضلع میں چند نوجوان مسلمانوں پر ایک گروہ حملہ آور ہوا اور ان سب سے "جے شری رام، بھارت ماتا کی جے اور پاکستان مردہ باد" کے نعرے لگوائے ۔ اسی طرح عروس البلاد ممبئی میں بھی ایک گروہ نے 25 سالہ مسلمان ٹیکسی ڈرائیور فیصل عثمان خان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے "جے شری رام" کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ فیصل کا کہنا ہے کہ ان پر حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ اپنی ٹیکسی مرمت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کچھ یوں ہی شہر کولکاتا میں ایک دینی مدرسے کے استاد حافظ محمد شاہ رخ ہلدر کے ساتھ بھی ہوا ، انہیں بھی "جے شری رام" کے نعرے نہ لگانے پر مار مار کر زخمی کر دیا۔
ان مذکورہ تمام واقعات میں 30 سے 25 سالہ نوجوان مسلمانوں کو ٹارگٹ بنایا گیا۔ لیکن ایک ایسا بھی واقعہ پیش آیا جس میں 16 یا 17 سال کے بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ اترپردیش کے ضلع اناؤ کا ہے ، جہاں پر ایک مدرسے کے بچوں کی "جے شری رام" کے نعرے نہیں لگانے پر خوب پٹائی کی گئی، اس واردات میں کئی معصوم بچے زخمی ہوئے۔ مدرسے کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ حملہ کرنے والے بجرنگ دل کے غنڈے تھے۔ اس کے علاوہ بے شمار واقعات رونما ہوئے ؛ دہلی کے کیب ڈرائیور آفتاب عالم، اورنگ آباد کے شیخ عامر اور ناصر نظام الدین۔ تازہ واقعہ ریاست جھارکھنڈ کے دھنباد کے واسع پور کے شمشیر نگر میں رہنے والے ایک مسلم نوجوان کا ہے ، جس سے بی۔ جے۔ پی کے کارکن "جے شری رام" کا نعرہ لگواتے نظر آ رہے ہیں۔ ان تمام نوجوانوں کا ایک ہی جرم ہے وہ یہ کہ انہوں نے "جے شری رام" کے نعرے نہیں لگائے ۔ گویا یہ نعرہ آج کل موت کا پیغام بن چکا ہے۔اور انسانیت کے خطرے کی گھنٹی اور جان لیوا
جب تبریز انصاری کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، تو BBC نے اس رپورٹ کو شائع کیا اور اس رپورٹ کی سرخی کچھ یوں تھی :
"Jay Shri Ram the Hindu chant the became a murder cry".
جے شری رام ایک مذہبی نعرہ جو موت کا پیغام بنتا جا رہا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس سرخی دینے والے قلم کی نوک کو چوم لوں ۔ قارئین ! ان تمام مذکورہ بالا باتوں سے ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ ہم ان تمام واقعات و واردات کو نقل کر کے مسلم نوجوانوں کو مشتعل کرنا چاہتے ہیں؛ بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ حکومت ان غنڈوں پر سخت سے سخت نوٹس لے اور پولیس افسروں سے گزارش ہے کہ وہ ان حملہ آور درندوں کو عدالت کے سامنے پیش کر نے کی جد و جہد کرتے رہیں۔ ان تمام غنڈوں پر ایف آئی آر درج کرا کے سلاخوں کے پیچھے بند کریں تاکہ ہندوستان ہمیشہ اپنے معنوی حساب سے جمہوری ملک رہے۔
اگر ان حالات پر پولیس قابو نہیں کر پائی تو ملک کے حالات دن بدن کشیدہ ہوتے جائیں گے، پھر امن و امان کا جنازہ اٹھ جائے گا۔ درندوں کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ یہ صرف مسلمانوں کی بات نہیں بلکہ پوری اقلیت طبقے کو غور کرنے اور میدان عمل میں اتر کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اگر مسلم طبقہ نشانے پر ہے تو کل دوسرے اقلیتی طبقے ظلم و بربریت کا شکار ہوں گے ؛ لہذا دیگر اقلیتی طبقوں سے بھی ہماری اپیل ہے کہ ملک کے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ہر کوئی زمینی سطح پر کام کرے۔ اور بالخصوص مرکزی حکومت اور ارباب حکومت سے ہماری مانگ ہے کہ وہ ان غنڈوں پر جلد از جلد سخت قانونی کاروائی کرے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے؛ ورنہ حکومت کو آنے والے انتخابات میں شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑے گا۔