خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

آج کل مسٹر وزیر اعظم مودی جی مسلمانوں کی تئیں محبت وپیار کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔پسماندہ پسماندہ کہہ کر مسلمانوں کو مزید احساس کمتری کے دلدل میں ڈھکینا چاہتے ہیں یہ کوئی پیار ومحبت نہیں بلکہ,2024 کی الیکشن کی تیاری ہے۔۔ کسی مفکر نے ہم سے چند دن پہلے کہا تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو اس بھارت میں اقلیت نہ سمجھیں کیونکہ اس ملک میں انکی آبادی 2022 کی مردم شماری کے مطابق  189 ملین سے زائد ہے۔یہ آبادی کوئی چھوٹی آبادی نہیں بلکہ ایک ملک بنانے کے لیے کافی ہے۔ دیگر قوموں اور مذاہب کو دیکھیں گے تو اسلام اور مسلمان اکثر ہی نظر آئنگے۔
اس اکثریت کے باوجود مسلمان کئی دہائیوں سے تعلیمی، معاشی، اقتصادی اور تجارتی میدان میں کافی پچھڑے نظر آرہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ خود مسلمان ہی ہیں کہ زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کے بجائے کام کاج اور مزدوری کو اہمیت دیتے ہیں۔ پیسہ تعلیمی اداروں پر خرچ کرنے کے بجائے بیجا جلسے جلوسوں میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ مسلم قوم چاہیے وہ جو بھی مکتب فکر کے ہوں سال میں کئی جلسے کرتے ہیں۔ لیکن ان جلسوں کا کوئی ثمر بار نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔
اس لیے ہم جملہ مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ آپ جلسے جلوسوں کے بدلے ان پیسوں کو تعلیمی مراکز میں خرچ کریں، عمدہ سہولیات فراہم کریں، مذہبی ودینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کا بھی اچھا بندوبست کریں۔ گھریلو اخراجات کم کرکے اپنے بچوں کو پڑھائیں تو ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ مسلمان ہر محاذ پر ترقی کرتے نظر آئیں گے۔ برسرِ مطلب آمدم کہ بھارت کی مسلم آبادی انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے۔ اور دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیتی آبادی ہے۔اتر پردیش میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی(تقریبا4۔38 ملین)ہے۔
اوپر جو بیان ہوا وہ مسلمانوں کی آبادی کی شرح تفصیل ہے لیکن اگر ہم مسلمانوں کی شرح خواندگی کا جائزہ لیں گے تو یہ بات آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہوگی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی آبادی میں تقریباً 42.7% لوگ ان پڑھ ہیں جبکہ 17.48% صرف برائے نام پڑھے لکھے ہیں ۔ 21.18% مسلم بچے صرف پرائمری تک تعلیم حاصل کرپاتے ہیں ۔ صرف %7.44 مسلم بچے ہی سکنڈری کی تعلیم تک پہونچ پاتے ہیں ۔ ٹیکنیکل اور غیر ٹیکنیکل ڈپلومہ میں مسلم بچوں کا تناسب محض 0.19% ہے۔ اعلی تعلیم ( higher studies) میں مسلمانوں کا تناسب صرف 1.728 % ہے۔ 100 میں سے صرف 10 مسلم بچے ہائی اسکول یا اس سے اوپر کی تعلیم تک پہونچ پاتے ہیں ۔ 25% مسلمان بچے جن کی عمر چھ سے چودہ کے درمیان ہے یا تو وہ کبھی اسکول ہی نہیں جا پاتے یا اسکول درمیان میں ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔ جبکہ مسلمانوں کے مقابلے میں برادران وطن کی شرح خواندگی کہیں بہتر ہے جین  برادری کی شرح خواندگی 86.4 % ہے.جن میں 25% گریجویٹ ہیں اور اسمیں خواتین کا تناسب 44% ہے. عیسائیوں کی شرح خواندگی 74.3 % ہے. بدھ مذہب کے ماننے والوں کی شرح خواندگی 71.8%ہے.سکھ مت کے ماننے والوں کی شرح خواندگی 67.5 % ہے اور ہندستان کی سب سے بڑی آبادی یعنی ہندؤں کی شرح خواندگی 63.6% ہے. جبکہ مسلمانوں کی شرح خواندگی سب سے نیچے یعنی 57.3 % ہے۔ اگر ہم مسابقتی امتحان (competitive exam) کا جائزہ لیں گے تو اس کا گراف بھی کافی گرا ہوا نظر آئے گا تو آنکھ کھول کر اسے پڑھئے اور کف افسوس ملتے رہئے۔ انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروسز IAS 3%.انڈین فارن سروسز IFS 1.8%. انڈین پولس سروسز میں IPS 4%. انڈین ریلوے میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف% 4.5 فیصد  ہے اسمیں سے بھی 98.7% نچلی سطح low level  کی نوکریاں کرتے ہیں ۔ جب کہ پولس کانسٹبل کی نوکریوں میں مسلمان صرف 6% ہیں ۔ صحت سے متعلق نوکریوں میں صرف 4.6 % ہیں ۔ ٹرانسپورٹ میں مسلم نوکریوں کا تناسب صرف 6.5 ہے. اسلامی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے  مسلم بچوں کا تناسب کل آبادی کا صرف 4% ہے۔ اب اگر ہم سرکاری ملازمتوں کا جائزہ لیں گے تو اس کی شرح بھی کافی کم نظر آئے گی۔اس کی اولین وجہ تعلیمی پسماندگی ہے لہذا مسلمان تعلیم میں پچھڑے ہیں لہٰذا سرکاری نوکریوں میں بھی وہ جگہ نہیں بنا پاتے ہیں۔2015 میں ریاستی حکومت کی ملازمتوں میں مسلمانوں کی شرکت 5.47 فیصد رہی۔جب کہ-11 2010 میں مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں مسلمانوں کی شرکت 10 فیصد رہی۔یہ سب اکثر پرانے سروے رپورٹ کے مطابق ہے اگر جدید سروے کے مطابق دیکھا جائیں تو یہ گراف اور نیچے اتر گیا ہے۔ خدا ہماری حالت پر رحم کرے۔ یہاں پر مجھے قرآن کی وہ آفاقی حقیقت یاد آرہی ہے جس کو قرآن نے اس طرح بیان کیا۔ کہ بےشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خوداپنی حالت نہ بدل دیں (سورۃ الرعد:11 ) مولانا ظفر علی خان اسی کو شعر کے سانچے میں ڈھال کر یوں کہا 


خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا


مذکورہ بالا تمام باتیں تحقیق شدہ ہیں نہ کہ ہوائی فائرنگ۔ اس لیے ہم جملہ مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ہم اپنی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے حل تلاش کریں اور یہ تلخ حقیقت بھی برداشت کیجئے مسلمانوں کے ہر مکتب فکر میں کہیں نہ کہیں اسراف وتبذیر ہوتا ہے۔ جلسوں، جلوسوں، مشاعروں، ملن پروگرامز، اعراس، مزارات، چارد گاگر، نذر ونیاز، مشائخ کو نذرانے کے طور پر موٹی موٹی رقمیں ،حاجت سے زیادہ گھریلو اخراجات ، شادی بیاہوں میں رنگ برنگے پکوانوں اور دیگر تقریبات میں  بے تحاشہ پیسوں کو پانی کی طرح بہاجاتا ہے۔ یہ سب کم کریں یا بالکل ان اب سے اجتناب کرکے وہ پیسہ تعلیمی مراکز، اسکولز، کالجز، یونیورسٹیاں قائم کرنے میں خرچ کریں۔ تو ضرور یہ تعلیمی پسماندگی دور ہوگی اور مسلمان ہر میدان میں کامیاب وسرخرو نظر آئے گا۔ پھر کسی حکومت یا حکمران کا گلہ وشکوہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑےگی۔ از سر نو ہمیں اقرأ سے شروع کرنا ہوگا۔ تعلیم ہماری پہچان اور مسلم قوم کی ترقی کا ضامن ہے۔ لہذا ہم جملہ مسلمان تعلیم کے ہتھیار سے لیس ہوکر ان نازک حالات سے نبردآزما ہوں تو یہ سنگین حالات ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔ رب قدیر سے دعا ہے کہ مولی ہمیں پڑھنے اور پڑھانے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter