تبدیلیِ مذہب کے نام پر گودی میڈیا کا ننگا ناچ
آج کل گودی میڈیا پر دو نام سرخیوں پر ہے ایک ڈاکٹر محمد عمر گوتم دوسرا جہانگیر قاسمی کا جو نئی دہلی میں واقع اسلامی دعوہ سنٹر کے سربراہ اور داعی ہیں۔میڈیا کے ہاتھ جیسے ہی ڈاکٹر عمرگوتم اور جہانگیر قاسمی کی گرفتاری کی خبر لگی فورا میڈیا نے اپنی پرانی روش کے مطابق تخلیقی کہانیاں اور من گھڑت افسانوں کا تانا بانا چوڑنے لگا اور ہندو مسلم منافرت کی سنسنی خیز خبریں نشر کرنے لگا۔ایسی ایسی تخلیقی کہانیاں جسے حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ایسا لگ رہا ہے بندر کے ہاتھ پھول کا ہار مل گیا ہے۔ان دونوں اسلامی اسکالروں پر مندرجہ ذیل الزامات کا بھنڈار لاداجارہا ہے کہ دونوں نے سادہ لوح ہندووں کو زور زبردستی مسلمان بنارہے تھے۔غریب ہندووں کو مال ودولت کی لالچ دے کر مسلمان بنارہے تھے۔مزید برآں اس کام کیلئے ان کو بیرونی ملکوں سے فنڈ حاصل ہورہا تھا وغیرہ وغیرہ۔
ان کی گرفتاری سے ہندوستانی پولیس کی بھی مسلم منافرت بے نقاب ہوگئی کہ پہلے انہوں نے دونوں کو دہلی سے غازی آباد بلایا پھر گہری جانچ وپڑتال وپوچھ تاچھ کے بعد لکھنؤ میں گرفتاری کا اعلان کیا۔پھر اچانک نئی دلی میں واقع ان کے دفتر اسلامی دعوہ سنٹر کو سیل کردیا۔جب باشندگان ہند پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تو سادہ لوگ عدل وانصاف کیلئے تھانہ کا دروازے کھٹکھٹاتے ہیں آج اسی تھانے میں عدل وانصاف کے ساتھ برملا ظلم ہورہا ہے آخر عدل وانصاف کتابوں کے صفحات اور قانون کے ورق کی زینت بن کر رہ گئے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
قانون کے پاسدار وعلمبردار ہی قانون کا خون کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں تو دوسروں کا کیا کہنا۔پولیس کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی FIR کی فیلیں گودی میڈیا کو دی جاتی ہیں اور پھر میڈیا اسے پورے ہندوستان میں پہنچانے کا ٹھیکہ نبھاتا ہے اور سنسنی خیز خبروں کے نام سے نشر کیا جاتا ہے۔بڑے افسوس کے ساتھ نوک قلم کو جنبش دے رہاہوں کہ آج ہندوستانی نیوز چینلوں پر یہ کہتے سنا گیا کہ ان دونوں اسکالروں کی نظر نوئیڈا میں واقع اپاہج گونگے اور بہرے بچے پڑھنے والے اسکول پر تھی ان بچوں کو کسی بھی طرح حاصل کرکے انہیں زبردستی مسلمان بناکر انہیں انسانی بم یا انسانی دہشت گرد ہتھیار بنانے کا منصوبہ رچا جا رہا تھا۔میڈیا کے اس سنسنی پر ہنسی بھی آرہی ہے اور رونا بھی۔
چلتے چلتے یہ بھی بتادوں کہ ڈاکٹر محمد عمر گوتم ایک نو مسلم داعی ہیں۔انہوں نے بیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔قبول اسلام کا پس منظر کچھ یو ہے1985 ء میں الہ باد کی تعلیم مکمل کرکے اعلی تعلیم agricultural engineering (زرعی انجینئرنگ) حاصل کرنے کیلئے انہوں نے نینی تال کا رخ کیا۔وہیں ایک کار حادثہ کے شکار ہوکر وہ صاحب فراش ہوگئے تب ان کے پڑوسی جناب ناصر خان صاحب نے ان کی ریکھ دیکھ کی۔ان کا بھر پور خیال رکھا اسی ناصر خان کے اخلاق سے متأثر ہوکر انہوں نے اسلام کے بارے میں پڑھا اور خراماں خراماں اسلامی تعلمات انکے دل گھر کر گئیں۔ایسے وہ مسلمان ہوگئے۔ان کا اصلی نام شیام پرساد سنگھ گوتم تھا بنیادی طور پر وہ اتر پردیش کے فتح پور ضلع کے رہنے والے تھے عمر گوتم کے علاوہ پورا پریوار آج بھی ہندو ہے۔اگر میڈیا کی بات سچی ہوتی تو سب سے پہلے ڈاکٹر عمر گوتم اپنے خاندان والوں کو ڈرادھمکاکر مسلمان بناتے اور دولت وثروت کی لالچ دلاکر انہیں بھی اپنے جھانسے میں پھساتے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
گرفتاری کا سبب بھی کوئی درج کردہ شکایت نہیں بلکہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سوامی نرسمہانند پر حملہ کی سازش کے الزام میں پکڑے گئے تین جوانوں کی پوچھ تاچھ کے بعد ان دونوں کی گرفتاری کا پورا ڈرامہ رچایا گیا یہ پہلی مرتبہ نہیں اس سے پہلے بھی کوشش کی گئی لیکن ناكام رہے۔ان تین نوجوانوں میں ویل وجے ورگیہ نے اسلام قبول کیا تھا۔اسی بے جا گرفتاری سے تانا بانا جوڑ جوڑ کر پولیس اور پرشاشن نے بڑی محنتوں کے بعد ان دونوں کو گرفتار کیا۔ہندوستانی آئین ودستور کے دفعہ 25 کے مطابق ملک کے ہر باشندے کو اپنی مرضی کے مطابق مذہب اپنانے وبدلنے اور اسکی تبلیغ واشاعت کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔لیکن آج کل قانون کی کون سنتا ہے سب اپنی اپنی من مانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جس سوامی نرسمہا نند نے دلی میں ایک پریس کانفریس میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی سنگین جرم کا ارتکاب کیا اور آج وہ بغیر کسی روک ٹوک کے گھوم رہا ہے۔ملک بھر احتجاجات ہوئے لاکھوں FIR درج کرائے گئے لیکن ہوا کچھ نہیں۔دستور کے دفعات صرف عدالت کی چہار دیواری اور Law College تک محدود ہوکر رہ گئے۔
ان دونوں کو انصاف اس وقت مل سکتا ہے جب ان دونوں کو عدالت میں پیش کیا جائیگا یہ بھی ایک ہلکی سے امید ہے کہ عدالت اس گرفتاری کی صحیح جانچ کریگی اور پھر حتمی فیصلہ سنائیگی۔خدا کرے کہ انہیں انصاف ملے۔
از قلم: رفیق احمد کولاری ہدوی قادری