بابری نامہ

بابری مسجد 1528عیسوی میں اجودھیا(موجودہ ایودھیا) میں تعمیر ہوئی۔بابر کے کمانڈر میر باقی نے مسجد تعمیر کرائی اور اسے اپنے بادشاہ بابر کے نام سے موسوم کیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیر الدین محمد بابر نے ابراہیم لودی اور رانا سانگا کو کراری شکست دے کر سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی تھی۔

بابر کی عمر نے زیادہ وفا نہیں کی، سلطنت کی داغ بیل ڈالنے کے چوتھے سال 1530 میں بابر کا انتقال ہوگیا۔یعنی بھارت میں بابر نے قریب چار سال ہی گزارے۔ان چار سالوں میں بابر نے چار بڑی جنگیں لڑیں جن میں جنگ پانی پت، جنگ خانوا، جنگ چندیری اور جنگ گھاگھرا شامل ہیں، یعنی بابر کے چار سالہ قیام ہند کا اکثر وقت جنگوں ہی میں گزرا، لیکن بابر کی جنگی مہارت نے چار سال ہی میں اسے ایک بڑے رقبے کا بادشاہ بنا دیا تھا۔

سن 1530 میں بابر کا محض 48 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا، لیکن کسی ہندو راجا نے بھی یہ الزام نہیں لگایا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی ہے۔اس زمانے کے کسی ماخذ ومصدر میں بھی اس چیز کا تذکرہ نہیں ہے۔

بابر کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں تخت نشیں ہوا۔لیکن دس سال بعد ہی شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو ہرا کر سلطنت پر قبضہ جما لیا، اس طرح تقریباً پانچ سال تک مغل سلطنت ہندوستان سے غائب رہی، اگر بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہوتی تو ان پانچ سالوں میں یہ بات ضرور سامنے آتی کیوں کہ مغل راج ختم ہوچکا تھا اور اقتدار مغل حکومت کے دشمنوں کے پاس تھا مگر ان پانچ سالوں میں بھی ایسی کوئی سُن گُن ہندو سماج میں نہیں تھی۔

ابتدائی مشکلات اور آزمائشوں سے جوجھنے کے باوجود جلال الدین محمد اکبر نے سلطنت مغلیہ کو طاقت ور بنایا۔سر اٹھانے والے مقامی راجاؤں کو بری طرح شکست دے کر اپنا دبدبہ قائم کیا۔اکبر ہی وہ بادشاہ بنا جس نے باپ دادا کے خلاف جاکر مذہب سے زیادہ سلطنت کو ترجیح دی جس کی بنا پر ہندو راجاؤں کی بیٹیوں سے بغیر قبول اسلام شادیوں کا چلن شروع کیا۔

اکبر کی دین بیزاری اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب اس نے مذہب اسلام کے مقابلے ایک نیا دین، دین الہی جاری کیا۔اپنی بیوی جودھا بائی کی محبت میں گھر کے اندر مندر بنایا۔ہر صبح جھروکہ درشن کے نام پر بت پرستی شروع کی۔یہی وہ وقت تھا جب اکبر کے دربار میں ہندو راجاؤں، پنڈتوں کو رسوخ اور اونچا مقام ملا۔دربار اکبری کے نو رتنوں میں چار لوگ ہندو تھے، جن میں راجا ٹوڈرمل، راجا مان سنگھ، راجا بیربل اور تنو مشرا عرف تان سین۔ان لوگوں کو دربار اکبری میں نمایاں ترین مقام حاصل تھا اگر واقعی بابری مسجد مندر توڑ کر بنی ہوتی تو ہندو راجاؤں کے لیے اکبر جیسے بد دین سے اپنی بات رکھنا اور مندر کا مطالبہ کرنا سب سے آسان تھا لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایک بھی راجا یا پنڈت نے اس موضوع پر اکبر سے کبھی کوئی شکایت کی نہ مطالبہ کیا، یہاں تک کہ کبھی کسی نے اس بات کا ذکر تک بھی نہیں کیا کہ بابری مسجد مندر کی جگہ بنی ہے، سمجھ نہیں آتا کہ وہ سارے ہندو راجا اور گیانی پنڈت جاہل تھے یا حد سے زیادہ ڈرپوک کہ اکبر جیسے دین بیزار سے بھی یہ بات نہ کر سکے؟

بادشاہ اکبر سے جہاں گیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے تک سلطنت مغلیہ پوری آن بان اور دبدبے کے ساتھ چلتی رہی۔حضرت اورنگ زیب کے انتقال (1707) کے بعد مغل اقتدار کمزور ہوتا گیا یہاں تک کہ 1803 میں ہندوستان پر انگریز قابض ہوگیے، بس علامتی طور پر بادشاہت باقی رہی۔آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر(1862ء) کی زندگی ہی میں 1857 میں مغل سلطنت کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔اس خاتمے تک بھی کسی ایک ہندو مؤرخ نے بابری مسجد پر کوئی دعویٰ کیا نہ مندر ہونے کا کوئی قضیہ سامنے آیا۔حالانکہ اس وقت تک بابری مسجد کو بنے ہوئے تقریباً 334 سال ہوچکے تھے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter