حضرت شقیق بلخی علیہ الرحمہ کی تعلیمات

حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 194ھ مطابق810ء)ابتدائی عہد کے اجلہ صوفیہ میں سے ہیں۔ ان کا شمار تصوف کی تاریخ میں نظریہ سازصوفیہ میں ہو تا ہے۔ ابوعبدالرحمن السلمیؒ نے لکھا ہے کہ خراسان کے علاقے میں سب سے پہلے شقیق بلخی ؒنےعلم الاحوال کے بارے میں گفتگو کی۔وہ اپنے عہد میں بھی بڑے مشہور صوفیہ میں شمار ہو تے تھے۔ ان کے مریدین کی تعداد بہت تھے۔ بسا اوقات ان کے ساتھ تین تین سو مرید ہواکرتے تھے۔ زہد و عبادت کے ساتھ ساتھ انھوں نے بھرپور سیاسی و سماجی زندگی گزاری۔

مختصر احوال :

حضرت شقیق بلخیؒ خراسان کے شہر بلخ کے رہنے والے تھے اور قبیلہ ازد سے نسبی تعلق تھا اس لیے الازدی کہلاتے تھے ابو علی کنیت تھی۔ابتدا میں بہت دولت مند آدمی تھے۔ ان کے پوتے علی بن محمد بن شقیق روایت کرتے ہیں کہ ان کے دادایعنی حضرت شقیق ؒشروع میں بہت امیر تھے۔ان کی پاس تین سو گاوں کی جاگیر تھی۔ تجارت بھی کرتے تھے اور تجارت کے سلسلے میں مختلف علاقوں کے اسفار بھی کرتے تھے۔بعد میں تصوف و سلوک کی طرف مائل ہوئے تو ساری دولت غریبوں تقسیم کرکے زہد کی راہ اختیار کرلی۔( 1)

 تصوف اور زہد کی طرف ان کی طبیعت کے میلان کے سلسلے میں کئی واقعات ملتے ہیں۔ ایک واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ وہ تجارت کے سلسلے میں ”ترکوں“ ( غیر مسلم ترک مراد ہیں)کے علاقے میں گئے ہوئے تھے۔جس بستی میں یہ لوگ مقیم تھے وہاں کے لوگ مشرک تھے اور بتوں کی پرستش کر تے تھے۔حضرت شقیقؒ ایک مرتبہ ان کے عبادت خانے میں گئے۔ وہاں دیکھا کہ ان لوگوں کے مذہبی پیشوا سر اور داڑھی کے بال منڈوائے ہوئے سرخ ارغوانی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں( غالبا بدھ مذہب کے پیروکار ہوں گے)۔حضرت شقیقؒ نے ان سے کہا کہ تم لوگ اپنے بنائے ہوئے ان بتوں کی پوجا کر تے ہو یہ غلط طریقہ ہے جن چیزوں کو تم پوجتے ہوان کا بھی اور تمھارا بھی خالق اور بنانے والاایک ہی ہے اور کوئی اس جیسا نہیں ہے،دنیا و آخرت اسی کی ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر ایک کو رزق دینے والاہے، پھر تم ایسے معبود کو چھوڑ کر ان بتوں کی پوجا کیوں کر تے ہو؟عبادت خانے کے خادم نے کہا کہ تمہارے قول اور عمل میں تضاد ہے۔ شقیق رحمة اللہ نے پوچھا کیسے؟ اس نے جواب دیا کہ اگرتم یہ مانتے کہ تمھارا ایک خالق و رازق ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تو تم طلب رزق میں یہاں نہ آتے۔ جو تمہیں یہاں رزق دے رہا ہے وہ تمہارے مقام پر بھی دیتا اور تم سفر کی اس مصیبت سے بچے رہتے۔اس گفتگو کا حضرت شقیقؒ پر بڑا اثر ہوا خود فرماتے ہیں کہ میرے زہد کا سبب اس ”ترکی“ کا یہ کلام ہے۔اس کے بعد حضرت شقیقؒ واپس آئے اور سارا مال و منال صدقہ کرکے طلب علم میں لگ گئے۔(2)

مشہور محدث اور شارح بخاری امام ابن الملقنؒ نے طبقات الاولیا میں ایک اور واقعہ لکھا ہےلیکن بظاہر اس روایت کی صحت میں ان کو بھی شک ہے۔ وہ واقعہ یہ کہ ایک دفعہ قحط کے زمانے میں انھوں نے ایک غلام کو دیکھا جو بہت موج مستی کر رہا تھا- (یلعب و یمرح)حضرت شقیق نے اس کو ڈانٹاکہ لوگ قحط کی مصیبت میں مبتلا ہیں اور توموج مستی کر رہا ہے۔ اس نے کہا"مجھے اس قحط کی پرواہ نہیں چونکہ میرے مالک کی پاس ایک گاوں ہےوہاں سے ضرورت کی ہر چیز آ جاتی ہے،میں اس قحط سالی کی فکر کیوں کروں۔" حضرت شقیقؒ نے سوچا کہ اس غلام کا مالک توخود ایک مخلوق ہےاس پر اس کو اتنا بھروسہ ہےاور میرا مالک تو تمام غنیوں کا غنی ہے۔جب یہ شخص ایک گاوں کے مالک اپنے آقا پر اتنا بھروسہ کر رہا ہےتو میں سارے عالم کے مالک کی غلامی کا دعویدارہو کر بھی کیوں پریشاں پھروں، اس کے بعد اپنا سارا اثاثہ ترک کر دیا اور عبادت میں لگ گئے۔(3)

امام قشیری ؒنے الرسالة القشیریہ میں اس کے علاوہ اسی جیسا ایک اور واقعہ لکھا ہے۔ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہےکہ حضرت شقیق بلخیؒ کا رجحان زہد و عبادت کی طرف ایسے واقعات کی بنا پر ہوا تھا جن میں طلب رزق کی خصوصی اہمیت تھی، چنانچہ ان کے یہاں غالب رجحان توکل کا ہے، حتی کہ ان کے باری میں بعض تذکرہ نگاروں نے یہ بھی لکھا ہےکہ ان کا سارا کلام توکل کے باریےمیں ہے۔(4)

حضرت شقیق بلخیؒ شروع میں بڑے عیش وآرام کی زندگی بسر کرتے تھے،بہترین لباس زیب تن کیے رہتے، نمود و نمائش کا بڑا شوق تھا خود فرماتے ہیں کہ کنت مرائیا( میں نمود و نمائش کا شوقین تھا)۔وہ کتےپالنے کے بھی بڑےشوقین تھے۔پھر ان کی زندگی میں انقلاب آیا اور وہ عابد و زاہد بن گئے۔ امام قشیریؒ نے ابو عبدالرحمن السلمیؒ کے حوالے سے ان کے اس دور کا ایک قصہ بیان کیا ہے جب وہ بہت دولت مندتھے کہ حاتم اصمؒ کہتے ہیں ”شقیق بن ابراہیمؒ پہلے بہت دولت مند تھے زندگی کج کلاہی میں بسر کرتے تھے ان کے گرد خوش فکروں کی بھیڑ رہتی تھی ۔ اس وقت بلخ کا حاکم علی بن عیسی بن ماہان تھا۔ اس کو بھی کتے پالنے کا شوق تھا اور اس کے پاس بہت سے تربیت یافتہ کتے تھے۔ ایک مرتبہ اس کا ایک شکاری کتا گم ہوگیا ۔ بڑی تلاش کے بعد بھی نہیں ملا۔کسی نے جھوٹی شکایت کی کہ یہ کتا فلاں شخص کے پاس ہےجو حضرت شقیقؒ کے پڑوس میں رہتاتھا جب اس شخص کی تلاش ہوئی تو اس نے بھاگ کرحضرت شقیق کےگھر میں پناہ لی۔حضرت شقیقؒ حاکم کے پاس گئے اور کہا کتا تو میرے پاس ہےلہٰذا اس کا پیچھا چھوڑ دو میں تین دن کےاندر کتا تمہیں دے دوں گا۔ چنانچہ انھوں نے اس شخص کو چھوڑ دیا۔حضرت شقیقؒ واپس آئے تو بہت فکر مند تھے یہاں تک کہ تیسرا دن بھی آگیا۔حضرت شقیقؒ کا ایک دوست بلخ سے کہیں گیا ہوا تھا اور اب بلخ واپس آ رہا تھا۔ راستے میں اسے ایک کتا ملا جس کی گلی میں پٹا پڑا ہوا تھا۔ اس نے اسے پکڑ لیااور اس خیال سے کہ حضرت شقیق ؒکتوں کےشوقین ہیں ان کو بطور تحفہ دےگا ۔ جب حضرت شقیقؒ نے اسے دیکھا تواتفاق سے وہےامیر کا کتاتھا، انھوں نے وہ کتا امیر کو دی کر اپنی ضمانت چھڑائی۔ (5)

حضرت شقیق بلخی ؒکے ایک مربی حضرت ابراھیم بن ادھمؒ کا ایک واقعہ بہت مشہورہے۔امام ابن الملقنؒ نے یہ قصہ اس طرح لکھا ہےکہ ایک مرتبہ شقیق بلخیؒ حج کو گئے۔ وہاں حضرت ابراہیم بن ادھم ؒسے ملاقات ہوئی۔ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ نے ان سے پوچھا کہ آپ نے زہد و توکل کایہ طریقہ کہاں سے سیکھا۔ حضرت شقیقؒ نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں تجارت کی لیے جا رہا تھا ایک جگہ میں نے ایک چڑیا دیکھی جس کی پنکھ ٹوٹی ہوئی تھی اور ایک ویران جگہ پڑی تھی۔ میں نے سوچا کہ میں یہ دیکھوں کہ اس کو کھاناکہاں سے ملتا ہے۔ اسی اثنا میں ایک دوسری چڑیا آئی اس کی چونچ میں دانا تھا اس نے وہ دانہ اس چڑیا کی چونچ میں رکھ دیا۔ مجھے اس نظاریےسے عبرت ہوئی اور میں واپس آکر عبادت میں لگ گیا۔ ابراہیم بن ادھمؒ نے یہ سن کر شقیقؒ سے کہا کہ تم نے وہ چڑیا بننا پسند کیوں نہیں کیا جس نے اس پر بریدہ چڑیا(جس کے پنکھ ٹوٹے ہوئے تھے) کو دانا دیا تھا۔ اس طرح تم اس سے افضل ہو جاتے۔کیا تم نے سنا نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہوتا ہے۔(حدیث، مسند احمد) مومن کی علامت یہ ہےکہ وہ ہر معاملہ میں دو درجوں میں سے اعلیٰ درجہ کا انتخاب کرے اس طرح وہ ابرار کی درجے کو پہنچ جاتا ہے۔حضرت شقیقؒ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو بوسہ دے کر کہا کہ آج سے آپ میرے استاد ہیں۔(6)

حضرت شقیقؒ کی راہ زہداختیار کرنے کی سلسلہ میں یہ چند واقعات ہیں۔ ان میں انتساب کی غلطی کا امکان تو ہےلیکن بظاہر کوئی بڑا تضاد بھی نہیں ہے، ممکن ہےکہ یہ سب واقعات پیش آئے ہوں اور ان کے مجموعی تاثرکے طور پر حضرت نے ترک دنیاکرکے زہدکی راہ اختیار کی ہو۔

اساتذہ:

شقیق بلخیؒ نے فقہ کی تعلیم امام زفر سے حاصل کی اور راہ سلوک کے رموز سفیان ثوریؒ، عبادبن کثیر اور اسرائیل سے سیکھے۔چنانچہ خود فرماتے ہیں ”میں نے لباس کی سادگی سفیان ثوریؒ سے خشوع و خضوع اسرائیل سے اور عبادت کا ذوق عباد بن کثیر سے سیکھا اور فقہ کی تعلیم امام زفر ؒسے حاصل کی۔“ ان کے استادوں میں ان کے علاوہ ایک نام کثیر بن عبداللہ الایلی کا بھی ہے۔ (7)امام مناوی نے لکھا ہےکہ انھوں نے فقہ کی تعلیم امام ابو حنیفہ سے حاصل کی۔(8)امام ابن الملقنؒ نے بھی صراحت کی ہےکہ حضرت شقیق بلخیؒ نے امام ابو حنیفہ سے حدیث پڑھی تھے۔(9)

مریدین

حضرت شقیق بلخی ؒکے تلامذہ کی تعداد بہت تھی ان کے ساتھ بعض اوقات تین تین سو مرید ہوا کرتے تھے۔ ان کے زیادہ مشہور تلامذہ اور مریدین میں حاتم الاصمؒ، عبدالصمد بن مردویہ، محمد بن ابان المستملی اور حسین بن داود البلخی ہیں۔(10)

راہ سلوک میں شقیق بلخیؒ نے بڑی مشکلات اٹھائیں انھوں نے خود اس کاتذکرہ کرتے ہوئےفرمایا میں نے جب تو کل کی راہ اختیار کی تو میری پاس تین لاکھ کا اثاثہ تھا میں نے سب چھوڑا اونی کپڑے پہنے اور بیس سال تک ایک مدہوشی کی سی کیفیت میں رہا مجھے کچھ ہوش ہی نہیں رہتا تھاایک مدہوشی کی سی کیفیت طاری رہتی تھی مجھے معلوم ہی نہیں تھاکہ میں کیا کررہا ہوں۔جب میری ملاقات عبدالعزیز بن ابو الرواد سے ہوئی تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ اے شقیق جو کی روٹی کھانا اور اون یا بالوں کے کپڑے پہننا کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ کمال کی بات یہ ہےکہ تم اللہ کی معرفت حاصل کرو اور یہ کہ تم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو۔ میں نے ان سے کہا میں آپ کی بات صحیح طرح نہیں سمجھاآپ اس کی مزید وضاحت فرمائیں۔ انھوں نے فرمایا کہ تم جو عمل بھی کرو وہ سب خالص اللہ تعالیٰ کی لیے ہو، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔تو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے اس کو چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔(الکہف، ص: 110) (11) حلیة الاولیا میں میں لکھا ہےکہ انھوں نے دوسری شرط یہ بتائی کہ اللہ تعالیٰ سی راضی ہوجاو اور تیسری یہ بتائی کہ تمھارا بھروسہ جو کچھ اللہ کی ہاتھ میں ہےاس پر زیادہ ہونا چاہےی بہ مقابلی اس کی جو لوگوں کی ہاتھ میں ہے۔(12)

حضرت شقیقؒ کی اس سفر سلوک میں ان کی فکر کا محور قران مجید رہا، انھوں نے ایک مرتبہ فرمایا میں نے بیس سال قران مجید پر غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ دنیا وآخرت کا فرق صرف دو جملوں میں ہےکہ اے لوگو جو مال تم کو دیا گیا ہے وہ دنیا کی زندگی کا ناپائیدار فائدہ ہے اور جو کچھ اللہ کے یہاں ہے وہ بہتر اور قائم رہنے والا ہے ان لوگوں کے لیے جوایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ (الشوری آیت 36)(1)

امام جعفرؒ اور شقیق بلخیؒ:

 شقیق بلخیؒ کی بارے میں امام قشیریؒ نے ایک واقعہ یہ بھی لکھا ہےکہ انھوں نے امام جعفر صادقؒ سے سوال کیا کہ فتوت( شرافت یا جواں مردی) کیا ہےانھوں نے فرمایا کہ پہلی تم بتاوتم اس سے کیا سمجھتے ہو۔ شقیقؒ نے کہا کہ میرے نزدیک فتوت یہ ہےکہ اگر ہمیں کچھ ملتا ہےتو شکر کرتے ہیں اور نہیں ملتا تو صبر کرتے ہیں- امام جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ مدینہ میں کتے بھی یہی کرتے ہیں یعنی اس میں کیا خوبی ہے-حضرت شقیقؒ نے پوچھا کہ اے رسول اللہ کے نواسے پھر آپ ہی بتایئے فتوت کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ اگر ہمیں کچھ مل جائے تو دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اور اگر نہ ملے تب بھی شکر کرتے ہیں۔ (14)

امام ابن الملقنؒ نے طبقات الاولیا میں بھی یہ واقعہ درج کیاہےلیکن اس میں امام جعفر صادق ؒکی جگہ ابراہیم بن ادہم ؒکا تذکرہ ہے۔(15)اگرچہ سند کے اعتبار سے پہلی روایت زیادہ بلند ہےچونکہ امام قشیری ؒمتقدم لیکن درایةً دوسری روایت زیادہ معتبر معلوم ہوتی ہے- چونکہ ابراہیم بن ادہم ؒشقیق بلخی ؒکے استاد ہیں اور انھوں نے تربیت کی لیے اس طرح کا سوال کیا ہوگا ۔جب کہ امام جعفر صادق ؒسے ان کی ملاقات کسی اور ذریعہ سے ثابت نہیں اور اگر ثابت بھی ہو جائے تو ان کے درمیان عمر کا فرق اتنا زیادہ ہےکہ بظاہر اس قسم کا مکالمہ نہیں ہوسکتا۔چونکہ امام جعفر صادق ؒکی وفات شقیق بلخیؒ کی وفات سے 46 سال قبل 148 ھ میں ہوچکی تھی۔ اس لیے ہوسکتا ہےکہ الرسالہ میں واقعہ نقل کرتے ہوئے ابراہیم بن ادہم ؒکی جگہ امام جعفر صادق ؒکا نام شامل ہوگیاہواور صوفیہ کرام کی تذکروں میں ایسا ہو بھی جاتا ہے۔ خود الرسالہ میں ایسی تصحیف کی ایک مثال آگے آ رہےہیں اور ابن الملقن ؒچونکہ بہت بڑی محدث بھی ہیں بخاری شریف کی شارح ہیں اس لیے انھوں نے واقعہ اور سند کی چھان بھی محدثانہ شان سے ہی کی ہو گی۔

سفیان ثوریؒ کی خدمت میں:

 سفیان ثوریؒ کی باری میں شقیق بلخی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے ملاقات کی اور لباس کی سادگی ان سے سیکھی، انھوں نے ازار پہن رکھا تھا جس کی قیمت چار درہم تھے جب وہ پالتی مار کر بیٹھتے یا اپنے پیر پھیلاتے تو ازار کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے ان کی ستر کھلنے کا اندیشہ ہوتا تھا۔(16)

اسناد حدیث:

 حافظ ذہبی نے العبر فی خبر من غبرمیں بحیثیت راوی خود شقیق بلخیؒ کو ضعیف میں لکھا ہے۔(17) ان کی روایات کو بھی محدثین نے عام طور پر قبول نہیں کیا ہےلیکن وہ حضرات زمانہ روایت حدیث سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے صوفیہ کی تذکروں میں ان کی مرویات اور اسناد کے بیان کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شقیق بلخیؒ کی بارے میں ابن ا لملقن ؒنے لکھا ہےکہ انھوں نے امام ابوحنیفہ سے حدیث بیان کی۔(18) ابو عبدالرحمن السلمیؒ نے ان کی سند سے دو احادیث روایت کی ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث عباد بن کثیر الثقفی البصری (متوفی 150ھ) سے اور دوسری حدیث ابوہاشم الایلی سے روایت کی ہے(19) ابو ہاشم سے ہی ایک اور حدیث کی روایت تاریخ الاسلام میں امام ذھبی نے بھی نقل کی ہے۔ (20)

خلیفہ مامون اور حضرت شقیق:

ابن العماد نے بھی ان کے ایک سفر میں تین سو مریدوں کے ساتھ ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔(21) اس سے اندازہ ہوتا ہےکہ ان کا حلقہ ارادت کافی وسیع تھا۔ لیکن ان کے اقوال عام طور پر حاتم اصمؒ سے مروی ہیں۔طبقات الصوفیہ میں ان کے 27 مقولے نقل کیے ہیں۔سب حاتم اصم ؒکی روایت سے ہیں۔حضرت حاتم اصمؒ ان کے سب سے مشہور شاگرد ہیں۔وہ خود بھی بڑے پائے کے صوفی تھے اور شقیق بلخیؒ کی خدمت میں طویل عرصہ رہے۔ثمانی مسائل یعنی آٹھ مسائل کے نام سے انھوں نے حضرت شقیقؒ کی فیض صحبت کے ثمرات بیان کیے ہیں جن کو مختلف تذکرہ نگاروں نے جمع کیا ہے۔(22) وہ حضرت شقیقؒ کے ساتھ آخری دم تک وابستہ رہےان کے واقعہ شہادت کے راوی بھی وہی ہیں۔(23)حضرت حاتمؒؒؒ اصم کے علاوہ حضرت شقیق ؒکے ملفوظات کو ان کے پوتے علی بن محمد بن شقیق کے حوالے سے بھی بعض تذکرہ نگاروں نے ذکر کیا اورحسن بن داود بلخی نے بھی ان کے بعض اقوال روایت کیے ہیں۔(24)

وفات :

 حضرت شقیق بلخیؒ کی وفات کے سلسلے میں سبھی تذکرہ نگاروں نے لکھا ہےکہ کولان کی جنگ میں ترکوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئی سنہ 194 ھ 810ءمیں شہادت ہوئی۔(25)

حضرت حاتم اصمؒ نے ان کی شہادت کے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیاہےکہ ایک مرتبہ میں اور حضرت شقیقؒ ایک جنگ میں ساتھ تھے ۔ایک دن گھمسان کا رن پڑا اس میں سوائے سروں کے اڑنے، تلوراوں کے ٹوٹنے اور نیزوں کے چلنے کے سواکچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اسی دوران ہم دو صفوں کے درمیان تھے کہ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ اے حاتم  تم کیا محسوس کر رہےہو کیا تمہیں آج شب زفاف کی لذت نہیں آ رہی ہے؟ میں نے کہا بخدا ایسی تو کوئی بات مجھے نہیں محسوس ہو رہی ہے۔ شقیقؒ نے فرمایا کہ واللہ مجھے تو ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے، حاتم کہتے ہیں کہ اس کے بعدحضرت شقیقؒ نے ڈھال سرہانے رکھی اوردو صفوں کے درمیان سوگئے حتی کہ مجھے ان کے خراٹوں کی آواز آنے لگی۔(26)

اندازہ ہوتا ہےکہ اس جنگ میں ان کے اور ساتھی بھی شریک تھے چنانچہ حاتمؒ نے اس قصہ میں مزید کہا ہےکہ میں نے اس جنگ میں اپنے اصحاب میں سے ایک کو دیکھا کہ رو رہا ہےمیں نے پوچھا کیوں رو رہےہو،اس نے جواب دیا کہ میرا بھائی شہید ہوگیا۔(27)

اولاد :

شقیق بلخی کی اولاد کے باری میں تفصیلات نہیں معلوم۔ ان کے ایک بیٹے محمد کا نام تذکروں میں ملتا ہے۔ وہ دراصل پوتے کے ذکر میں ملتا ہےاور ایک بیٹے علی کا تذکرہ ان کی کنیت میں ہے۔ ممکن ہےکہ اور بھی اولاد رہی ہوں۔

افکارو تعلیمات :

حضرت شقیق بلخی نے اونی کپڑے پہنے، مجذوبانہ تلاش حق میں سرگرداں پھرے۔مختلف لوگوں سے روایات لیں اور مختلف شخصیات کی خدمت میں رہ کر سلوک و تصوف کے رموز سیکھے۔ شروع میں وہ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہےمعروف معنوں میں دنیا دار قسم کے انسان تھے۔ بڑے دولت مند تھے۔ شاعری بھی کرتے تھے جوانی کی امنگوں میں مگن رہتے اور کتے پالتے تھے۔ جب فکر آخرت دامن گیر ہوئی تو سب کچھ ترک کر دیا، دولت صدقہ کر دی اور اطمینان کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔ ان کے افکار و خیالات جو ان کے بعض مریدوں نے خاص طور پر حاتم اصم نے نقل کیے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہےان کے یہاں فلسفیانہ طرز فکر نہیں ہےبلکہ عمل کی باتیں زیادہ ہیں۔ عمل کے ذریعہ کس طرح اپنی زندگی کو سنوارا جائے اور آخرت کی فکر کے پیش نظر یہ زندگی کیسے گزاری جائی،حضرت شقیق کی چند بنیادی تعلیمات اس طرح ہیں:

توکل :

شقیق بلخی کے یہاں توکل پر بڑا زور تھا غالباً اپنی ہنگامہ خیز معاشی زندگی کو ترک کرنے کے نتیجہ میں ان کے اندر توکل کی فکر زیادہ بڑھ گئی اور یہ فکر اتنی حاوی ہوئی کہ اکثر تذکرہ نگاروں نے ان کو اسی حوالے سے ذکر کیا ہے۔امام قشیری نے الرسالہ میں لکھا ہےکہ ان کا سارا کلام توکل کے بارے میں ہے۔(28)

توکل حضرت کے فکر و عمل کا غالب پہلو ہے۔ توکل کہتے کس کو ہیں اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت شقیق بلخی ؒنے فرمایا ”التوکل  ان یطمئن قلبک بو عود اللہ“ (توکل یہ ہےکہ تیرا دل اللہ تعالیٰ کے وعدے پر مطمئن ہو جائے) توکل کی مزید وضاحت آپ نے اس طرح کی کہ اگر تم  کویہ جاننا ہو کہ یہ انسان کیسا ہےتویہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کی وعدے پراس کو زیادہ بھروسہ ہےیا انسان کے وعدے پر۔(29)یعنی اللہ تعالی پر بھروسہ ہےتو متوکل ہےاور انسانوں پر زیادہ بھروسہ ہےتو دنیادار ہے۔

ابو نعیم اصفہانی نی لکھاہےکہ شقیق بلخی نے توکل کی چار قسمیں بیان کی ہیں:

  1. توکل علی المال
  2. توکل علی النفس
  3. توکل علی الناس
  4. توکل علی اللہ

توکل علی المال یعنی مال پر توکل کامطلب یہ ہےکہ تم کہو کہ جب تک یہ مال میرے پاس رہےگا، مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔توکل علی النفس یعنی نفس پر توکل کا مطلب یہ ہےکہ انسان کلی طور پر صرف اپنے اوپر بھروسہ کرے۔توکل علی الناس یعنی لوگوں پر توکل کا مطلب یہ ہےکہ ہر ضرورت میں دوسرے لوگوں کی مددکا یقین ہو اورتوکل علی اللہ یعنی اللہ تعالیٰ پر توکل کا مطلب یہ ہےکہ تم یہ جانو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا ہےوہی تمہارے رزق کا ضامن اور کفیل ہے۔وہ تمہیں کسی کا محتاج نہیں کرے گا اور تم اس بات کو خود اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق اپنی زبان میں یوں کہو

اور جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔(سورة الشعرائ79) یہ توکل علی اللہ ہے۔

 اللہ تعالیٰ کا ارشادہے " اور اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اگر تم صاحب ایمان ہو۔ (المائدہ 23)

اور مومنو کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے(المائدہ 11)۔ ِ

اللہ توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔(آل عمران 159) (30)

حضرت شقیق بلخی ؒکے یہاں توکل پر اتنا زور ہےکہ بسا اوقات وہ ترک وسیلہ تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس کی مثال چڑیا کا قصہ ہےجو اوپر گزر چکا ہے۔ لیکن شایدحضرت ابراہیم بن ادہم کی تربیت کی بعد انھوں نے ترک وسیلہ کا خیال چھوڑ دیا ہو۔ البتہ اس سے ان کے معیار توکل میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ فرماتی تھے کہ جو تمھارا رزق ہےوہ ہر حال میں تم کو ہی ملے گاکسی اورکو نہیں مل سکتا۔ (31) اس لیے انسان کو اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔

حضرت شقیق بلخی ؒکے نزدیک توکل ایمان کا پیمانہ ہے، شقیق بلخی نے متعدد آیات سے استشہاد کیا ہےجن کا حوالہ اوپر گزرا جن سے ثابت ہوتا ہےکہ توکل ایمان کا تقاضہ ہے اور انسان کے ایمان کی علامت بھی یہی ہےکہ اس کا زیادہ بھروسہ کس پر ہےاللہ کی وعدہ پر یا انسانوں کی وعدوں پر۔(32)

زہد :

حضرت شقیق بلخی ؒکے عہد میں لفظ تصوف کا رواج نہیں تھا۔ اس عہد میں تصوف کی لیے لفظ زہد کا استعمال ہوتا تھا۔اس لیے حضرت شقیق بلخی ؒنے بھی لفظ تصوف کا استعمال نہیں کیا اس کے بجائی وہ زہد کا لفظ ہےاستعمال کرتے تھے۔

شقیق بلخیؒ فرماتے ہیں کہ زہد، رغبت کی ضد ہے۔ زاہد اور راغب کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہےجن میں سے ایک مشرق کی طرف جا رہا ہو اور دوسرا مغرب کی طرف۔ان کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔ ان کے مقاصد مختلف ہیں۔ راغب یہ دعا مانگتا ہےکہ اے اللہ مجھے مال، اولاد اور دولت عطا فرما اور مجھے میرے دشمنوں کے مقابلے کامیاب فرما اور ان کے شر، حسد، ظلم، مصیبت اور آزمائش مجھ سے دور فرما۔ زاہد کی دعا یہ ہوتی ہےکہ اے اللہ مجھے ڈرنے والوں کا علم اور عمل کرنے والوں کا خوف عطا فرما۔ متوکلین کا علم، مومنین کا توکل، صبر کرنے والوں کا شکر اور شکر کرنے والوں کا صبر، مغلوب ہو جانے والوں کی فروتنی، عاجزی کرنے والوں کی انابت اور سچوں کا زہد عطا فرما اور مجھے ان شہدا میں شامل فرما جو زندہ ہیں ان کو رزق دیا جاتا ہے۔ یہ اس کی دعا ہے۔ دونوں کی دعائیں الگ الگ ہیں اور بخدا دونوں کے راستے جدا جدا ہیں۔(33) اسی طرح حضرت شقیق بلخی ؒزاہد یعنی صوفی کو دوسری تمام گروہوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ یعنی جو شخص زاہد ہوگا اس کی فکر کا محور پوری طور پر اللہ تعالیٰ کی خشیت اس پر توکل، صبر اور انابت ہوگا اور اس کی منزل شہدا میں شامل ہونا ہوگا۔ یعنی آخرت میں کامیابی ہی اس کی زندگی کا اصل مقصد ہوگا اور اس کی کوشش یہ ہوگی کہ وہ آخرت میں سب سے اعلیٰ مقام حاصل کرے جو مقام ان شہدا کا ہےجن کے باری میں قرآن میں آیا ہےکہ وہ زندہ ہیں اور کھلائے پلائے جاتے ہیں۔

جس شخص کی ساری تگ و دودنیا کے لیے ہو اور ہوا و ہوس کامتبع ہوا ور اس کی فکر کا محور اس کی دنیا کی زندگی ہوایسے شخص کی لیے حضرت شقیق بلخیؒ راغب کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ دنیا میں مال و اولاد کا حصول اور مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرنا ہی اس کی زندگی کا محور ہوتا ہے۔ آخرت کی فکر اس کے دائرہ فکر میں شامل نہیں ہوتی۔

گویا شقیق بلخیؒ کے نزدیک جو شخص آخرت میں اعلیٰ درجات حاصل کرنے کی فکر میں یہ زندگی گزارے وہ زاہد ہےاور جس کی فکر کا دائرہ اس دنیا میں ہی محدود ہو وہ راغب ہے۔

زہد کی ضد کے طور پر شقیق بلخیؒ ایک دوسرا لفظ یعنی ہوا (ہوس)بھی استعمال کرتے ہیں۔اس لفظ کا استعمال اب بھی اسی معنی میں ہوتا ہے۔ لیکن اول الذکر کا استعمال اصطلاحاً ان معنوں میں نہیں ہوتا جن میں  حضرت شقیق بلخیؒ نے اس کو استعمال کیا تھا۔

زاہد کے امتیازات بتاتے ہوئے حضرت شقیق ؒنے فرمایا کہ تین خصلتیں ہیں جو زاہد کا تاج کہلاتی ہیں:

اول یہ کہ وہ خواہشات کی پیروی نہ کرے بلکہ خواہشات کے خلاف چلے۔

دوسرا یہ کہ وہ دل سے زہد کی طرف مائل ہو۔

تیسرا یہ کہ جب بھی اس کو فرصت کے لمحات میسر آئیں تو یہ سوچے کہ قبر میں داخل ہونا اور اس سے دوبارہ زندہ ہو کر نکلنا کس حال میں ہوگا اور قیامت کے دن کی طوالت، بھوک، پیاس، برہنگی، حساب اور صراط کو یاد کرے اور حساب کی طوالت اور اس دن کی رسوائی کو یاد کرے، اس کا یہ ذکر اس کو دھوکے کے گھر (یعنی اس دنیا) کے ذکر سے بے نیاز کر دے گا- (34)

زہداللہ تعالی سے قربت کا بھی ذریعہ ہے اور بے شمارفضائل اس کے ذریعہ انسان کو حاصل ہوتے ہیں ایک موقع پرحضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سب سے قریب وہ زہاد ہوں گے جو اس سے سب سے زیادہ خوف کی روش اختیار کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب وہ زہاد ہوں گے جو اس کے لیے سب سے اچھے اعمال انجام دیں گےاور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل وہ زہاد ہوں گے جو اس کے وعدوں پر سب سے زیادہ یقین ورغبت رکھنے والے ہوں گے (اعظمہم فیما عندہ رغبة ) اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیاد ہ باعزت وہ زہاد ہوں گے جوسب سے زیادہ تقوی کی روش اختیار کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے مکمل وہ زہاد ہوں گےجو سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے اور اس کے سامنے سب سے زیادہ جھکنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے کامل زہاد وہ ہوں گے جو یقین میں سب سے زیادہ ہوں گے۔ (35)

طریقہ زہد :

راہ سلوک میں سالک کو مختلف منازل ومقامات سے گزرنا پڑتا ہے۔ صوفیہ کرام نے اپنے اپنے ذوق ووجدان کے مطابق ان منازل کا بیان کیا ہے۔شقیق بلخی ؒنے بھی زہد کا راستہ اوراس میں آنے والی منازل کا بیان تفصیل سے کیا ہےالبتہ ان کی بیان کردہ منزلیں وہ نہیں ہیں جو بعد میں صوفیہ نے طے کیں ۔ حضرت شقیق بلخیؒ ان کو منزل کہتے بھی نہیں وہ ان کو ابواب یعنی دروازے کہتے ہیں۔ حضرت شقیق بلخیؒ کو منازل وہ ابواب کے بیان سے زیادہ دل چسپی تھی بھی نہیں ان کی زیادہ توجہ آخرت کی فکر اور اس فکر کے پیش نظر دنیا کے اعمال کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق انجام دینے پر تھی۔ اس دنیا میں انسان کو آرام و راحت بھی ہیں اور تکلیف ومصائب بھی۔سالک کے لیے ضروری ہےکہ آرام و راحت اس کو خدا کی یاد سے غافل نہ کر دے اور تکلیف و مصیبت اس کو فریاد و واویلا میں مبتلا نہ کر دے اور رحمت خداوندی سے مایوس نہ کر دے، بلکہ آرام و راحت موجب شکر گزاری ہو اوراگر کوئی تکلیف پیش آئے تو اس پر صبر کرے۔ فرماتے ہیں کہ زہد کے راستہ کی طرف لے جانے والے دروازے چھے ہیں۔

  1. بھوک پر رضا اور سرور کے ساتھ صبر کرنا اس پر واویلا اور فتور کے ساتھ نہیں۔
  2. غریبی پر خوشی کے ساتھ صبر کرنا غم کے ساتھ نہیں۔
  3. طویل فاقہ کشی پر فضل و اقبال کے ساتھ صبر کرنا افسوس کے ساتھ، یعنی اس طرح رہناگویا بھوکا ہےہی نہیں بلکہ شکم سیر ہے۔
  4. عاجزی اور ذلت پر بہ طیب خاطر صبر کرنا نہ کہ کراہت کی ساتھ۔
  5. مصیبتوں پر رضامندی سے صبر کرنا نہ کہ ناراضگی کے ساتھ۔

          کھانے، پینے اور لباس کے بارے میں طویل غور و فکر کرنا کہ وہ کہاں سے آیا، کیسی آیا اور ممکن ہےکہ ایسا ہو اور ہوسکتا ہےکہ ویسا ہو (یعنی یہ ضرور غور کرے کہ یہ جائز ذریعہ سے ہی ہو) ۔(36)

حضرت شقیق بلخیؒ کے اس قول میں دو نکتے بیان کیے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مصیبت پر ہر حال میں بہ طیب خاطر صبر کرنا چاہیے یہ مصیبت بھوک و پیاس کی ہو،چاہےذلت و تکالیف کی ہو۔دوسرا یہ کہ حرام چیزوں سی اجتناب کرنا چاہیے۔

حضرت شقیق بلخی ؒنے زاہد اور متزہد کے درمیان فرق کرتے ہوئے دونوں کی خصوصیات بھی بتائی ہیں اور لوگوں کو نصیحت کی ہےکہ وہ متزہد کی صحبت سے اجتناب کریں متزہد کی خصوصیات بتاتے ہوئے کہا ہےکہ متزہد وہ ہےجو دیکھنے میں خشوع و خضوع کا پیکر نظرآئے۔ اپنے مدخل اور مخرج میں(یعنی چلنے پھرنے میں)، کھانے اور لباس میں اور اعمال میں اور اپنی خواہشات میں زاہدوں کے مشابہ روش اختیار کرے لیکن دنیا سے اس کی رغبت اور محبت اس کے اس دعوی کے خلاف گواہی دے۔ اس کی رضا راغبین کی رضا کی طرح ہوگی۔لیکن اس کا حسد، اس کے مقاصد، اس کی لمبی چوڑی باتیں، اس کا گھمنڈ ، اس کا فخر، اس کی بداخلاقی اور اس کی لچھے دار گفتگو اور لا یعنی باتوں میں اس کا مستقل پڑے رہنا اس کے نفاق کی دلیل ہیں۔اس سے بچو لیکن اگر کسی شخص میں یہ دس خصائل ہوں تو اس کے باری میں امید ہےکہ وہ زہد کے کسی نہ کسی دروازے میں ضرور ہوگا۔ وہ دس خصائل یہ ہیں:

 نیکی سے اس کو خوشی ہو اور برائی پر افسوس کرے۔

اچھا کام کیا اور کوئی اس پر تعریف کرے تواس کو نا پسند کرے اوراگر بغیر کوئی اچھا کام کیے کوئی اس کام کے حوالے سے اس کی تعریف کرے تو اس سے ایسی نفرت کریےجیسے خنزیر اور مردار کے گوشت یا خون سے نفرت کرتاہے۔

جب ان خصلتوں کو پہچان لے اور انہی میں اپنے دن اور رات کے اوقات صرف کرنے لگے تو اس کی خواہشات کم ہو جائیں گی اور جو سامنے آنے والا ہے (یعنی موت اور قیامت) اس کی فکر بڑھ جائےگی۔

جب آدمی ایسے کام میں مشغول ہوگا جس کی لیے اس کو پیدا نہیں کیا گیا (یعنی دنیاداری)تو اس کے غم بڑھ جائیں گے۔ ایسا لگے گا جیسے وہ مجنوں ہو۔پھراگر وہ اس چیز کو اسی وقت چھوڑ دے جس نے اس کو اطاعت الٰہی سے روکے رکھا تو اس سے اس کو زہد کی مٹھاس ملے گی اور اس کے ذریعہ وہ شیطان کے گروہ سے چھٹکارا پائے گا۔

  1. اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کے نزدیک شہد سے زیادہ میٹھا، برف سے زیادہ ٹھنڈاہو اور سخت گرمی میں پیاس سے جاں بلب شخص کی لیے صاف، ٹھنڈا اور میٹھاپانی جتنا لذت آ گیں ہوتا ہےاللہ کا ذکر اس کے لیے اس سے زیادہ لذیذ ہو جائے گا۔
  2. اس کو ان لوگوں کے پاس بیٹھنا جو زاہدوں کی تعریف کریں اور اس کو نصیحت کریں زیادہ اچھا لگے گا بہ نسبت ان کے جو انھیں درہم و دینار دیں۔
  3. اگر کوئی شخص اپنے گناہوں پر بہت نہ روئے تو اس کی توبہ قبول نہ ہوگی۔
  4. اس کی مسکراہٹ اور اس کی خوشی و مسرت کی کیفیت سے لوگ سمجھیں گے کہ اہل رغبت میں سے ہےنہ کہ اہل خوف میں سے۔
  5. اس کا دل اس سے یہ نہ کہےکہ تو کسی بھی اہل قبلہ سے افضل ہے۔
  6. اپنے گناہوں پر نظر رکھے دوسرے کے عیوب کی نکتی چینی سے بچے۔

جس شخص میں یہ دس چیزیں ہوں گی وہ امید ہےکہ زہاد کی طریقہ پر ہوگا۔ ان دس ابواب کے بعد سات اور ابواب ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتی ہیں کہ اوپر مذکور دس ابواب راہ سلوک کے منازل ہیں اور ذیل میں مذکورسات ابواب راہ سلوک کے احوال ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے سامنے دل سے عاجزی کرنا نہ کہ صرف زبان سے۔
  2. اللہ تعالیٰ کے سامنے خوشی سے جھکنا نہ کہ بے دلی سے۔
  3. لوگوں سے بغیر لالچ کے حسن معاشرت اختیار کرنا۔
  4. دنیا کی طرف جھکنے والوں سے ایسے بھاگنا جیسی گدھا شیر سے اور ان سے ایسی نفرت کرنا جیسی گدھا درندوں کی آواز سے کرتا ہے۔
  5. ہر ایسی چیز سے پناہ چاہنا جس کے عذاب کا ڈر ہو یاپھر اس پر ثواب کی کوئی امید نہ ہو۔
  6. اپنے گناہوں پر رونے والوں کی صحبت اختیار کرنا۔
  7. اور موت کے بعد آنے والے شدائد و مشکلات سے خوف کھانا۔

جس کے اندر یہ باتیں ہوں گی وہ گویا سب سے افضل عبادت پر ہےاور زہاد کے طریقہ پر گامزن ہےبالفظ دیگروہی صحیح معنوں میں زاہدیا صوفی ہے۔ (37)

یہ پوری گفتگو ابو نعیم اصفہانی نےحلیہ الاولیا میں نقل کی ہے۔ اندازہ ہوتا ہےکہ یہ شاید کسی مجلس کی گفتگو ہےیا کسی سالک کو کی گئی نصیحت ہے۔ اس پوری گفتگو میں درج ذیل نکات خاص طور پر اہم ہیں۔

  1. ہر قسم کی مصیبت کا مردانہ وار مقابلہ کرے اور اس پر صبر کرے اور اس کو بہ طیب خاطر برداشت کرے۔
  2. ریاکاری اور نمود و نمائش سےاور غرور و تکبر سے دور رہے۔نیک کام کرنےپر اس کو خوشی ہو برے کام کے سرزد ہو جانے پر افسوس ہو۔نیک کام پر اگر کوئی اس کی تعریف کرے تو اس کو ناگواری ہو۔لیکن اگر ایسے کام پر کوئی اس کی تعریف کرے جو اس نےکیا ہی نہ ہو تو اس کو حد درجہ ناپسند کرے۔
  3. ہر وقت مستقبل یعنی موت اور قیامت کے حساب کی فکر میں رہے۔
  4. اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرے۔
  5. اپنےعیوب پر نظر رکھے اور دوسروں کی خوبیوں پر ۔

اگر کسی شخص میں یہ اوصاف پیدا ہو جائیں تو اس کے بارے میں یہ سوچا جاسکتا ہےکہ وہ زہد کی راہ پر گامزن ہے، لیکن اگر یہ اوصاف نہ پائے جائیں اور زہد کا دعویٰ ہو توحضرت شقیق بلخی کے مطابق وہ متزہدہے۔ ایسےلوگوں کی صحبت سے بچنا چاہیے۔حضرت شقیق بلخی نےزاہد اور متزہد کے درمیان فرق کرنےکا ایک اور اصول بتایا ہےکہ زاہد اپنے عمل سے زاہد ہوتا ہےاور متزہد اپنے قول سے۔(38) وہ سالک کو نصیحت کرتے تھے کہ ہمہ وقت یہ دیکھو تم اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کتنے جری ہو اور اللہ تعالیٰ کتنا حلیم ہے۔(39)

فکر آخرت :

حضرت شقیق بلخیؒ کی نظر میں اہل طاعت ہی زندہ لوگوں میں شمار کیےجانے کے قابل ہیں گناہ گار تو مردوں کے مانند ہیں۔سالک کو ہمہ وقت اس فکر میں رہنا چاہیے کہ مرنےکے بعد کی تیاری پوری رہے۔ فرماتے تھے کہ موت کی ایسی تیاری کرو کہ جب موت آجائےتو یہ احساس نہ رہےکہ کاش اور مہلت ملتی۔(40)

شقیق بلخیؒ کے نزدیک عقل مند آدمی وہ ہےجو ہر وقت ان تین حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں رہے۔

  1. اپنے پچھلے گناہوں پر ہر وقت خوف زدہ رہے۔
  2. اس پر اگلا لمحہ کیا گزرے گا یہ اس کو معلوم نہ ہو۔ یعنی ہر وقت اگلے لمحے کی فکر میں لگا رہے۔
  3. انجام کار سے ہر وقت خائف رہےچونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا خاتمہ کس چیزپر ہوگا۔(41(

عبادت :

 انسانی زندگی کا مقصد عبادت ہےاور عبادت کامقصد یہ ہےکہ بندہ دنیا میں ایک مطمئن زندگی گزارے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کا مستحق قرار پائے۔اس کو جنت حاصل ہو جائےاور جہنم سے چھٹکارا مل جائے۔ شقیق بلخی نےعبادت کے اس مقصد کو مزید وضاحت کرتے ہوئےفرمایا کہ ”عبادت کا حسن چار چیزیں ہیں:

  1. جب بندہ اپنے آپ کو عبادت میں منہمک دیکھے تو اپنے دل سےکہےکہ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اور میرے اوپر اللہ تعالیٰ نے ہےیہ انعام فرمایا ہے۔ وہ جب یہ سوچے گا تو اس کےاندر سےگھمنڈ کا مادہ ختم ہو جائےگا۔
  2. اس کا دل ہر وقت ثواب میں اٹکا رہےچونکہ جب اس کا دل ثواب میں لگا رہےگا تو ریاکاری کا خیال دل سےنکل جائےگا۔کیونکہ اب وہ اس نیت سے عمل کرے گا کہ اس کو اس پر ثواب ملے۔ اگر شیطان اس کے دل میں وسوسہ بھی ڈالے گا تو وہ کہےگا میں یہ کام اس لیے کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اس پر ثواب عنایت فرمائے۔جب وہ اس امید پر عمل کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کو ثواب عطا فرمائےتو لوگوں سےاس کی امیدیں اور لالچ (طمع) ختم ہو جائی گی۔

طمع یا لالچ کا مطلب ہےخدا کو بھول جاناہے، بندہ جب اللہ کو بھول جاتا ہےتب ہی اس کی امیدیں مخلوق سے وابستہ ہوتی ہے۔(42)

معرفت : شقیق بلخیؒ نے معرفت کے بارے میں فرمایا کہ معرفت چار طرح کی ہوتی ہے:

  1. اللہ تعالیٰ کی معرفت۔
  2. اپنے نفس کی معرفت۔
  3. اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کی معرفت۔
  4. اللہ تعالیٰ کےدشمنوں اور اپنے نفس کے دشمنوں کی معرفت۔

اللہ تعالیٰ کی معرفت یہ ہےکہ بندہ دل سی یہ جانے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کےنہ کوئی دینےوالا ہے، نہ کوئی روکنےوالا ہے، نہ نقصان پہنچانےوالا ہے، نہ فائدہ پہنچانےوالا۔

معرفت نفس یہ ہےکہ تمھارا نفس یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کےبغیر نہ تمہیں کوئی نفع دے سکتا ہےنہ نقصان پہنچا سکتا ہےاور نہ تم خودکوئی کام کرسکتے ہو۔

اللہ تعالیٰ کی امر و نہی کو جاننے کا مطلب ہےکہ تم یہ جان لو کہ تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لانا لازم ہےاور تمھارا رزق اللہ تعالیٰ کےذمے ہےاور اس پر یقین کامل ہو کہ تمہیں رزق ملے گا، اعمال کو خلوص کے ساتھ انجام دو اور اخلاص عمل کی پہچان تمہارے اندر دو خصلتوں کاہونا ہے ایک طمع اور دوسری جزع یعنی تڑپ۔

اللہ تعالیٰ کےدشمن کی معرفت کا مطلب یہ ہےکہ تم یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کا ایک دشمن ہےیعنی شیطان اس سےجنگ کیےبغیر اللہ تعالیٰ تمھارا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا اور یہ جنگ دل کے اندر ہوتی ہے۔ آدمی اپنی دل میں جنگ کرے، جہاد کرے اور دشمن یعنی شیطان کو تھکا دینے والا ہے۔(43)

حضرت شقیق بلخیؒ نےمزید فرمایا کہ معرفت کا تقاضا یہ ہےکہ بندہ یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہےکہ تمہاری پاس جو چیز ہےاس کو تم سے ےی کر دوسرے کو دے دے اور اگر تمہاری پاس کوئی چیز نہ ہو تو وہ تم کو دے دے۔ (44)

اقوال حکمت:

حضرت شقیق بلخی ؒنے فرمایا کہ اپنے آپ کو دنیا کی طلب میں ہلکان مت کرو اگر تمہاری لیےفقر مقدر کر دیا گیاہےتو تم غنی نہیں ہو سکتے۔(45)

انھوں نے فرمایا کہ انسان اپنے ایمان کا جائزہ لین دین کے ذریعےبھی لے سکتا ہےاگر تمہاری نظر میں تمہیں دینےوالا شخص زیادہ محبوب ہےتو یہ علامت اس بات کی ہےکہ تم دنیا دار ہواور اگر تمہاری نظر میں وہ شخص زیادہ محبوب ہےجس کو تم دے رہےہو تو اس کا مطلب ہےکہ تمہاری نظر میں آخرت کی فکر زیادہ ہے( فانک محب للاخرة)(46)

انھوں نے فرمایا کہ دنیا میں ایسے رہو جیسے لوگ آگ کےساتھ رہتے ہیں یعنی اس کا فائدہ تو اٹھاتے ہیں لیکن اس میں جلنے سے بچتے ہیں۔( 47)

ایک مرتبہ فرمایا کہ توبہ کیا ہے؟ پھر خود ہی فرمایا کہ توبہ در اصل انسان کی گستاخانہ جرات اوراللہ رب العزت کی عفو و درگذر کی تفسیر ہے۔(48)

صبر اور رضا کےبارے میں بڑی خوبصورت بات ارشاد فرمائی۔ کہ صبر و رضا دو الگ الگ صورتیں ہیں۔جب کسی کام کا آغاز کیا جاتا ہےتوابتدا صبر سے ہوتی ہےاور اس کا اختتام رضا پر ہو تا ہے(49)

ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اگر دنیا میں خوش رہنا ہےتو جو مل جائے وہ کھالو،جو میسر ہو وہ پہن لو اور اللہ نے جو فیصلہ کر دیا اس پر راضی ہو جاو (50)

حضرت شقیقؒ فرماتے تھے کہ عقلمند انسان کی تین خصلتیں ہو تی ہیں:

1۔ وہ ہمیشہ اپنےپچھلے گناہوں پر شرمندہ رہتا ہے۔

2۔مستقبل کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہتا ہےکہ اگلے لمحے نہ جا نےکیا ہوگا(یعنی مدہوشی کی زندگی نہیں گذارتا۔)

3۔انجام کار موہوم ہےپتہ نہیں خاتمہ کس پر ہو گا اس لیےوہ اپنے انجام کے لیےفکرمند ہو تا ہے۔(51)

اوپر کے صفحات میں حضرت شقیق بلخی علیہ الرحمہ کی حیات اور ان کےافکار کا مختصر خاکہ پیش کیا گیا اس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ وہ عظیم پائے کےصوفی تھے۔ان کی زندگی عمل سےعبارت تھی اور انھوں نےعمل کی تلقین کی۔انھوں نے اپنے اقوال میں ایسے معیارات رکھ دیےکہ ان کے ذریعےانسان اپنا جائزہ لے سکتا ہےکہ وہ دینی اعتبار سے کس مقام پر ہے اور انھوں نےتصوف کی فکری تاریخ کا منہاج متعین کرنے کےلیے عظیم کارنامہ انجام دیا۔

 

حواشی:

1۔ذہبی،شمس الدین: تاریخ الاسلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، دارالکتاب العربی، بیروت، طبع دوم 1993جلد 13ص:228

2۔ابونعیم اصفہانی: حلیة الاولیا و طبقات الاصفیا، دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان غیر مورخہ، جلد 7ص: 8، ابوالقاسم القشیری: الرسالہ، اردو ترجمہ ڈاکٹرپیر محمدحسن، ادارہ تحقیقات اسلامی پاکستان، اسلام آباد، 1958، ص: 139-138

3۔ابن الملقن: طبقات الاولیا تحقیق و تخریج نورالدین شریبہ، دارالمعرفة، طبع دوم 1986، ص: 13، الرسالہ القشیریة۔ (محولہ بالا، ص: 139)

4۔الرسالہ (محولہ بالا) ص138

5۔ایضاً

6۔ابن الملقن (محولہ بالا) ص15

7۔ تاریخ الاسلام، جلد: 13،ص:230

8۔عبدالروف مناوی: الکوکب الدریہ فی تراجم سادة الصوفیہ۔تحقیق ڈاکٹرعبدالحمید صالح حمدان، المکتبہ الازہریہ للتراث، مصر، بدون سنہ،جلد۱،ص:223

9۔طبقات الاولیا ص14

10۔ تاریخ الاسلام جلد،13ص:228

11۔جمال الدین ابوالفرج ابن الجوزی: صفة الصفوة، دارابن حزم، بیروت،2008 ص 663

12۔ حلیة الاولیا (محولہ بالا 8/59) ، تاریخ الاسلام، جلد13،ص:229

13۔طبقات الصوفیہ ص 64

14۔الرسالہ، ص: 442

15۔طبقات الاولیا، ص: 9

16۔تاریخ الاسلام ،جلد13ص:230

17۔ذہبی: العبر فی خبر من غبر، تحقیق ابو ھاجر محمد بن سعید البسیونی زغلول دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان ،1985، ص:جلد، 1ص:246

18۔طبقات الاولیا، ص: 14

19۔ابوعبدالرحمن السلمی: طبقات الصوفیہ، تحقیق نورالدین شریبہ، دارالکتاب العربی، مصر، 1953، ص: 62۔63

20۔تاریخ الاسلام، جلد 13ص:231

21۔ابن العماد: شذرات الذہب، دار المسیرہ، بیروت، 1979، جلد1ص:341

22۔صفة الصفوة، ص664

23۔حلیة الاولیا، ص: جلد 8ص:46

24۔تاریخ الاسلام، جلد 13ص:229

25۔ابن اثیر: الکامل فی التاریخ، تحقیق ابو الفدا عبداللہ القاضی،دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1987،جلد 5ص:370

26۔حلیة الاولیا، ص: جلد 8ص:64

27۔ابن خلکان: وفیات الاعیان، طبع بولاق، جلد2ص:171

28۔الرسالہ، ص: 138

29۔طبقات الصوفیہ، ص: 63

30۔حلیة الاولیا،جلد 8ص:62-62

31۔طبقات الصوفیہ، ص: 63

32۔ایضا، ص: 64

33۔حلیة الاولیا، جلد8ص:70

34۔ایضا ص: 62

35۔ایضاص:70

36۔ایضا،ص: 70

37۔ایضاص:67-66

38۔طبقات الصوفیہ، ص: 64

39۔طبقات الصوفیہ، ص: 65

40۔ایضا، ص: 63

41۔ایضا، ص: 64

42۔حلیة الاولیا، ص: 60

43۔ایضا ص: 60-61

44۔ایضا، ص: 66

45۔الکوکب الدریہ ،جلد2ص:222

46۔طبقات الاولیاص64

47۔الکوکب الدریہ ص2/222

48۔طبقات الصوفیہ، ص 65

49۔ایضا

50۔ایضا ،ص 66

51۔ایضا ،ص 63

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter