کیا بِہار پھر وعدوں کے جال میں پھنسے گا؟

جمہوری نظام میں انتخابات کسی بھی ریاست یا ملک کی سیاسی نبض کی علامت ہوتے ہیں۔ انتخابات نہ صرف اقتدار کی تبدیلی کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ عوام کے شعور، ان کے مسائل، ترجیحات اور سیاسی بصیرت کا بھی امتحان ہوتے ہیں۔ ہر الیکشن کے ساتھ ایک نئی امید جنم لیتی ہے، ایک نیا عزم ابھرتا ہے اور سیاسی لیڈران ایک بار پھر عوام کو خواب دکھانے، وعدے کرنے اور یقین دہانیاں کرانے میدان میں اتر آتے ہیں۔ ہندوستان کی سیاست بھی ان دنوں اسی دوراہے پر کھڑی ہے جہاں الفاظ کے تیر، الزامات کے نشتر، وعدوں کی بارش اور دعووں کی گھن گرج ہر سو سنائی دے رہی ہے۔ اب جبکہ بہار اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم اپنے عروج پر ہے۔ 243 رکنی اسمبلی کے پہلے مرحلے کی رائے دہی کا وقت قریب آ چکا ہے۔ 6 نومبر کو ووٹنگ ہونی ہے اور ریاست کا سیاسی درجہ حرارت روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ سڑکوں پر جلوسوں کی گونج، گاؤں گاؤں پوسٹروں کی بہار، چوراہوں پر تقریریں اور ٹی وی اسکرینوں پر مباحثوں کی دھوم، یہ سب اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ بہار ایک بار پھر سیاسی تغیر و تبدل کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ ریاست میں اس وقت انتخابی جوش و خروش اپنے نقطہ عروج پر ہے۔ حکمراں این ڈی اے (NDA) اتحاد اور اپوزیشن کے مہا گٹھ بندھن کے درمیان سخت مقابلہ آرائی متوقع ہے۔ دونوں طرف کے قائدین عوام کو لبھانے کے لیے دلکش وعدوں، پرکشش نعروں اور مقبول نعروں کا سہارا لے رہے ہیں۔ بہار کے سیاسی افق پر جلسوں کی بہار ہے اور ان جلسوں میں لیڈران کی زبانیں بعض اوقات دلیل سے زیادہ الزام تراشی اور لفظی جنگ کا مظہر بن چکی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر راہل گاندھی، نتیش کمار اور تیجسوی یادو تک تمام بڑے لیڈران میدان میں ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی وزراء، وزرائے اعلیٰ اور کارکنان پوری شدت کے ساتھ انتخابی مہم میں مصروف ہیں، وہیں دوسری طرف کانگریس، راجد (RJD)، جے ڈی (ایس) اور دیگر جماعتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ ریاست کے مختلف شہروں اور اضلاع میں روزانہ درجنوں جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور ہر لیڈر اپنی تقریر میں دوسرے پر وار کیے بغیر مائک سے نیچے نہیں اتر رہا۔

 تازہ انتخابی جائزوں کے مطابق مہا گٹھ بندھن کو ہلکی برتری حاصل بتائی جا رہی ہے جس نے حکمراں اتحاد کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھارتیہ جنتا پارٹی اور نتیش کمار اپنی تشہیری مہم میں پوری قوت صرف کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے حال ہی میں چھپرا کے ایک بڑے جلسے میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنا میرا عزم ہے، مودی اور نتیش ہی بہار کو ترقی کی راہ پر لے جائیں گے۔ مگر ساتھ ہی انہوں نے اپنی تقریر میں ایک بار پھر اپوزیشن پر سخت حملے کیے اور فرقہ وارانہ موضوعات کو چھیڑا۔ اپنے خطاب میں وزیر اعظم مودی نے ایودھیا، رام مندر اور دراندازی جیسے حساس موضوعات کو شامل کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن والے ایودھیا نہیں جاتے کیونکہ ان کا ووٹ بینک ناراض ہو جائے گا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے جنگل راج کا تذکرہ کرتے ہوئے لالو رابڑی کے دور حکومت پر تنقید کی اور عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی کہ بہار کو دو بارہ اس دور میں جانے نہ دیا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں نتیش۔ بی جے پی کی حکومت اپنی کارکردگی کے ایسے نقوش چھوڑنے میں ناکام رہی ہے جن پر وہ فخر کے ساتھ ووٹ مانگ سکیں۔ ترقی کے جتنے وعدے کیے گئے، بیشتر ادھورے رہ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب فرقہ وارانہ جذبات اور ماضی کے خوف کو انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

 دوسری جانب اپوزیشن مہا گٹھ بندھن بھی پوری توانائی سے جوابی حملے کر رہا ہے۔ راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، تیجسوی یادو اور دیگر قائدین بہار حکومت کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے نالندہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نتیش کمار کی حکومت دہلی اور ناگپور کے ریموٹ سے چل رہی ہے، بہار کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ انہوں نے تعلیم اور صحت کے شعبے میں پھیلی بدعنوانی کو ہدفِ تنقید بنایا اور کہا کہ “ملک میں دو ہندوستان بنائے جا رہے ہیں۔ ایک امیروں کے لیے، دوسرا غریبوں کے لیے۔ اسی طرح تیجسوی یادو نے وزیر اعلیٰ پر الزام لگایا کہ انہوں نے مکھیہ منتری انتی بیٹی یوجنا کے نام پر لاکھوں خواتین میں نقد رقم تقسیم کی جو دراصل ووٹ کے عوض نوٹ کا کھیل ہے۔ اپوزیشن کی یہ جارحانہ مہم بہار کے سیاسی منظرنامے کو مزید گرما رہی ہے۔ ادھر اسد الدین اویسی، چندر شیکھر آزاد اور پرشانت کشور جیسے رہنما بھی میدان میں ہیں جو چھوٹی مگر اثرانداز جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کے جلسے اگرچہ بڑے نہیں، مگر نوجوان طبقہ اور اقلیتوں میں ان کے پیغام کو توجہ مل رہی ہے۔ فی الحال بہار کی سرزمین پر سیاسی فضا میں تیزی سے اشتعال بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف اقتدار بچانے کی تگ و دو ہے تو دوسری جانب عوامی مسائل کو لے کر ناراضگی۔ جلسوں میں ترقی کی بات کم، مخالفین پر حملے زیادہ ہو رہے ہیں۔ بیانات میں شائستگی کی جگہ طنز، وعدوں کی جگہ طعن اور سوالوں کی جگہ الزامات نے لے لی ہے۔ اب فیصلہ بہار کے عوام کو کرنا ہے — کہ وہ پھر ایک بار وعدوں اور نعروں کے فریب میں آتے ہیں یا اس بار اپنے حقیقی مسائل کو بنیاد بنا کر ووٹ دیتے ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار، بدعنوانی، سیلاب اور ہجرت جیسے دیرینہ مسائل اب بھی جوں کے توں ہیں۔ ریاست کو اب ایسے نمائندوں کی ضرورت ہے جو محض تقریروں سے نہیں، بلکہ عملی اقدامات سے عوام کے اعتماد پر پورا اتریں۔ بہار کے رائے دہندگان کے لیے یہ انتخاب ایک امتحان بھی ہے اور ایک موقع بھی امتحان اپنے سیاسی شعور کا، اور موقع اپنی تقدیر بدلنے کا۔ اگر عوام وقتی فائدہ، ذات پات یا مذہبی نعروں کے بجائے عقل و شعور سے فیصلہ کریں، تو ممکن ہے کہ بہار واقعی بہار بن جائے۔

 اب جبکہ انتخابی مہم اپنے آخری موڑ پر پہنچ چکی ہے، سڑکوں پر شور بڑھ گیا ہے، نعروں کی گونج آسمان چھو رہی ہے، لیڈران اپنی تقریروں میں وعدوں اور خوابوں کے ایسے محل تعمیر کر رہے ہیں جن کی بنیاد اکثر حقیقت پر نہیں بلکہ مفاد پر ہوتی ہے۔ لیکن اب فیصلہ بہار کے عوام کے ہاتھ میں ہے۔ وہ عوام جو دہائیوں سے وعدوں، نعروں اور الزامات کے اس کھیل کو دیکھتی آئی ہے۔ آج وقت ہے کہ بہار کا ہر شہری خود سے سوال کرے کہ آخر وہ کب تک سیاسی چکروں میں الجھ کر اپنی ترقی کے سفر کو روکے رکھے گا؟ کب تک وہ ان لیڈروں پر بھروسہ کرے گا جو ہر انتخاب میں صرف چہرہ بدل کر وہی پرانی کہانی سناتے ہیں؟ یہ الیکشن صرف حکومت بنانے کا نہیں بلکہ سوچ بدلنے کا موقع ہے۔ ووٹ کوئی جذباتی ردِعمل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ایک باشعور فیصلہ ہونا چاہیے۔ ذات پات، مذہب، برادری، علاقہ یا وقتی لالچ کی زنجیروں کو توڑ کر ہی بہار آگے بڑھ سکتا ہے۔ ووٹ اس کو دیں جو آپ کے گاؤں کی سڑکوں کو بہتر بنائے، آپ کے بچوں کے اسکولوں میں استاد پہنچائے، آپ کے گھروں تک اسپتالوں کی سہولت پہنچائے اور سب سے بڑھ کر وہ جو وعدے کرنے کے بجائے وعدے نبھانے کا حوصلہ رکھتا ہو۔

  یاد رکھیے! یہ وقت جوش کا نہیں، ہوش کا ہے۔ بہار کے نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ روزگار صرف جلسوں کے نعروں سے نہیں ملتا بلکہ صحیح نمائندہ چننے سے ملتا ہے۔ کسانوں کو سوچنا ہوگا کہ ان کی زمین، ان کی محنت، ان کی فصل کب تک سیاست کے سودے کا حصہ بنتی رہے گی؟ خواتین کو غور کرنا ہوگا کہ ان کی عزت اور ان کے حقوق کے وعدے کب تک کاغذوں تک محدود رہیں گے؟ یہ تمام سوالات وہ آئینہ ہیں جو ہر ووٹر کو پولنگ بوتھ پر جاتے وقت اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ سیاست دان بدل سکتے ہیں، جماعتیں بدل سکتی ہیں، لیکن بہار کی قسمت تبھی بدلے گی جب ووٹ کا معیار بدلے گا۔ ووٹ صرف ایک بٹن دبانے کا عمل نہیں، یہ ایک عہد ہے۔عہد انصاف کا، ترقی کا، ایمانداری کا۔ اگر آپ نے عقل و شعور سے فیصلہ کیا تو بہار کا مستقبل روشن ہوگا۔ اگر آپ نے پھر جذبات میں بہہ کر ووٹ دیا، تو آنے والے پانچ سال پھر انہی وعدوں، انہی بہانوں اور انہی نعروں کے شور میں گزر جائیں گے۔ لہٰذا! بہار کے عوام یہ ثابت کریں کہ وہ صرف ووٹر نہیں باشعور شہری ہیں۔ وہ اپنی تقدیر خود لکھنا جانتے ہیں۔ ووٹ ضمیر سے دیں، مفاد سے نہیں۔ ووٹ ترقی کے لیے دیں، نفرت کے لیے نہیں۔ ووٹ ان کے لیے دیں جو آپ کے بچوں کا مستقبل سنوار سکیں، نہ کہ ان کے لیے جو صرف آپ کے جذبات سے کھیلیں۔ یاد رکھیے، بہار کی مٹی نے تاریخ بدلی ہے، انقلاب پیدا کیے ہیں، بڑے بڑے لیڈران کو جنم دیا ہے۔ آج پھر وہی لمحہ درپیش ہے ایک نئے انقلاب کا مگر اس بار انقلاب ووٹ کے ذریعے لانا ہے۔ لہٰذا! اٹھئے، سوچئے اور ووٹ دیجئے اپنے ضمیر کی آواز پر، اپنی نسلوں کے مستقبل کے لیے، اپنے بہار کے بہتر کل کے لیے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter