محبت ِ وطن شرعی حیثیت۔ اشکالات وحقائق
محبت ِ وطن کی شرعی حیثیت اور وطن سے محبت کرنا جائز قرآن وحدیث کی روشنی میں
انسان کیا حیوان بھی جس سر زمین میں پیدا ہوتا ہے۔اُس سے محبت و اُنس اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔چرندپرنداوردرندحتی کہ چیونٹی جیسی چھوٹی بڑی کسی چیزکو لے لیجئےہر ایک کے دل میں اپنے مسکن اور وطن سے بے پناہ اُنس ہوتا ہے۔ ہر جاندار صبح سویرے اٹھ کر روزی پانی کی تلاش میں زمین میں گھوم پھر کر شام ڈھلتے ہی اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتا ہے۔ ان بے عقل حیوانات کو کس نے بتایا کہ ان کا ایک گھر ہے۔ ماں باپ اور اولاد ہے۔کوئی خاندان ہے؟ اپنے گھر کے در و دیوارزمین اور ماحول سے صرف حضرتِ انسان کو ہی نہیں بلکہ حیوانات کو بھی اُلفت و محبت ہوجاتی ہے۔
قرآن کریم اور سنّتِ مقدسہ میں اس حقیقت کو شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں ہم اِس حوالے سے چند نظائر پیش کرتے ہیں۔ تاکہ نفسِ مسئلہ بخوبی واضح ہوسکے۔
محبتِ وطن: قرآن کی روشنی میں
1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنی مقبوضہ سرزمین میں داخل ہونے اور قابض ظالموں سے اپنا وطن آزاد کروانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ {المائدۃ،۵:۲۱}
اے میری قوم! (ملک شام یا بیت المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اﷲ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پشت پر (پیچھے) نہ پلٹنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو گے۔
2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شہر مکہ کو امن کا گہوارہ بنانے کی دعا کرنا درحقیقت اس حرمت والے شہر سے محبت کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ ۔{ ابراهيم،۱۴:۳۵}
اور (یاد کیجیے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔
3۔ اپنی اولاد کو مکہ مکرمہ میں چھوڑنے کا مقصد بھی اپنے محبوب شہر کی آبادکاری تھا۔ انہوں نے بارگاہِ الہ میں عرض کیا:
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ۔{ابراہیم،۱۴:۳۷}
اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں۔
محبتِ وطن: احادیث مبارکہ کی روشنی میں۔
احادیث مبارکہ میں بھی اپنے وطن سے محبت کی واضح نظائر ملتی ہیں۔جن سے محبتِ وطن کی مشروعیت اور جواز کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
1۔ حدیث تفسیر سیرت اور تاریخ کی تقریبا ہر کتاب میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزولِ وحی کی تفصیلات سن کر تین باتیں عرض کیں:
- آپ کی تکذیب کی جائے گی یعنی آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی۔
- آپ کو اذیت دی جائے گی اور
- آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا۔
اِس طرح ورقہ بن نوفل نے بتایا کہ اعلانِ نبوت کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قوم کی طرف سے کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امام سہیلی نے" الروض الانف" میں باقاعدہ یہ عنوان باندھا ہے:حب الرسول ﷺ وطنہ ُ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن کے لیے محبت)۔ اس عنوان کے تحت امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی فرمائی۔ ثانیاً جب اس نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فورا فرمایا:
کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟
یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں:
ففی ہذا دلیل علی حب الوطن وشدۃ مفارقتہ علی النفس۔{الروض الانف للسہیلی،۱:۴۱۳۔۴۱۴۔طرح التثریب فی شرح التقریب للعراقی، ۴:۱۸۵}
اِس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنی شاق تھی۔(طرح التثریب فی شرح التقریب ۴:۱۸۵(
اور وطن بھی وہ متبرک مقام کہ اﷲ تعالیٰ کا حرم اور اس کا گھر پڑوس ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محترم والد حضرت اسماعیل علیہ السلام کا شہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی دونوں باتوں پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں فرمایا لیکن جب وطن سے نکالے جانے کا تذکرہ آیا تو فورا فرمایا کہ کیا میرے دشمن مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوال بھی بہت بلیغ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے الف اِستفہامیہ کے بعد واؤؔ کو ذکر فرمایا اور پھر نکالے جانے کو مختص فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واؤؔ سابقہ کلام کو ردّ کرنے کے لیے آتی ہے اور مخاطب کو یہ شعور دلاتی ہے کہ یہ اِستفہام اِنکار کی جہت سے ہے یا اِس وجہ سے ہے کہ اُسے دکھ اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گویا اپنے وطن سے نکالے جانے کی خبر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے زیادہ شاق گزری تھی۔
امام زین الدین العراقی نے بھی یہ سارا واقعہ اپنی کتاب ’طرح التثریب فی شرح التقریب {۴:۱۸۵}میں بیان کرتے ہوئے وطن سے محبت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔
2۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
ما اطیبک من بلد واحبک الي ،ولولا ان قومی اخرجونی منک ماسکنت غیرک۔{ سنن الترمذی،۵:۷۲۳،رقم:۳۹۲۶}
(سنن الترمذی، 5: 723، رقم: 3926، صحيح ابن حبان، 9: 23، رقم: 3709، المعجم الکبير للطبرانی، 10: 270، رقم: 10633(
تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔
یہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتاً اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے۔
3۔ اِسی طرح سفر سے واپسی پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے وطن میں داخل ہونے کے لئے سواری کو تیز کرنا بھی وطن سے محبت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کے لیے جلدی فرماتے۔جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ان النبی ﷺ کان اذا قدم من سفر فنظر الی جدرات المدینۃ اوضع راحلتہ وان کان علی دابۃ حرکہا من حبہا۔(صحيح البخاري، 2: 666، رقم: 1787، مسند أحمد بن حنبل، 3: 159، رقم: 12644، سنن الترمذي، 5: 499، رقم: 3441)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے، اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے۔
اِس حدیث مبارک میں صراحتاً مذکور ہے کہ اپنے وطن مدینہ منورہ کی محبت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سواری کی رفتار تیز کردیتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
وفی الحدیث دلالۃ علی فضل المدینۃ وعلی مشروعیۃ حب الوطن والحنین الیہ۔{فتح الباری،۳:۶۲۱}
(فتح الباری، 3: 621(
یہ حدیث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
اِزالۂ اِشکال۔
وطن سے محبت کے حوالے سے ایک اِشکال کا اِزالہ بھی اَز حد ضروری ہے۔ اِس ضمن میں بالعموم ایک روایت quote کی جاتی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
حب الوطن من الایمان
وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔
حالاں کہ یہ حدیثِ نبوی نہیں ہے بلکہ من گھڑت (موضوع) روایت ہے۔
1۔ امام صغانی نے اسے ’الموضوعات (ص:53، رقم:81)‘ میں درج کیا ہے۔
2۔ امام سخاوی نے ’المقاصد الحسنۃ (ص:297)‘ میں لکھا ہے:
لم اقف علیہ،ومعناہ صحیح۔
میں نے اس پر کوئی اطلاع نہیں پائی اگرچہ معناً یہ کلام درست ہے (کہ وطن سے محبت رکھنا جائز ہے)۔
3۔ ملا علی القاری نے ’المصنوع (ص:91، رقم:106)‘ میں لکھا ہے کہ حفاظِ حدیث کے ہاں اِس قول کی کوئی اَصل نہیں ہے۔
4۔ ملا علی القاری نے ہی اپنی دوسری کتاب ’الأسرار المرفوعۃ في أخبار الموضوعۃ (ص:180، رقم:164)‘ میں لکھا ہے:
قال الزرکشی:لم اقف علیہ
امام زرکشی کہتے ہیں: میں نے اِس پر کوئی اِطلاع نہیں پائی ہے۔
وقال السید معین الدین الصفوی:لیس بثابت
سید معین الدین صفوی کہتے ہیں: یہ ثابت نہیں ہے (یعنی بے بنیاد ہے)۔
وقیل : انہ من کلام بعض السلف
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سلف صالحین میں سے بعضوں کا قول ہے۔
5۔ اِسی لیے ملا علی القاری نے لکھا ہے:
ان حب الوطن لا ینافی الایمان۔{الاسرار المرفوعۃ فی اخبار الموضوعۃ۔۱۸۱،رقم:۱۶۴}
وطن سے محبت ایمان کی نفی نہیں کرتی (یعنی اپنے وطن کے ساتھ محبت رکھنے سے بندہ دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوجاتا)۔
لہذا ہمیں جان لینا چاہیے کہ وطن سے محبت کے بغیر کوئی قوم آزادانہ طور پر عزت و وقار کی زندگی گزار سکتی ہے نہ اپنے وطن کو دشمن کی قوتوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ جس قوم کے دل میں وطن کی محبت نہیں رہتی پھر اُس کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ اور وہ قوم اور ملک پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ وطن سے محبت ہرگز خلافِ اِسلام نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ ملتِ واحدہ کے تصور کے منافی ہے۔ کیونکہ ملتِ واحدہ کا تصور سرحدوں کا پابند نہیں ہے بلکہ یہ اَفکار و خیالات کی یک جہتی اور اِتحاد کا تقاضا کرتا ہے۔ مصورِ پاکستان نے کیا خوب فرمایا ہے:
جہانِ تازہ کی اَفکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
ہمیں اپنے وطنِ عزیز سے ٹوٹ کر محبت کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن سے محبت صرف جذبات اور نعروں کی حد تک ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمارے گفتار اور کردار میں بھی اس کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ ہمیں ایسے عناصر کی بھی شناخت اور سرکوبی کے اقدامات کرنے چاہییں جو وطنِ عزیز کی بدنامی اور زوال کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں سے بھی چھٹکارے کے لیے جد و جہد کرنی چاہیے جو وطنِ عزیز کو لوٹنے کے درپے ہیں۔ اور آئے روز اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسے حکمرانوں سے نجات دلانے کی سرگرمِ عمل ہونا چاہیے جو اپنے وطن سے زیادہ دوسروں کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں اور وطنِ عزیز کی سلامتی کے درپے رہتے ہیں۔ معاشرے کے اَمن کو غارت کرنے والے عناصر کو ناسور سمجھ کر کیفرِ کردار تک پہنچانے میں اپنا بھرپور قومی کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن کا وقارتحفظ سلامتی اور بقا اِسی میں ہے کہ لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوں۔ وطن کی ترقی اور خوش حالی اسی میں ہے کہ ہمیشہ ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی جائے اور ہر سطح پر ہر طرح کی کرپشن اور بدعنوانی کا قلع قمع کیا جائے۔ معاشرے میں امن و امان کا راج ہو۔ ہر طرح کی ظلم و زیادتی سے خود کو بچائیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔
خدا کرے کہ مری اَرضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اَندیشۂ زوال نہ ہو