پس پرد ہ صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں ! وقت سے پہلے آنکھیں کھول لیجیے ، ورنہ علم آنے والی نسلوں تک منتقل نہیں ہوپائے گا                                                    

 کسی زمانے میں برسوں کی محنت شاقہ کے بعد اہل علم کسی کاتب کی خدمات حاصل کرکے اپنے حاصل مطالعہ افکار وخیالات قلم بند کرواتے تھے ، پھر طلبہ اور علوم وفنون کے شائقین انھیں اپنے قلم سے حرف بہ حرف نقل کرتے ۔ اس طرح قلمی صلاحیتیں ایک جگہ سے دوسرے علاقوں تک منتقل ہوتی رہتیں ۔ پھر وہ زمانہ بھی آیا ، جب بڑے بڑے پریس معرض وجود میں آگئے اور کئی کئی سو صفحات پر مشتمل کتابوں کی نقلیں گھنٹوں میں تیار ہونے لگیں ۔اور اب کچھ عرصہ سے انٹرنیٹ کے ذریعہ سیکنڈوں میں ہزاروں صفحات دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونےتک بہ آسانی پہنچائے جارہے ہیں ۔ 

           اس میں شک نہیں کہ انٹرنیٹ کے توسط سے ترسیل کتب کی سہولت نے علوم وفنون کے پیاسوں کی سیرابی کے لیے قابل تحسین مواقع پیدا کردیے ہیں ۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ افادہ واستفادہ کے پہلو سے مغربی دنیا کے لیے یہ سرتاسر سود مند توہے ، لیکن بر صغیر پاک وہند میں جو سلوک ہم اردو کتابوں کے ساتھ کررہے ہیں ، اسے دیکھتے ہوئے مستقبل کے پس منظرمیں اس کے سودمند ہونے سے کہیں زیادہ نقصان دہ ثابت ہونے کے آثار صاف دکھائی دے رہے ہیں ۔

           آگے بڑھنے سے پہلے کتابوں کے ساتھ اہل مغرب کے سلوک پر بات کرلیتے ہیں ۔اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ مغربی دنیا میں انٹرنیٹ کی سہولت برصغیر پاک وہند سے پندرہ بیس سالوں پیشتر ہی پروان چڑھ چکی تھی، جو اب مزید وسعت اختیار کرگئی ہے۔گھر گھر میں ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کے کنکشن موجود ہیں اور لوگ کثرت سے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کتابیں پڑھتے اور مضامین لکھتے ہیں۔

مغربی اسکولوں ، یونیورسٹیوں اور دانش گاہوں میں بھی طلبہ وطالبات کثر ت سے نیٹ پر کتابیں پڑھتے ہیں۔ لیکن یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ انٹر نیٹ کے کثرت سے استعمال کے شانہ بشانہ کتابوں کی اشاعت وطباعت بھی جاری ہے ۔ اس پر دلیل کے لیے دور جانے کی ضرورت نہیں ، بس’ بارنس اینڈ نوبل‘ کے نام سے امریکہ میں ایک کتب فروش کمپنی پر نگاہ ڈالیے ، جس کی شاخیں پورے ملک میں قائم ہیں۔خیال رہے کہ یہ اسٹور بہت بڑے رقبہ پر قائم ہوتے ہیں ۔ میرے گھر سے دوتین میل کی دوری پر جو بارنس اینڈ نوبل اسٹورہے ، وہ تقریبا پچاس ہزار اسکوائر فٹ کی عمارت میں ہے ، جہاں مختلف علوم وفنون کی ہزاروں کتابیں فروخت کے لیے دستیاب ہیں ۔کتب فروش اسٹوروں کے ساتھ ساتھ ، مغرب میں لائبریریوں کے قیام کا رواج بھی بہت ہے ۔ یہاں ہر چھوٹے بڑے اسکولوں کی ذاتی لائبریری ہوتی ہے ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بڑی بڑی لائبریریاں قائم ہیں ، اور پھر ضلعی سطح پر آبادی کے پیش نظرجگہ جگہ عوامی لائبریریاں بنائی جاتی ہیں ۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ استعمال شدہ کتابوں کی فروخت کے لیے بھی ’ہالف پرائز بک اسٹور‘ نامی کمپنی کی شاخیں کثرت سے دکھائی دیتی ہیں ۔ اور پھر اہل مغرب کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ باقاعدگی سے ہر ماہ اپنی پسند کی کتابیں خریدتے ہیں اور اپنے گھروں میں چھوٹی سے لائبریری بنائے رکھتے ہیں، حتی کہ گھر کے بچوں کی خواب گاہوں میں بھی ان کے پسند کی کتابوں پر مشتمل ایک الماری ضرور ہوتی ہے ۔ 

         ا ب آئیے ، ذرا ہندوستان میں طباعت واشاعت کا عظیم مرکز دہلی چلتے ہیں ۔ یہاں بڑے بڑے کتب خانوں کی حالت نہایت ہی دگرگوں ہوتی جارہی ہے ، اور سب سے زیادہ مفلسی تودینی کتب خانوں پر چھائی ہوئی ہے ۔ بیس پچیس سالوں سے اشاعتی مراکز سے منسلک احباب نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف کی سہولت نے کتابوں کی مانگ گھٹا کر پانچ دس فیصدی تک کردی ہے ۔ اب لوگ صرف قرآن کریم اور دعاؤں کی کتابیں حاصل کرتے ہیں ، جب کہ دوسری کتابوں کے لیے پی ڈی ایف کی مانگ میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے ۔ ظاہرہے کہ جب اشاعتی مرکز میں طباعت کرنے والے اداروں کی حالت یہ ہے ، توسارے ملک میں پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے مکتبوں کی حالت زار کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے ۔ گذشتہ پانچ سالوں سے نئے مکتبوں کے کھلنے کی روایت توشاذ ونادر آتی ہے ، لیکن پرانے مکتبوں کے بند ہونے کی اطلاعات مسلسل موصول ہورہی ہیں ۔بڑی بڑی عوامی لائبریریاں سونی پڑی ہیں اور اخبارات وجرائد خریدنے والے کم ہوتے جارہے ہیں ۔ اس لیے موجودہ مخدوش حالات کے پیش نظر ایسا محسوس ہورہاہے کہ چند سالوں کے اندر اندر کتابوں کی طباعت واشاعت اور خرید وفروخت کی دنیا ناقابل یقین حد تک سمٹ جائے گی۔

           جانتے ہیں پی ڈی ایف کا سب سے بڑا نقصان کیا ہے ؟ میں اپنے تجربات کے آئینے میں کہہ سکتاہوں کہ بہت ساری کتابیں میں نے ڈاؤن لوڈ کررکھی ہیں ، لیکن چونکہ وہ ہمہ وقت نگاہوں کےسامنے نہیں ہوتیں ، اس لیے بوقت ضرورت یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کون کون سا ذخیرہ ہمارے لیپ ٹاپ میں موجود ہے ۔جس کے بھیانک نتائج یہ ہیں کہ وہ علمی سرمایہ جو پی ڈی ایف کی صورت میں ہمارے پاس ہے ، اس سے عام طورپر افادہ واستفادہ ہوہی نہیں پاتا، جب کہ وہ کتابیں جو لائبریری کی زینت ہیں ، ان سے فوری طور پر گاہے بگاہے رابطہ ہوہی جاتاہے ۔ساتھ ہی ساتھ احباب بیان کرتے ہیں کہ فلاں کتاب میں نے ڈاؤن لوڈ کی تھی، لیکن دوسری مطلوبہ کتاب ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے زیادہ حجم کی ضرورت تھی ، اس لیے پرانی ڈاؤن لوڈ شدہ کتاب کوڈیلیٹ کرنا پڑا۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ علمی سرمایہ، جو صرف پی ڈی ایف کی صورت میں ہے ، اس کے ضائع ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔ 

           اور پھر پی ڈی ایف کا ایک دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ جو کتابیں صرف پی ڈی ایف پر ہیں ، انھیں عام طورپر حرف بہ حرف نہیں ، بلکہ سرسری طورپر بوقت ضرور ت پڑھ لیا جاتاہے ۔ یعنی کتاب کے صرف اُس حصے پر نگاہ ٹکتی ہے ، جو زیر بحث موضوع سے متعلق ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے علمی سرمایہ کے ساتھ انصاف نہیں ، بلکہ صریح زیادتی سے تعبیر کرنا چاہیے ۔

           صاحبو! بہر کیف ، آپ نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ اہل مغرب نے انٹرنیٹ سے فائدہ ضرور اٹھایا ہے ، لیکن انھوں نے طبع شدہ کتابوں سے بھی اپنے تعلقات برقرار رکھے ہیں ۔ خیال رہے کہ میں کتابوں کی پی ڈی ایف کے خلاف نہیں ہوں ، لیکن مدعائے سخن صرف اس قدر ہے کہ قیمتی علمی سرمایہ کوضائع ہونے سے بچانے کے لیے اسے کتابی صورت میں ہونا نہایت ہی ضروری ہے ۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم کتابیں بھی خریدیں اور بوقت ضرورت پی ڈی ایف سے بھی استفادہ کریں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ کتابیں ہماری ذاتی لائبریری اورہماری خواب گاہوں میں رہیں اور پی ڈی ایف لیپ ٹاپ پر، تاکہ دوران سفر یا مسجد ومدرسہ اور جائے عمل میں بوقت ضرورت پی ڈی ایف کی مدد سے فائدہ اٹھایا جاسکے ۔ اس طرح علمی سرمایہ ضائع ہونے سے بھی محفوظ رہے گااور اس سے استفادہ بھی کثرت سے ہوسکے گا۔

   ۲۴؍فروری ۲۰۲۱ء؁

 ghulamzarquani@yahoo.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter