کرناٹک کو مودی جی کا آشیرواد نہیں ملے گا

آج کے اس سرخی سے پیشتر قارئین سمجھ گئے ہونگے کہ ہم کس عنوان پر خامہ فرسائی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کانگریس پارٹی ہمیشہ غریب عوام کے ساتھ رہی ہے۔ کانگریس ایک سیکولر پارٹی ہونے کے ساتھ ساتھ غریب عوام کے مفاد عامہ کے لیے کام کرتی رہی ہے۔ فرقہ واریت اور تعصب پرستی سے دور ونفور ہوکر ملک کے ترقی ، معاشی صورتحال کی بہتری اور بے روزگاری کو ختم کرنے کےلیے ہمیشہ سے منصوبہ بند طریقے سے کام کرتی رہی ہے۔ یہ کانگریس کی اصالت اور خمیری فطرت ہے۔ اس کے برعکس بھاجپا اس کے اول دن سے فرقہ وارانہ سیاست کرتی آرہی ہے۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہمارے سامنے بی جے پی کی نو سالہ حکومت ہے۔اب آئیے مودی کی آشیرواد کے بابت اظہار رائے کرتے ہیں آخر یہ آشیرواد کیا ہے؟؟ اور کس پر آشیرواد؟؟؟ تو سنئے کرناٹک اسمبلی الیکشن کے وقت کانگریس نے مفادات عامہ کے پیش نظر پانچ گارنٹیوں کا وعدہ کیا تھا اور پہلے کابینہ میٹنگ میں ہی ان پانچ وعدوں کو بروئے کار لانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ جیسے ہی اس کا اعلان ہوا پوری ریاست میں خوشیوں کی لہر دوڑنے لگی۔ خوشی کے مارے عوام نے شاہراہ عام پر خوب جشن منایا۔
بی جے پی حکومت نے غریب عوام کے پیٹ پر لات مارتے ہوئے راشن میں جو چاول ملتا تھا اس کے مقدار کو گھٹا کر پانچ گلو کردیا تھا۔ تو کانگریس نے انتخابی مہم کے وقت اس کو بڑھانے کا وعدہ کیاتھا۔ پانچ گلو سے دس گلو کا وعدہ تھا جو اگلے ماہ سے لاگو کرنے کا فیصلہ بھی ہوچکاہے۔
اب بی جے پی مرکزی حکومت نے فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کو سرکاری ہداہت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کھلے بازار ریاست کرناٹک کو اناج فروخت نہ کیا جائیں۔ اس سرکاری فرمان سے یہ بات صاف کھل کر سامنے آگئی کہ بی جے پی کو مفادات عامہ کی فکر نہیں بلکہ کرسی اور حکومت کی فکر ہے۔ یہ رخنہ اندازی کوئی نئی  چیز نہیں ہے۔ جب ریاست کرناٹک میں اسمبلی انتخاب ہورہا تھا اس وقت بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے کہا تھا کہ اگر اس بار ریاست کرناٹک میں بھاجپا سرکار نہ آئی تو مودی جی کا آشیرواد کرناٹک کو نہیں ملے گا۔
اب سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ آشیرواد کیا ہے۔ اور کس پر نہ ہوگا۔ اس پیش گوئی کے پیچھے بھی صرف اور صرف حکومت کی لالچ کارفرما ہے۔ جے پی نڈا کا یہ کرشمہ کہئے یا بی جے پی کی عوام مخالفت پالیسی جیسے بھی ہو اس سرکاری ہدایت کی سخت مخالفت ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ کانگریس کا مسئلہ نہیں بلکہ عوام کا مفاد عامہ ہے۔ غریب عوام کے پیٹ کا مسئلہ ہے۔ یہ نادار لوگوں کی زندگی کا مسئلہ ہے۔ یہ بے روزگار لوگوں کا روز مرہ کی ضرورت کا مسئلہ ہے۔ اگر اب بھی عوام بیدار نہیں ہوئی تو بی جے پی رفتہ رفتہ ہر ریاستی اسکیموں پر قدغن لگاتی جائے گی۔
کانگریس کے سینئر لیڈر اور کرناٹک کے نئے وزیر اعلیٰ عزت مآب شری سدارامیا 2014 سے یہ بات کہتے آرہے ہیں کہ مودی حکومت ریاست کرناٹک سے سوتیلا سلوک کررہی ہے۔ مرکز کی طرف سے کوئی فنڈ ریاست کو جلد نہیں ملتا۔ اگر ملتا بھی ہے تو بہت ٹال مٹول کے بعد۔بی جے پی کی سیاسی پالیسی یہ ہے کہ جس ریاست میں ان کی حکومت ہے وہاں کے لیے وہ فنڈ اور سرکاری اسکیمز فراہم کرتی ہے اور جہاں پر ان کی حکومت نہیں تو اس ریاست کی طرف توجہ بھی کم رہتی ہے۔ بی جے پی کو عوام کے مفاد سے کہیں زیادہ فرقہ پرستی کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ نو سال کی مرکزی حکومت اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
منی پور آج بھی فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں جل رہا ہے۔پتہ نہیں یہ آگ کب بجھے گی۔ خدا کرے کہ وہ آگ ٹھنڈی ہوجائیں اور منی پور کے باشندگان امن وامان کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ جن ریاستوں میں قریب الیکشن ہونے والے ہیں وہ بھی اس رخنہ اندازی سے عبرت حاصل کریں اور کانگریس کو ووٹ دیکر سیکولر حکومت کو بر سر اقتدار لائیں تاکہ ہر ریاست میں جمہوریت اور امن وامان برقرار رہے۔ غریبوں کی زندگی بحال ہو۔ اللہ تعالیٰ ہندوستان کی جمہوریت اور سالمیت کی حفاظت فرمائے آمین

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter