تعلیمی شعبوں پر آر یس یس کا ناجائز قبضہ

         ہندوستان جن صبر آزما اور روح فرسا حالات سے دو چار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔آئے دن کچھ نہ کچھ,کہیں نہ کہیں فسادات وواردات کی سنسنی خیز خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔کرونا وبا کی وجہ سے جہاں ہندوستان کا اقتصادی نظام درہم برہم ہو گیا وہیں ایک طرف تعلیم کا بھی کافی نقصان ہوا جس کی تلافی وبھر پائی آج تک ہوئی نہیں۔یہ بات صرف ہوا میں فیرنگ نہیں اپنی ذاتی تجربہ کی روشنی میں سپرد قرطاس کررہا ہوں میں ایک تعلیمی شعبہ سے جڑا ہوں او ر ایسا تعلیمی شعبہ جہاں بیک وقت دونوں تعلیم بڑے نظم ونسق کے ساتھ بچوں کو دی جاتی ہے۔ہمارے یہاں بچے دسویں اور ساتویں جماعت کے بعد پڑھنے کیلئے آتے ہیں جب انکی تعلیمی معیار کی جانچ ہوتی ہے تو انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ یہ بچے پانچویں جماعت کے معیار سے بھی انکا گراف نیچے رہتا ہے جب وجوہات پوچھے جاتے ہیں تو اساتذہ سے لیکر سرپرست تک یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ کرونا بیچ ہیں۔ بچوں کی تعلیمی معیار اور گراف دیکھ کرپھوٹ پھوٹ کر رونا آرہا ہے۔ہمارے صبر وشکیب کی آزمائش کیلئے یہی حادثے کیا کم تھے کہ مودی سرکار نے سرکاری تعلیمی شعبوں پر اپنا ناجائز شکنجہ کستے ہوئے نصابی کتابوں میں کاتبدیلیاں لارہی ہیں۔ہماری ریاست کرناٹک میں نظر ثانی کے نام پر جو ڈرامہ رچا گیا اس کے خلاف ہم نے لکھا بھی تھا۔ اس وقت ین سی ای آر ٹی نے بھی کچھ چپٹرز جس میں مسلم سلطنت اور مسلم حکمرانوں کے بارے میں تھا اپنی نصابی کتابوں سے حذف کردیا۔اسکا بھی ہم اس گزشتہ مضمون میں تجزیہ کیا تھا۔

۴۲ تاریخ بروز جمعہ کو سپریم کورٹ نے گجرات فسادات کے ملزم اس وقت کے ریاستی وزیر اعلی اور اب کے وزیر اعظم مسٹر مودی کو گجرات فسادات قتل عام میں مارے گئے کانگریسی رکن پارلیمان جناب احسان جعفری کے قتل کے کیس میں کلین چٹ دیدی۔ مقتول احسان جعفری کی اہلیہ محترمہ ذکیہ جعفری کی ہمت و استقلال کو ہم سلام کرتے ہیں کہ وہ آج بھی انصاف کیلئے ہر منصف عدالت کے دروازے کھٹکھٹانے کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن ہائے افسوس کہ عدالت عظمی نے ذکیہ جعفری کی درخواست کو قانونی لحاظ سے ناموافق قرار دیتے ہوئے ۴۲ جون کو مسترد کردیا۔ اس حادثے سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت ہی  نہیں بلکہ عدالت کا بھی ریموٹ آر یس یس کے ہاتھ ہے۔

                             برسر مطلب آمدم ریاست کرناٹک کے چند نصابی کتابوں میں ترمیم واضافہ کے بعد اب ین سی ای آر ٹی نے بھی ۲۱ ویں جماعت میں پولیٹکل سائنس کی کتاب میں ۲۰۰۲ گجرات فسادات سے متعلق جو چپٹر تھا وہ بھی نکا ل دیا۔۷۲ فروری ۲۰۰۲ کو ایودھیا سے لوٹنے والی سامبر متی ایکپیریس کے کوچ نمبر S6  میں گودھرا اسٹیشن پر آگ لگایاگیا۔اس حادثے میں تقریبا ۹۵ کارسیوک جان بحق ہوگئے۔اس کی پوری روداد این سی ای آر ٹی نصابی کتاب کی ۹ ویں چپٹر میں تھا اب اس کو نکال دیا گیاہے۔گجرات فسادات کی وجہ ان ایام میں بھاجپائی لیڈر ایل کے اڈوانی کی سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا تھی۔اڈوانی نے اپنی اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعہ ہندوتوائی خفتہ دہشت گرد ی کو بیدار کیا پھر کیا ہوا وہ پورے ملک کے سامنے ہے کراہنے اور چیخنے کی آوازیں جس کی بازگشت آج بھی کانوں میں سنائی دیتی ہیں۔گودھرا کے حادثے کے فورا بعد مودی کی وزات اعلی کے دور حکومت میں گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی جس میں تقریبا ۰۹۷ مسلمان مارے گئے ۰۰۵۲ لوگ بری طرح زخمی ہوئے۔اربوں روپیہ کا مالی نقصان بھی ہوا۔ آج بھی جمہوریت اورسیکولرزم پر یقین رکھنے والوں کو وہ تصویر ذہن میں ابھر کر آتی ہوگی جس میں ایک لا چار وغریب قطب الدین انصاری نامی مسلمان زاروقطار روروکر مدد مانگ رہا تھا۔ اس گجرات فسادات کی پوری المناک داستان کو کتاب سے نکال دیا گیا تاکہ آنے والی نسلوں کو ان ہندوتوائی دہشت گرد ی کی تاریخ معلوم نہ ہو۔ جب سیاسی قائدین نے اس کے بارے میں ای سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر وینش پرساد سکلانی سے پوچھا تو وہ لاعلمی کا اظہار کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ سب مرے چارچ لینے سے پہلے ہوا ہے۔سکلانی کی بحالی ۲۲۰۲ فروری میں ہوئی تھی کہیں نہ کہیں سکلانی کا بھی اس میں ضرو ر ہاتھ ہے۔

                              اک طرف ہندوستان اگنی پتھ اور اگنی ویر یوجنا کی آگ میں جل رہا ہے دوسری طرف یوگی آدیتناتھ یوپی میں اقلیتوں کے گھروں کو بلڈوزر سے تہس نہس کررہے ہیں۔ اگر کوئی ہم سے سوال کریں کہ اس حکومت سے آپ کو کیا ملا تو ہم برجستہ جواب دینگے ناکامی,محرومی, پامالی, اضطراب مسلسل, شکست پیہم, ہزیمت وذلت اور بے روزگاری اور مہنگائی۔ہندوستان کا ہر شہری مایوسی ویاس کی اتھاہ ساگر میں ڈوبتا جارہا ہے۔اور ہماری قوت شکیبائی مشکلات کے پیہم تھپڑوں سے مضمحل ہوتی جارہی ہے اور مایوسیوں کا اندھیرا آنکھوں کے سامنے بڑھتا جارہا ہے۔ملت فروش چاپلوس اور تملق پسند مسٹر مودی نے جمہوری حریت کا وہ سارا خروش دریائے گنگا کی لہروں میں دفن کردیا۔اچھے دن کے نام پر برے دن کا کالا اور دھندلا سایہ پورے بھارت پر منڈلا رہاہے۔کالا دھن باہر آئیگا, ہر ایک کے کھاتے میں ۵۱ لاکھ  روپیے ڈالا جائیگا یہ تمام وعدے نقش بر آب سے زیادہ وقیع ثابت نہیں ہوئے گویا آس پر گھانس اگایا جارہا تھا۔سارا ہندوستان بلا تفریق مذہب وملت لرزہ خیز مظالم کا خوگر بنتا جارہا ہے پیہم فسادات اور خون رستے ہوئے زخموں نے ہماری زندگی کو جن بیتابیوں سے معمور کردیا ہے وہ وقت کا سب سے بڑا ماتم ہے۔ان حالیہ فسادات اور واقعات سے اب یہ حقیقت بالکل برہنہ ہوگئی کہ قومی یکجہتی کی ساری تجاویز ہندو فرقہ پرستوں کی جارحانہ یلغار کے آگے بے معنی ہوکر رہ گئیں۔اب صبر کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹا جارہاہے۔حکمران ہی خونخوار درندے ہوگئے تو پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا نے سے کیا فائدہ یہ ہماری شامت کہیے یا قسمت کہ مسٹر مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بنے ہوئے ہیں!!!!

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter