بابا فرید گنج شکرکی ہمہ جہت شخصیت
ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ شیخ الاسلام فریدالدین قدس سرہٗ یکتائےروزگارہونے کے باوجود اِنتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔کھانا بھی معمولی کھاتے تھے۔نہ اُنھیں تخت وتاج کی خواہش تھی اورنہ شہرت وعظمت کی طلب۔البتہ! عوام و خواص کی رشدوہدایت کےحریص ضرورتھے۔ یہی وجہ تھی کہ دہلی جیساشہرت یافتہ اور مرکزی شہر کو خیربادکہا اور اَجودھن ( پاک پٹن، پاکستان) جاپہنچے۔
نام ونسب اورپیدائش:آپ کا اصل نام’’ مسعود‘‘اورلقب’’ فرید الدین‘‘ تھا۔ والدکانام قاصی جلال الدین اوروالدہ کا نام قرسم خاتون ہے۔آپ کا سلسلہ نسب بعض روایتوں کے مطابق امیرالمومنین حضرت عُمربن خطاب رضی اللہ عنہ تک پہنچتاہے۔آپ ۵۸۹ھ مطابق۱۱۷۳ءکو ملتان کے ایک قصبے کھوتووال میں پیداہوئے۔چوںکہ آپ ابھی پانچ سال کے تھےکہ والد کا انتقال ہوگیااس لیے آپ کی تعلیم وتربیت کی تمام تر ذمہ داری والدہ ماجدہ نے نبھائی۔
والدہ ماجدہ: ماں باپ کی صلاح وتقویٰ کا اولاد پراچھا اثر پڑتا ہے،پھر فرمایاکہ شیخ کبیر (بابافرید) کی والدہ بہت بزرگ تھیں۔ ایک دفعہ کوئی چوراُن کے گھر میں آیا۔ سب سورہے تھے ،شیخ کی والدہ بیدار اور مشغول بحق تھیں۔جب چور اندرآیا تو اَندھا ہوگیااور باہر جانے کے قابل نہ رہا۔پکارکر بولاکہ اس گھر میں اگر کوئی مرد ہے تو وہ میرا باپ اور بھائی ہے اور اگر عورت ہے تو وہ میری ماں اور بہن ہے۔ جوبھی ہومیں سمجھتاہوں کہ اس کی ہیبت نے مجھے اندھاکردیاہے،اس کو چاہیے کہ میرے لیے دعا کرے تاکہ مجھے پھر بینائی مل جائے۔میں توبہ کرتاہوں کہ آئندہ ساری عمرچوری نہیں کروںگا۔شیخ کی والدہ نے دعا فرمائی، اس کی بینائی واپس آگئی اور وہ چلاگیا۔ جب دن نکلا تو شیخ کی والدہ نے یہ واقعہ کسی کو نہیں بتایا،کچھ دیربعد ایک شخص کو چھاچھ کاگھڑا سرپررکھے گھر والوں کو ساتھ لیے دیکھا۔اُس سے پوچھاگیا کہ توکون ہے؟ وہ بولاکہ میں رات کو اِس گھر میں چوری کرنے آیاتھا۔ایک بزرگ خاتون یہاں بیدارتھیں میں اُن کی ہیبت سے اندھاہوگیا۔پھر اُنھوںنے میرے لیے دعا فرمائی اور مجھے دوبارہ آنکھیں مل گئیں۔میں نے عہد کیا تھاکہ اگر میری آنکھیں واپس آگئیں تو میں چوری سے توبہ کرلوںگا۔ اب میں خود بھی آیاہوں اور گھروالوں کو بھی لایا ہوں کہ مسلمان ہوجاؤں اور چوری سے مکمل طورپر توبہ کرلوں۔ غرض کہ شیخ کی والدماجدہ کی برکت سے سب مسلمان ہوگئےاور چوری سے توبہ کرلی۔ (فوائد الفواد،جلد:۴،مجلس:۵)
اوراق ِزندگی:بابافریدکا کام کچھ اور ہی تھا۔اُنھوںنے مخلوق کو چھوڑکر جنگل بیابان اختیارکیا۔ اجودھن میں سکونت اختیار کی اور فقیروں کی روٹی اور جو کچھ اُس علاقے میں پیداہوتا ہے، جیسے پیلووغیرہ اس پر قناعت کی،لیکن اس کے باوجود مخلوق کے آنے جانےکی کوئی حدنہ تھی۔خانقاہ کا دروازہ آدھی رات تک یا کچھ زیادہ کھلارہتا،اور روپیہ اور کھانااور اللہ کے کرم سے جو نعمت بھی موجودہوتی اُس میں سے آنے جانے والوں کو حصہ ملتارہتا۔کوئی شخص اُن کی خدمت میں ایسا نہ آتا جسے کچھ نہ کچھ عطانہ کیاجاتا ہو۔عجیب قوت اور عجیب زندگانی تھی۔ بنی آدم میں سے کسی کو میسر نہیں ہوسکتی ۔اگر کبھی کوئی شخص ایسا آتا جو اس سے پہلے کبھی نہ آیاتھا تو دونوں کے ساتھ یکساں بات چیت ہوتی اور توجہ اور مہربانی دونوں پر برابر کی جاتی۔اِس کے بعد ارشادہواکہ میں نے بدرالدین اسحاق سے سناہے،وہ فرماتے تھے کہ میں محرم(رازدار)خادم تھا۔ جو بات بھی ہوتی مجھ سے فرماتے اور جس کام کے لیے بھی مجھے متعین فرماتے،تو سب کے سامنے اور پیچھے ایک ہی بات فرماتے۔کبھی بھی تخلیے میں مجھ سے کوئی ایسی بات نہیں فرمائی اور کوئی ایسا کام نہیں بتایاکہ جسے سب کے سامنے جوںکا توں مجھ سے نہ کہاہو،گویا ظاہر وباطن میں اُن کی ایک روش تھی اور یہ بات عجائب روزگارمیں سے ہے۔(جلد:،۲مجلس:۲۵)
مرشدکافیضان:بابافرید، دوہفتے کے بعد اَپنے مرشد شیخ قطب الدین نوراللہ مرقدہٗ کی خدمت میں جایا کرتے تھے۔اس کے برخلاف شیخ بدرالدین غزنوی اور دوسرے عزیز برابرحاضر رہتے تھے۔پھر فرمایاکہ جب شیخ قطب الدین کی رحلت کا وقت قریب آیاتو ایک بزرگ کانام لیاجو شیخ قطب الدین کی پائینتی آرام فرماہیں اور جن کی یہ تمنا تھی کہ شیخ کے بعد اُن کی جگہ پر بیٹھیں۔ شیخ بدرالدین غزنوی کو بھی یہی تمناتھی مگر جس سماع میں شیخ قطب الدین انتقال فرمانے والے تھے، خوداِرشادفرمایاکہ یہ میرا جامہ اور جائےنماز،عصا اور لکڑی کی کھڑاویں شیخ فریدالدین کو دِےدیں۔غرض کہ جس رات شیخ قطب الدین کا انتقال ہواتھا،شیخ فریدالدین ہانسہ میں تھے،اسی رات بابا فرید نے اپنے مرشد کو خواب میں دیکھاکہ اُنھیں اپنے پاس بلاتے ہیں۔دوسرے دن شیخ، ہانسہ سے روانہ ہوگئے۔چوتھے دن دہلی شہر پہنچے،قاضی حمیدالدین ناگوری باحیات تھے۔ وہ اس جامے کو بابافرید کی خدمت میں لائے۔شیخ نے دو رکعت نماز پڑھی اور وہ جامہ پہنا اور اُس گھر میں تشریف لائے جہاں شیخ قطب الدین رہتے تھے۔ تین دن سے زیادہ وہاں نہیں رہے،اور ایک روایت میں ہے سات دن۔پھر ہانسہ کی طرف تشریف لے آئے،اور ان کے وہاں آنے کی وجہ یہ تھی جس وقت شیخ ،شیخ قطب الدین کے گھر میں مقیم ہوئے تھے، سرہنگانامی ایک شخص ہانسہ سے آیاتھا۔ شاید وہ دوتین دفعہ اس گھر میں آیالیکن دربان نے جانے نہیں دیا۔ایک دن شیخ گھرسے باہر نکلے تو سرہنگا بڑھا اور شیخ کے قدموں میں گرگیااور رونے لگا۔شیخ نے پوچھاکہ کیوں روتا ہے؟ بولا:اس وجہ سے کہ آپ ہانسہ میں تھے تو ہم آسانی سے درشن کرلیتے تھے،اب آپ کا دیدار دشوارہوگیاہے۔شیخ نے اُسی وقت مریدوں سے کہاکہ میں پھر ہانسہ واپس جاؤںگا۔ حاضرین نے عرض کی کہ شیخ نے تو اِس مقام کا آپ کے لیے حکم فرمایاہے،آپ کسی اور جگہ کیوں جارہے ہیں؟شیخ نے فرمایاکہ میرے مرشد نے جو نعمت میرے لیے جاری فرمائی ہے، وہ جیسی شہرمیں ہے ویسی ہی بیابان میں۔ (جلد:۴،مجلس:۴۴)
معمولی غذا پر قناعت:بابا فرید کا افطار اَکثر شربت سے ہوتا تھا،ایک پیالہ تھا جس میں شربت لایا جاتا۔شربت میںکچھ منقیٰ بھی ڈالتے تھے۔اس پیالے میں سے آدھا حصہ یا تہائی حصہ سب حاضرین میں تقسیم کردیاجاتااِس طرح کہ شربت کا کچھ حصہ ایک برتن میں ڈالا جاتا اورپانی ملاکر حاضرین مجلس میں تقسیم کردیاجاتا،باقی تہائی جو بچتا وہ خود اِستعمال فرماتے اور اُس میں سے بھی جس کو چاہتے عنایت فرمادیتے۔یہ دولت پانے والا بھی کیسا خوش نصیب ہوتا تھا،پہلے دوچپڑی ہوئی روٹیاں لائی جاتیں اور یہ دو روٹیاں ایک سیر سے کم ہوتیں۔ ان دو روٹیوں میں سے ایک روٹی کا ٹکڑا ٹکڑا کرکے سب حاضرین کو عطافرمادی جاتی اور دوسری روٹی خود کھاتے اور اُس خاصے کی روٹی میں سے بھی جس کو چاہتے عنایت کردیتے۔ شام کو نماز اداکرنے کے بعد مشغول بحق ہوجاتے اور پوری طرح مشغول رہتے، اس کے بعد دسترخوان لایا جاتا۔ہر طرح کا کھانا ہوتا، جب وہ کھانا ہوچکتا تو پھر دوسرے دن افطار کے وقت تک کچھ نہ کھاتے۔(جلد:۲،مجلس:۸)
انوکھا طرزتعلیم :جن کوبابا فریدنے خلافت عطافرمائی تھی ان میں سے ایک درویش تھے جن کو عارف کہتے تھے۔ان کو سیوستان اور ان کے حدود کی طرف بھیجا تھا اور بیعت لینے کی اجازت دی تھی۔ چناںچہ ایسا ہواکہ ایک بادشاہ یا حاکم ملتان اور اُوچّ کے علاقے میں تھا اوریہ عارف اس بادشاہ کے امام تھے،یا کسی اور طرح کا تعلق رکھتے تھے۔ غرض کہ ایک دفعہ اس بادشاہ نے سوتنکے(ایک سکہ)ان عارف کے ہاتھ بابافرید کی خدمت میں بھیجے۔ اُنھوں نے اس میں سے پچاس تنکے اپنے پاس رکھ لیے اور پچاس تنکے شیخ کی خدمت میں پیش کیے۔بابافریدمسکرائے اور فرمایاکہ تم نے بھائیوں کی طرح تقسیم کرلیا۔یہ عارف شرمندہ ہوگئے۔فوراً بقیہ پچاس تنکے بھی خدمت میں پیش کردیے اور بڑی عاجزی سے معافی مانگی اور مریدہونے (تجدید بیعت) کی درخواست کی۔شیخ نے دست مبارک بیعت کے لیے ان کو دیا اوروہ محلوق ہوئے۔اس کے بعد شیخ کی خدمت میں ایسے پکے ہوئےکہ پوری استقامت حاصل کرلی۔ آخر میں شیخ نے اُنھیں بیعت کی اجازت عطافرمائی اور سیوستان کی طرف بھیج دیا۔(جلد:۴،مجلس:۶۶)
کامل مومن کی علامت:دہلی میں ایک ترک تھا۔اس نے ایک مسجد تعمیرکرائی تھی اور اُس مسجد میں امامت شیخ نجیب الدین کو دی تھی اور اُن کے لیے گھر بھی مہیا کیاتھا۔ اس ترک نے اپنی لڑکی کی شادی کی۔ایک لاکھ جیتل بلکہ زیادہ اس کے لیے خرچ کیے۔شیخ نجیب الدین نے ایک دفعہ گفتگو کے دوران اس سے کہاکہ کامل مومن وہ ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ سے محبت، اولاد کی محبت پر غالب رہے۔اب تم نے ایک لاکھ جیتل (سکہ) بلکہ زیادہ اپنی اولاد کے لیے خرچ کیے ہیںاگر اُس کے دوگنے اللہ کی راہ میں خرچ کرو تب ویسے کامل مومن ہوگے۔ ترک اس بات سے خفاہوگیا۔شیخ نجیب الدین سے امامت بھی لے لی اور مکان بھی ۔شیخ نجیب الدین یہاں سے اجودھن گئے اور بابا فرید کو صورت حال کہہ سنائی۔شیخ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہےکہ ہر آیت جو ہم منسوخ کرتے ہیںاس کی جگہ دوسری آیت بھیجتے ہیںاس سے بہتر یا ویسی ہی۔(البقرۃ:۱۰۶)لہٰذااُس کی کچھ پرواہ مت کرو۔ شاید اس ترک کانام ایتمرتھا۔شیخ نے ارشادفرمایاکہ اگر ایک ایتمر گیاہے تو اللہ تعالیٰ دوسرا ایتکرپیداکردےگا۔اسی زمانے میں ایک بڑا نواب ایتکر نامی اس علاقے میں آیا،جس نے شیخ الاسلام اور اس خانوادۂ کریم کی بڑی خدمتیں کیں اور اُس خاندان کی خدمتگاری سے منسوب ہوا۔(جلد:۲،مجلس:۳۰)
وصال مبارک:ماہِ محرم کی پانچویں تاریخ(۶۶۶ھ-۱۲۶۵ء) کو اُن پر بیماری کا غلبہ ہوا۔عشا کی نماز جماعت سے ادافرمائی۔ اُس کے بعد بےہوش ہوگئے۔کچھ دیر کے لیے پھر ہوش میں آئے۔ دریافت فرمایاکہ کیا میں نے عشا کی نماز پڑھ لی ہے؟عرض کیا گیاکہ جی ہاں!ارشاد ہواکہ ایک دفعہ اور مکرر پڑھ لوں۔کون جانتاہے کہ کیا ہو؟ جب دوسری دفعہ نماز ادا کرلی تو پھر بےہوش ہوگئے۔ہوش میں آنے کے بعد پھر فرمایاکہ ایک بار اور پڑھ لوں،کون جانے پھر کیا ہو؟چناںچہ تیسری دفعہ بھی پڑھی۔اس کے بعد رحمت حق سے پیوست ہوگئے۔ (جلد:۴،مجلس:۵۳)