برادران وطن کا ایک بڑا طبقہ مسلم کمیونٹی کے ساتھ کھڑا ہے
اس وقت ملک میں جو ہورہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ایک خاص نظریہ ہے جسے ملک کے تمام طبقات پر مسلط کرنے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہے یہ وہ نظریہ ہے جو ملک کو ایک مرتبہ پھر غلامی کی زنجیر میں جکڑ سکتا ہے اس کی سد باب کے لئے ہمیں مسلسل برادران وطن کے رابطے میں رہنے ہوں گے ، انہیں بھیانک مستقبل سے آگاہ کرنا ہوگا کہ اگر ملک میں اسی طرح کا ماحول رہا تو آج ہمارے مکانات منہدم کئے جارہے ہیں تو کل چھوٹی سی غلطی کو بنیاد بناکر آپ کے بھی مکانات تباہ کئے جاسکتے ہیں چونکہ ظالم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ ہمیشہ ظلم میں یقین رکھتا ہے ، اس کی حکومت انسانی خون کو پانی بناکر بنائی جاتی ہے ، وہ نعشوں پر اپنی حکومتی بنیاد مظبوط کرتے ہیں ، ایسی حکومتی نظام کاحصہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن وہ بڑی خوبصورتی سے مذہب کی آڑ میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کھیل رہے ہوتے ہیں ۔ آج کیا ہورہا ہے یہی نا کہ ایک کمیونٹی کے گنے چنے لوگ جو خود کو ہندوت کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرنے پر مصر ہے اسے ملک کے لئے اچھی نوید نہیں کہی جاسکتی ہے اس پالیسی کی جتنی مذمت کی جاۓ کم ہے ۔
یوپی ملک کی ایک بڑی ریاست ہے جہاں تمام مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں لیکن وہاں کی حکومت ایک ہی قسم کی غلطی پر ایک کمیونٹی کا آشیانہ بلڈوژر سے تباہ و برباد کردیتی ہے تو دوسری طرف اسی غلطی پر دوسررے کمیونٹی پر مقدمہ بھی درج نہیں کیاجاتا ہے یہ دو رخی پالیسی ملک کے جمہوری آئین کو کھوکھلا کررہی ہے اس لئے بین المذاہب ایک دوسرے سے اچھے تعلقات بہت ضروری ہے تاکہ سیاسی نیتاؤں کی طرف سے اسلام ، مسلمان ، مساجد ، مدارس اور مسلم تنظیموں کے تعلق سے جو زہر برادران وطن کو پلائی جاتی رہی ہے اس کا تریاق ممکن ہو ۔ آپ اخبار ، شوسل میڈیا کا مطالعہ کریں تو بخوبی معلوم ہوجاۓ گا کہ براداران وطن کا ایک بڑا طبقہ پیغمبر اعظم حضرت محمد صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام امن کے معترف ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جس کسی نے بھی پیغمر اعظم علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی ہے اس کی ہستی ہمیشہ کے لئے معدوم ہوگئی ، روۓ زمین پر اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔
مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
ہمارے ان علماء کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے جو آۓ دن ٹیلی ویژن پر ڈیبیٹ میں شامل ہوکر اسلام کی بنیادی اصول کی دھجیاں اڑانے میں لگے ہیں بعض وقت غیروں کی طرف سے ایسی باتیں بھی پوچھی جاتی ہیں جن کا ان کے پاس قرآنی یا منطقی جواب نہیں ہوتا پھر اپنی جہالت پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ حضرات بھی جو مسلمانوں کی طرف سے خود ساختہ ترجمان بن کر ڈیبیٹ کررہے ہوتے ہیں وہ چیخنے چلانے ، بے سروپا کی باتیں کرنے لگتے ہیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کی سخت بدنامی ہوتی ہے ۔ اسلام ہمیشہ تبلیغی کوششوں ، حسن کلام ، آفاقی تعلیمات کے ذریعہ ہی فروغ پاتا آرہا ہے ۔
اس وقت ملک کی جو حالت ہے اس پراگندہ ماحول میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی سخت ضرورت ہے اوریہ کام جو علماۓ ملت اسلامیہ ہیں ان کے سروں پر ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے افراد تک اسلام کو کس نوعیت سے پیش کرتے ہیں یہ بہت اہم ہے ، کسی جرم پر سزا کا اختیار حاکم وقت کا کام ہے ناگوار باتوں پراحتجاج ہمارا جمہوری حق ہے مگر نعرہ تکبیر کے ساتھ ہاتھوں میں پتھر ، راستوں کے کنارے کھڑی گاڑیوں پر حملہ ، آگ زنی ، سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا یہ اہل اسلام کا شعار نہیں رہاہے ۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو ہر ایک کے ساتھ مساوات کا درس دیتا ہے یہی وقت ہے کہ ہم ان اہم پیغامات کو عام کرکے دوسروں کے لئے بھی اسلام میں داخلے کو یقینی بنائیں ! دشمنوں کو لئے بھی ہدایت کی دعائیں کرنا یہ ہمارے نبی پاک صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا خاصہ رہاہے ہم انہیں کے لاۓ ہوۓ دین برحق کا داعی ہیں اس کا خیال بہرحال ہمیں رکھنا ہوگا جبھی ہم اسلام کا ایک اچھا مبلغ و داعی کہلانے کا مستحق ہیں ۔