سیاسی جلسے دن میں ہوتےہیں اورمذہبی جلسے رات میں کیوں؟

دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے جلسے وغیرہ کی اہمیت مسلم ہے جس کےذریعے بہت سے دینی کام ہوتے ہیں اور دین کی باتیں عام لوگوں تک پہنچتی ہیں۔لیکن جب یہ جلسے اپنے مقصد اصلی سے خالی ہو جائیں تو سواے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔دن بھر رزق کی تگ دو کرنے کے بعد ہمارے دینی بھائی مذہبی جلسوں میں آتےہیں تاکہ ان کو دین و شریعت اور اسلامی عقائد و معمولات کا صحیح علم ہو اوران کی زندگی دنیاوی اور اخروی اعتبار سے کامیاب ہو جائے۔لیکن ان کو فائدے اور مفید باتیں نہیں ملتیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے۔بسا اوقات ان کے اندر اہل علم حضرات سے بدظنی پیدا ہوجاتی ہے۔اس لیے ذمہ دار حضرات کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ہمارے جلسے اور دینی حلقے اپنے مقصدکے مطابق منعقد کیے جائیں اور ان کے ذریعے لوگوں کی صحیح معنوں میں اصلاح ہو ۔ایسا نہ ہو کہ دین کے نام پر قوم کا ڈھیروں سرمایہ محض نام و نمود اورنعروں کی نذر ہو جائے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع صفر ہو ۔اگر ہم اپنے دینی حلقے اور مذہبی جلسے نظم وضبط،وقت کی پابندی اورمقصد کے مطابق منعقد کریں تو ہر طبقے کےسامعین آئیں گے۔آج بھی لوگ دین سیکھنےاور اس پر عمل کرنے کے لیے بےچین نظر آتے ہیں۔ آج بھی لوگوں میں مذہبیت پائی جاتی ہے ۔آج بھی لوگ  رب سے قریب آنا چاہتے ہیں۔کیوں کہ حقیقی کامیابی تو رب کےبتائے ہوئے راستے اور اس کی کتاب میں موجود احکام پر چلنے ہی میں ہے ۔جب ان تک صحیح پیغام نہیں پہنچے گا یا جو اہل علم ہیں وہ صحیح طریقے سے اپنا فریضہ انجام نہیں دیں گے تو جواب دہ ہر کسی کوہوناہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ اصلاح ہم خود سے شروع کریں ،اپنے گھر والوں ،پاس پڑوس والوں سے شروع کریں،تاکہ دین کی صحیح تعلیمات عام ہوں اوردرس و بیان کی محفلیں افادے سے خالی نہ ہوں۔

بالعموم سیاسی جلسےدن میں ہوتے ہیں اور مذہبی جلسے رات میں۔جب ہم اپنے مذہبی  جلسوں کی موجودہ حالت پرغور کرتے ہیں تو یہ بات بہت تکلیف دیتی ہے کہ ہمارے بیشتر جلسے محض نام ونمود اور واہ واہی لوٹنے کا آلہ بن گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں رات جیسی اللہ کی عظیم نعمت صرف ہنگاموں اور شور شرابوں اور تفریح کی نذر ہو جایا کرتی ہے۔جب سیاسی جلسےدن میں ہوتے ہیں ،ان کے ذریعے  ملک میں تبدیلی لانے،ووٹ مانگنے اور حکومت میں حصہ داری حاصل کرنے جیسے بڑے بڑے کام لیے جاتے ہیں اور ان میں ہر طبقے کے لوگ آتے ہیں ،بڑے سے بڑے سرمایہ دار ،عہدہ و منصب والے اس میں حاضر ہوتے ہیں اور اپنے مقصد کےلیے کوششیں کرتے ہیں اورکامیاب بھی ہوتے ہیں۔تو اہل ایمان جب سب سے بڑے پاکیزہ مقصد کے لیے پروگرام  منعقد کرتے ہیں جو دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا مقصد ہے تو اس  کے لیے صرف رات کے وقت کا ہی انتخاب کیوں کرتے  ہیں۔ہم ایسے پروگرام دن میں بھی تو کر سکتے ہیں ۔رات  کی بہ نسبت دن میں لوگ آسانی سے شریک ہوسکتے ہیں۔دین کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکتاہے۔نہ ان کے آرام کا نقصان ہوگا،نہ زیادہ سرمایہ خرچ ہوگا۔رات میں اضافی روشنی کے اخراجات بچ جائیں گے۔رب کی عطا کردہ بےمثال روشنی سے بےشمار آسانیاں میسر آئیں گی۔لوگ دور دراز کا سفر کرکے آسانی سے پہنچ بھی سکتے ہیں جبکہ راتوں میں سفر کرنا انتہائی مشکل اور پُر خطر ہوتا ہے۔اس لیے ہمیں اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہم لوگوں کو آسانی فراہم کریں ،ان کو مشقت میں نہ ڈالیں، یہی اسلامی تعلیم اور یہی دین و دانش کا تقاضا بھی ہے۔

دیکھایہی جاتا ہے کہ یوپی،بہار، بنگال اورجھارکھنڈ میں جتنےعوامی جلسے ہوتے ہیں ان میں بیشتر محض نام و نمود اور خود پذیرائی کے لیے منعقد ہوتے ہیں ۔اگر کوئی ان کی صلاح کرےیا ان جلسوں کی مالیت کے متعلق پوچھےتوجواب دیتے ہیں کہ فلاں علاقے یا فلاں محلے میں ہر سال جلسہ ہوتا ہے ،ہم بھی کریں گے۔ان کو اس سے مطلب نہیں ان جلسوں کو کس طرح مفید اور بامقصدبنائیں تاکہ اس کے ذریعے دین کا کام ہو،لوگ دین کی باتیں اور احکام و مسائل سیکھیں ،بس جلسہ ہونا ہے ،اس کے لیے مہینوں محنت کرتے ہیں، پلاننگ کرتے ہیں اور نفع کم اٹھاتے ہیں۔جب کہ دانش مندی یہ ہے کہ کم مشقت کرکے زیادہ نفع حاصل کیا جائے ،ہر شخص یہی چاہتا ہے توہم کیوں نہیں چاہتے ؟

جو حضرات ایسے بڑے جلسے اور کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ مکاتب اور مدارس کے قیام کے لیے کوششیں کریں اور ان کے نظام کو مضبوطی کے ساتھ چلائیں۔لوگوں کو قرآن اورفرض علوم سیکھنے کی طرف راغب کریں۔یہ دین کےا ہم اور بنیادی کام ہیں۔ایسی فکریں عام کرنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو مکاتب اور مدارس نہ چلا سکتے ہوں،بعض افراد تو ایسے مل جائیں گے جو تنہا ایک ایک مدرسہ چلا سکتے ہیں ، بلکہ چلاتے بھی ہیں،بہت ساری مثالیں مل جائیں گی۔بس ایسی شخصیات کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔

جلسوں میں لطیفےبیان کرکے واہ واہی لوٹنااورعوام کو مقصد سے پرے باتیں سنانا عام ہوتا جا رہا ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر اللہ پاک نے کسی کو اس منصب پر فائز کیا ہے کہ وہ لوگوں میں دین کی باتیں بیان کرے اورراہ حق کی طرف ان کی رہنمائی کرے تواس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے اور اپنے مقصد کے پیش نظر دین کا کام کرنا چاہیے ۔اپنے کام میں مخلص رہنا چاہیے تاکہ رب کی بارگاہ میں جواب دہی  میں آسانی ہو۔اگر کوئی ان روایتی جلسوں اور نعت و بیان کی اصلاح چاہتا ہے تو اسےمثبت تنقید کو قبول کرنا چاہیے۔بسا اوقات تنقید مثبت ہو تو بڑے سےبڑا کا م ہو جاتاہے۔دینی اور دنیوی نفع بھی حاصل ہوتا ہے۔موجودہ دور کے روایتی جلسوں کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ہمیں ہی پہل کرنی ہوگی ۔اپنی ذات سے ،اپنے گھر سے ،اپنے پاس پڑوس سے جلسوں کی اصلاحی مہم شروع کرنی ہوگی،تاکہ دین کی خاطر محنت و مشقت اور کوششیں صحیح سمت لگیں اور اس کے  مفید نتائج سامنے آئیں۔

دیر رات تک جلسہ چلانااور فجر غائب کر کےسو جانا اسلامی تعلیمات کے سخت خلاف ہے ۔جب کہ درس وبیان اور تقریروں میں دیگر احکام و عبادات کے ساتھ نماز کی اہمیت و فرضیت بھی بیان کی جاتی ہے۔دیر رات تک جلسہ چلا کر اور فجر چھوڑ کر اول فرصت میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ رات کے جلسے کا نمازجیسی عبادت کی ادائیگی پر کوئی اثر نہیں،لوگ نماز کی طرف مائل نہیں ہوئے ،لہٰذا جلسہ بےاثر ہوا۔اگر چہ جلسہ کرنے والے بھیڑ بھاڑ دیکھ کر کہیں کہ جلسہ بہت کامیاب ہوا۔

رب کی مرضی یہ ہے کہ بندے دن میں کام کریں،راتوں کو آرام اور عبادت کے لیے خاص کر دیں تاکہ اس میں سکون میسر ہواور اگلے دن پھر کام کرنے کے لیے تیار رہیں۔ہم چاہیں تو ان خرابیوں کی اصلاح کر سکتےہیں ۔خود کو اس پر آمادہ کرنا ہوگا ،دوسروں کو اس پر راضی کرنا ہوگا۔اس کے نفع نقصان سے سب کو آگاہ کرنا ہوگا۔اس میں پوشیدہ فائدے کو ظاہر کرنا ہوگاتب اصلاح ہو سکے گی۔رب کائنات ہم سب کو عمل کی توفق عطا فرمائے۔آمین

جلسوں کے بارےمیں کچھ لوگوں کا یہ اعتراض ہے کہ جلسوں میں کچھ بدلاو بھی لانا چاہیے،مفتیان کرام سے روزمرہ پیش آنے والےمسائل جیسے:خرید و فروخت،تجارت،لین دین اورنکاح وطلاق پر خصوصی خطاب ہونا چاہیے۔آج کل گھروں میں لڑائی جھگڑے اورطلاق عام سی بات ہوگئی ہے۔ اس لیےجلسوں کو موثر  بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی جائے۔موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق وعظ و بیانات کیے جائیں۔ان میں بعض عبادات جو مشق کرانے سے زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہیں ان کی عملی مشق کرائی جائیں ،مثلاً: وضو ،نماز ،نماز جنازہ اور کفن پہنانے کا طریقہ ،ملنے جلنے کے آداب ،کھانے پینے کے طریقے وغیرہ ۔یہ سارے کام زیادہ توجہ طلب ہیں۔جن کے ذریعے معاشرے میں سدھار بہت ضروری ہے ۔ اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔دعوت اسلامی،سنی دعوت اسلامی اور دیگر مذہبی تنظیموں  میں اس قسم کے شعبہ جات قائم ہیں جن کے ذمے دار اس قسم کےدینی اور دعوتی کاموں میں سرگرم عمل ہیں جن کےثمرات ہم ماتھے کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔چند اہم اور توجہ طلب اموربروقت ذہن میں آئےتو سپرد قرطاس کر دیے گئے ،مولیٰ تعالیٰ عمل کی توفیق سے نوازے ،آمین۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter