معجزہ قرآن
قرآن پاک رب تبارک وتعالی کا ایک عظیم معجزہ ہے جو نبی آخر الزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ۲۳ سالوں میں نازل ہوا. یہی وہ کتاب ہے جو رہتی دنیا تک ہدایت کا سامان ہے، زندگی کے ہر گوشے اور پہلووَں کواس کتاب میں رہنمائی کی گئی ہے-
قرآن پاک قدرت کا ایک ایسا معجزہ ہے جو تمام اناسنیت کو اپنی صداقت کا یقین دلا تاہے اور اسے غلط ثابت کرنے والوں پر محیر العقول دلیلیں پیش کرتا ہے- یہی وجہ ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ مقدس اسلام سے وابستہ ہوتے جارہے ہیں اور کیوں نہ ہوں . حدیث پاک میں ہے کہ ’ ’ہر نبی کو ایسا معجزہ دیا گیا جس کا مشاہدہ کرکے انسانیت ایمان لاتی رہی- مجھے اللہ رب العزت نے ایسا معجزہ وحي کی شکل میں دیا ہے ‘‘ اس میں غور وفکر کرکے قیامت تک لوگ ایمان لا تے رہینگے (انشاء اللہ)-
قرآن پاک سے منہ موڑنے والے اور اسے غلط ثابت کرنے والوں کو قرآن پاک نے کھلا چیلینج کیا اور مطالبہ کیا کہ ’’اگر اس کلام کی حقیقت میں تمہیں کوئی شک ہے تو اس جیسا قرآن نہیں بلکہ دس سورتیں یا پھر ایک چھوٹی یا بڑی سورت ہی بنا لاوَ‘‘- لیکن وہ ایک آیت بھی نہ پیش کرسکے- کیونکہ قرآن پاک ایک ایسا معجزہ ہے جس کا مقابلہ محال ہے-
قرآن پاک ایک معجزہ کیوں ہے؟
وہ کونسی ایسی باتیں ہیں جو قرآن پاک کو ایک معجزہ ثابت کرتی ہیں، تو اکثر علماء کرام کی رائے ہے کہ قرآن پاک اپنی فصاحت وبلاغت اور حسن بیان میں معجزہ ہے. اور بعض علمائے کرام نے کہا کہ قرآن پاک ہر جہت سے معجزہ ہے. کوئی اسے فصاحت وبلاغت میں دیکھے تو اسکی نظیر نہیں ملتی- سائنس کی تحقیقات کو مد نظر رکھتے ہوئے پڑھے تو پتہ چلے کہ 1400 سال پہلے ہی وہ چیز بیان کی جا چکی ہے جو سائنس آج پیش کررہی ہے-
ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ قرآن کریم کا بلیغانہ وفصیحانہ اسلوب ایسا اعجاز سدا بہار ہے جس میں کوئی آسمانی کتاب تک شریک نہیں . مفردات کے لحاظ سے اگر قرآن پاک پر غور کیا جائےں تو اسکا ہر لفظ اپنی جگہ اتنا فصیح معلوم ہوتاہے کہ اس جگہ دوسرے کلمہ کو خواہ اسی معنی ومفہوم کا ہو نہیں رکھ سکتے- ہم نے بہت سے عرب دانوں کو دیکھا ہے جنہیں اپنی زبان دان پر اتنا ناز تھا کہ وہ دعوہ نبوت کربیٹھے لیکن انکے اشعار میں بہت سی خامیاں ملتی ہیں - متنبی کا یہ شعر
إِنَّ القَتيلَ مُضَرَّجاً بِدُموعِهِ.
مِثلُ القَتيلِ مُضَرَّجاً بِدِمائِهِ.
’شہید محبت شہید جنگ کی طرح ہوتا ہے‘
اس شعر میں اگر لفظ مثل کی جگہ فوق رکھ دیا جائے تو اس کا حسن دو بالا ہوگا-
إِنَّ القَتيلَ مُضَرَّجاً بِدُموعِهِ.
فَوقَ القَتيلِ مُضَرَّجاً بِدِمائِهِ.
شہید محبت کا مقام جنگی شہید سے بڑھا ہوتا ہے-
لیکن قرآن پاک نے لفظ ’مثل‘ کو چالیس جگہ استعمال کیا کسی جگہ بھی ادھر ادھر نہیں کرسکتے ہیں - یہ صرف مثل کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قرآن پاک کا ہر حرف اپنی جگہ سے بدلا نہیں جا سکتا-
بعض معانی کیلیئے الفاظ ثقیلة ہی استعمال ہوتے ہیں جو کہ وضاحت کیلیئے عیب ہے- اور اللہ تعالی نے قرآن کریم کو ہر عیب سے پاک رکھا ہے اس لئیے ہر اس حرف کو چھوڑ دیا گیا جوثقیل سمجھے جاتے تھے- اور اسکی جگہ ایسے الفاظ استعمال کئے گئے جسے پڑھکر عقل دنگ رہ جاتی ہے- مثلا پکی اینٹ تین لفظ عربوں میں مستعمل تھے آجر ‘ قرمد‘ طوب اور یہ تینوں ثقیل سمجھے جاتے تھے- قرآن نے اس معنی میں استعمال کیا-
فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّي صَرْحًا ﴿سورة القصص – آية 38﴾
ائے .. ھامان گیلی مٹی پر آگ روشن کرکے میرے لئیے ایک محل تعمیل کرو-
اسی طرح ’اَرض‘یعنی زمین کی جمع ’اَراضی واَرضون‘ دونوں ہی ثقیل سمجھے جاتے تھے- قرآن پاک نے دونوں کو چھوڑدیا اور اسکی جگہ استعمال کیا
اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ ﴿سورة الطلاق – آية 12﴾
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور زمین بھی اتنی ہی-
کسی چیز کی وسعت کو بیان کرنے کیلئے مختلف جملے تھے لیکن ساری وسعتوں کی انتہاء تھی- قرآن کریم نے جہنم کی وسعت کو بیان کرتے ہوئے کہا
يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ ﴿سورة ق – آية ٣٠﴾
’جس دن جھنم سے پوچھینگے کیا تو سیر ہوگئی تو وہ پکار اٹھیگی کیا کچھ اور ہے‘ اس وسعت كى نہ کوئی حد ہے او ر نہ انتہاء-
خلاصہ یہ ہیکہ قرآن ایسا معجزہ ہے جو اپنے مقصد میں کامیاب ہے- اس نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کردیا اور منتشر اقوام کو متحد کردیا-