امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان :ایک فقید المثال عاشقِ رسول ﷺ
امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی شخصیت جہاں اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔ وہیں اللہ تبارک وتعالی نے اس ذات میں دنیا کی ساری خصوصیات اور امتیازیات کو جمع کردیا تھا ان خصوصیات میں عمدہ اور نمایاں طرۂ امتیاز آپ کا بے پناہ عشق رسول ﷺ اور رسالت مآب ﷺ سے انتہا کی وارافتگی اور شیفتگی ہے۔ وہ ہمہ وقت اپنے محبوب کے جمال جہاں آراء کی دلنواز اداؤں کے بحر عمیق میں غوطہ زن رہتے تھے۔ نہ ان کے عشق کا جواب نہ ان کی دیوانگی کی مثال۔ عشق رسول ﷺ میں وہ تنِ تنہا نظر آتے ہیں۔ ان جیسا عاشق کسی نے آج تک دیکھا نہیں اپنے تو اپنے غیر بھی ان کے عشق اور محبت رسول ﷺ کی گواہی دیتے ہیں۔ عربی میں مشہور مقولہ ہے "الفضل ما شہدت بہ الأعداء"، یعنی کمال فضیلت وہ ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں۔ وہ محبوب دوجہاں ﷺ کے ہر ادائے دلنشین پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا جذبہ دروں اپنے نہاں خانۂ دل میں ہمیشہ ہمیش جوان رکھتے تھے۔ انہوں نے سرگشتگان راہ حق کو عشق رسولﷺ کا وہ جام پلایا جس کا نشہ آج بھی اپنے شباب پر ہے۔ اسی کی مرہونِ منت کہیے کہ ہندوستان کے ہر گوشے میں سلام رضا کی نغمہ سازیاں سنائی دے رہی ہیں۔ ہر دل عشق رسول ﷺ سے سرشار اور شرابور ہے۔
امام کی زندگی کا ہر لمحہ عشق اور وارفتگی میں گزرتا تھ۔ وہ عدیم الفرصت شخصیت تھے۔ ان کے شام و سحر، لیل ونہار، شب و روز دین کی خدمت میں گزرتے تھے۔ چہار دانگ عالم سے آئے ہوئے سوالات کا مفصل ومدلل جوابات لکھتے اور تحقیق وتدقیق کے دریا بہادیا کرتے تھے۔ اس درجہ مصروف رہتے کہ نگاہ اٹھاکر دیکھنے کی بھی مہلت نہیں ملتی۔ ان کے حریم دل پر ہر وقت عشق بے نیاز کا پہرہ کھڑا رہتا ہے۔ ہزار انداز دل ربائی کے باوجود آج تک خیال غیر کو شرف باریابی کی قطعی اجازت نہیں مل سکی ہے۔ عشق رسول ﷺ کی لذت آشنائی نے انہیں دوعالم سے بیگانہ کردیا تھا۔ دنیاوی جاہ وحشمت کی چکاچوند سے ان کی آنکھیں کبھی خیرہ نہ ہو سکیں۔ اہل دولت وثروت کی توصیف وتعریف سے اپنی زبان ناز کو ہمیشہ پاک رکھا۔ ایک بار کسی نے نواب نانپارہ کی قصیدہ خوانی کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے ایک مقدس نعت لکھی جس کا مقطع پڑھنے اور عبرت حاصل کرنے لائق ہے۔ آپ برجستہ کہتے ہیں۔
کروں مَدْحِ اَہلِ دُوَل رضا پڑے اِس بَلا میں مِری بَلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارۂ ناں نہیں
ان کے قلم سیال کا ایک ایک قطرہ فکر و اعتقاد کی جنتوں میں کوثر وتسنیم کی طرح بہہ رہا ہے۔ ان کے خون جگر کی سرخی سے ویران دلوں میں محبت رسول ﷺ کا گلشن سدا بہار لہلہا رہا ہے، ان کے علم وعرفان کی داستان چمن چمن پہنچ کر داد وتحسین حاصل کررہی ہے۔ اب علمی خدمات لوح و قرطاس سے گزر کر علم و دانش کا چراغ کشور دل کے شبستانوں میں جلوہ بکھیر رہا ہے۔ اب ذرا ان کی پاکیزہ زندگی کا نصب العین بھی دیکھیے۔ وہ رقم طراز ہیں کہ "میرے وہ فنون جن کے ساتھ مجھے پوری دلچسپی حاصل ہے۔ جن کی محبت عشق و شیفتگی کی حد تک نصیب ہوئی ہے وہ تین ہیں اور تینوں بہت اچھے ہیں۔ پہلا، سب سے پہلا، سب سے بہتر، سب سے اعلی، سب سے قیمتی فن یہ ہے کہ رسولوں کے سردار صلوات اللہ علیہ وعلیہم اجمعین کی جناب پاک کی حمایت کے لیے اس وقت کمر بستہ ہوجاتا ہوں جب کوئی کمینہ وھابی گستاخانہ کلام کے ساتھ آپ کی شان میں زبان دراز کرتا ہے۔ میرے پروردگار نے اسے قبول فرمالیا تو وہ میرے لیے کافی ہے۔ مجھے اپنے رب کی رحمت سے امید ہے کہ وہ قبول فرمائے گا۔ کیونکہ اس کا ارشاد ہے کہ میرا بندہ میری بابت جو گمان رکھتا ہے۔ میں اس کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ فرماتا ہوں۔ (الاجازات المتینہ)
دیکھا آپ نے کس انداز سے آپ عشق رسالت مآب کی خدمت سے سرشار ہیں مذکورہ بالا عبارت کی ہر ہر سطر سے عشق رسول ﷺ کے سوتے پھوٹ رہے ہیں۔ عشق مصطفی ﷺ کا بادۂ ناب ان کی رگ و پے میں اس طرح سمایا ہواتھا کہ اس کی سرمستیوں سے وہ ہر وقت سرشار اور بے خود رہا کرتے تھے۔ اور زبان حال سے کہتے تھے۔
جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا ، سارا تو سامان گیا
الروح فداک فزد حرقا
یک شعلہ دگر برزن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا
یہ جاں بھی پیارے جلا جانا
عشق رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ شریعت مطہرہ کی اتباع کریں جیسے کہ قرآن کہتا ہے۔ اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (آل عمران:31) اس لئے انہیں اتباع شریعت کا اتنا پاس ولحاظ تھا کہ اپنی رفتاروگفتار، نشست و برخاست، خوردونوش، گفتگو وملاقات، خلوت وجلوت، ظاہر وباطن، لباس وضع وقطع، چال چلن، نجی محفل ہو یا بزم اعزا ہر چیز ہر وقت مزاج شریعت مطہرہ کی حد درجہ پابندی کرتے تھے۔ سفر وحضر میں اسلامی اصول وقوانین کے مطابق عمل کرتے۔ رخصت سے زیادہ عزیمت پر عمل کرنے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ المختصر آپ اعلی اخلاق، بلند کردار اور بے داغ عاشق صادق تھے۔
امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کے فضل وکمال کا شہرہ چار دانگ عالم میں بج رہا ہے۔ آپ کا ذکر حدیثِ محفل، رونقِ بزم اور آپ کی زندگی یادگارِ اسلاف ہے۔ آپ کا نام گرامی عشق رسول ﷺ کی ایک واضح علامت وشناخت بن کر کائنات رنگ وبو کے گوشے گوشے میں اپنی شعاع نور بکھیر رہا ہے۔ تحدیث نعمت کے طور پر آپ ہی کہتے ہیں۔
ملک سخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں
آپ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جناب پروفیسر جمیل نذرؔ مرحوم نے کیا خوب کہا تھا۔
وادی رضا کی ، کوہِ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھیے وہ علاقہ رضا کا ہے
اگلوں نے بھی لکھا ہے بہت علم دین پر مگر
جو کچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے
جو کچھ ہم نے لکھا یہ کوئی علمی یا تحقیقی مقالہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ بے ترتیب الفاظ کا ذخیرہ ان سے بے لوث عقیدت ومحبت کا قرض ہے جو جلدی جلدی حاشیۂ ذہن سے سینئہ قرطاس پر اتار دیا۔ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے عشق رسول ﷺ کو حیطۂ تحریر میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جو کچھ بیان ہوا اس سے کہیں بلند وبالا ہے آپ کا مقام۔
قسیمِ جامِ عرفاں اے شہ احمد رضا تم ہو
تمہاری شان میں جو کچھ کہوں اس سے سِوا تم ہو
ان کے جذب و مستی، سرشاری، وارفتگی، دیوانگی، شیفتگی اور نیاز کشی وذوق فدائیت کو بیان کرنا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ آخر یہی دعائیہ کلمات سے خراج عقیدت کو ختم کرتے ہیں کہ قادر مطلق ان کی پاک تربت پر اپنی رحمت وغفران کی موسلادھار بارش برسائے جو ہمیشہ عشق محمدی ﷺ کے سوز و ساز کی آتش میں سلگتے رہے۔ آج بھی ان کی مرقد مبارک سے لاکھوں ویرانہ دلوں کو عشق رسول ﷺ کا جھلکتا جام مل رہا ہے، اور ان شاء اللہ العزیز تا قیامت تک اس عاشق رسول صادق ﷺ کی پاک زندگی سے سینۂ مومن کو عشق رسول ﷺ کی گراں قدر سوغات ملتی رہے گی۔
بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
ابر رحمت تیری مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شانِ کريمی ناز برداری کرے
فنا کے بعد بھی باقی ہے شانِ رہبری تیری
خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تُجھ پر
مثلِ ایوانِ سحَر مرقد فرُوزاں ہو ترا
نُور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحَد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نَورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے