آقا ئے کریم ﷺ کا عنفوان شباب کا ایک حسین منظر
مولانا اکرم اللہ خان ہدوی نظامی
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس روئے زمین پر اگر کسی کی ذات اکمل،احسن واتم ہے تو آقائے کریم کی ذات ہے ۔ جو مادرذات سے ہی سب سے ممتاز اور بے نظیر ہوں ان کے بچپن اور شباب کا عالم کیا ہوگا ۔ اللہ نے جنہیں ساری مخلوق کی خلقت کاباعث بنانے کے ساتھ ساتھ ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر کا مصداق بنایا، ان کا عالم شباب ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے ۔ جس کی تصدیق خود قرآن کریم نے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ سے کی ہے ۔
آپ ﷺ کی شبابی زندگی ملک شام کے دوسرے سفر سے شروع ہوتی ہے ۔ نبی کریم ﷺ حضرت خدیخہ رضی اللہ عنہا کا مال لے کر ان کے غلام میسرہ کو اپنے ہمراہ لیکر شام روانہ ہوئے ۔ میسرہ نے دوران سفر کئی عجائب وغرائب کا مشاہدہ کیا اور راہب سے بھی ملاقات ہوئی ۔ راہب نے بھی سر کار علیہ السلام سے متعلق کئی باتوں کا ذکر کیا ۔ میسرہ نے سفر سے واپسی کے بعد تمام باتوں کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا ۔ آپ بڑی عقلمنداور شریف خاتون تھیں، جب آپ نے اپنے چچازاد بھائی ورقہ کو سب کچھ بتایا تو انہوں نے انہیں آقا ﷺ کے آخر ی نبی ہونے کی خبر دی ۔
ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا شرافت اور پا ک د امنی میں بے مثال تھیں ۔ آپ کا لقب طاہرہ تھا ۔ آپ کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا ۔ کئی مالدارگھرانوں کا پيغام نکاح آیا مگر آپ نے قبول نہیں کیا ۔ جب میسرہ سے حضور ﷺکے اوصاف جمیلہ اور اخلاق حمیدہ سنیں تو متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکیں اورآپ علیہ السلام كو نکاح کا پیغام بھیجا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا اور خاندان کے بڑوں سے مشورہ کیا ۔ بالآخر بیس اونٹوں کے عوض یہ بیاہ عمل میں آيا ۔ آقائے کریم علیہ السلام تبليغی،تعلیمی اور کفالتی حکمت کے تحت گیارہ امہات الموَمنین سے نکاح کئے ۔ پہلا نکاح چالیس سالہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد پچپن سالہ خاتون حضرت سود ہ رضی اللہ عنہا سے دوسرا عقد نکاح فرمایا ۔ یکم ہجری چوپن برس کی عمر شریف میں حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوئی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ باقی تمام ازواج مطہرات ان بیاہی نہ تھیں ۔ دیگر تمام ازواج مطہرات نے ایک ہجری سے سات ہجری کے درمیان امہات الموَمنین بننے کا شرف حاصل کیا ۔
نبی کریم ﷺ اپنے عنفونان شاب میں خود کماتے تھے یعنی خود کفیل تھے ۔ گھریلو کام کاج میں امہات المؤمنین کا ہاتھ بٹاتے، بکریاں چرانا آقا ﷺکا شوق تھا ۔ تجارت کیا کرتے تھے ۔ جیسا کے ماقبل مذکور ہے ۔ اپنی تجارت میں عوام الناس کو شریک بناتے تھے ۔ جیساکہ تاریخ میں مذکور ہے کہ سائب بن ابی سائب المخزومی سرکار ﷺ کے بہترین شریک تجارت تھے ۔ تجارت کی خاطر آپ ﷺ امین اور صادق کے لقب سے ملقب ہوئے ۔ یعنی آپ ﷺ اپنی دیانتدار ی اور امانتدار ی کے لئے مکہ مکرمہ میں مشہور تھے ۔
اعلان نبوت سے پہلے ہی آقا ئے کریم ﷺ مصلح قوم تھے ۔ اعلان نبوت سے کچھ عرصے قبل عرب میں روز بزوز کی قبائلی لڑائیوں سے سیکڑوں گھرانے برباد ہوگئے تھے ۔ چاروں طر ف بدامنی اور آئے دن کی لوٹ مار سے ملک کا امن وامان غارت ہوچکا تھا ۔ صورت حال سے تنگ آکر کچھ صلح پسندلوگوں نے جنگ فجار کے خاتمہ کے بعد ایک اصلاحی تحریک چلائی۔ جس میں موجودہ حالات کوسدھارنے کے لئے کوئی معاہدہ کرنے کی تجویز پیش کی ۔ اس معاہدہ میں آقائے کریم ﷺ بھی شریک ہوئے اور آپ ﷺ کو یہ معاہدہ بہت عزیز تھا ۔ یہ معاہدہ (حلف الفضول ) کے نام سے مشہور ہے ۔
آقا ئے کریم ﷺ پینتیس سال کی عمر میں خانہ کعبہ کی تعمیر ومرمت میں شریک ہوئے اور سرداران قریش کے دوش بدوش پتھر اٹھا اٹھا کرلاتے رہے ۔ جب عمارت (حجر اسود ) تک پہنچ گئی تو قبائل میں سخت جھگڑا کھڑا ہوگیا ۔ ہر قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ ہم ہی حجر اسود کو اٹھا کر دیوار میں نصب کریں ۔ تاکہ ہمارے قبیلہ کے لئے یہ فخر کا باعث بن جائے ۔ اس کشمکش میں چاردن گزر گئے یہاں تک کہ تلواریں نکل آئیں ۔ پانچویں دن حرم کعبہ میں تمام قبائل جمع ہوئے اور یہ تجویز طے پائی کہ کل جوشخص صبح سویرے سب سے پہلے حرم کعبہ میں داخل ہو اس کو پنچ مان لیا جائے ۔ وہ جو فیصلہ کردے سب اس کو تسلیم کرلیں ۔ چنانچہ سب نے یہ بات مان لی ۔ خدا کی شان کہ صبح کو جو شخص حرم کعبہ میں داخل ہوا وہ حضور رحمت ﷺ ہی تھے ۔ آپ كو دیکھتے ہی سب پکا ر اٹھے کہ واللہ یہ امین ہیں لہذا ہم سب ان کے فیصلہ پر راضی ہیں ۔ آپ ﷺ نے اس جھگڑے کا اس طرح تصفیہ فرمایا کہ پہلے آپ نے یہ حکم دیا کہ جس جس قبیلہ کے لوگ حجر اسو د کو اس کے مقام پر رکھنے کے مدعی ہیں ان کا ایک ایک سردار چن لیاجائے ۔ چنانچہ ہر قبیلہ والوں نے اپنا اپنا سردار چن لیا ۔ پھر حضور ﷺ نے اپنی چادر مبارک کو بچھاکر حجر اسود کو اس پر رکھا اور سرداروں کو حکم دیا کہ سب لوگ اس چادر کو تھام کر مقدس پتھر کو اٹھائیں ۔ چانچہ سب سرداروں نے چادر کو اٹھایا اور جب حجر اسود اپنے مقام تک پہنچ گیا تو حضور ﷺ نے اپنے متبرک ہاتھوں سے اس مقدس پتھر کو اٹھاکر اس کی جگہ پر رکھ دیا ۔
ایسے بہت سے کارنامے اور واقعات تاریخ میں موجود ہیں جن میں ہمارے آقا ومولا محمد مصطفی ﷺ نے اپنے غنفونان شباب میں حکمت عملی اور اخلاق حسنہ سے کام لیا اور رہتی دنیا کے لئے مثال بن گئے ۔ اللہ تعالی ہمیں حضور ﷺ کے اسوه حسنہ ہماری زندگی میں اپنانے كى توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین