ذکر آمد مصطفی: ولادت، نبوت اور ہجرت کے اسباق

سیرت ابن ہشام کے مطابق: حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش عام الفیل، پیر کے دن، ١٢/ربیع الاول مطابق 20/ اپریل 571ء کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ دن، مہینہ اور سال میں جمہور کا اتفاق ہے البتہ! تاریخ مختلف فیہ ہے۔ لیکن متعارف و مشہور 12/ ربیع الاول ہے اور اسی مناسبت سے مذکورہ تاریخ و ماہ میں پوری دنیا عیدمیلادالنبی کا اہتمام کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیدائشی نام محمد، قرآن میں احمد اور کنیت ابوالقاسم ہے، جب کہ قرآن وحدیث اور کتب سیر و تواریخ میں صفاتی نام مزمل، مدثر، مصطفی، مجتبی، رؤف و رحیم وغیرہ مذکور ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش کے نامور اور شریف خاندان بنو ہاشم سے تھا۔ عرب دستور کے مطابق دائی حلیمہ کی رضاعت میں گئے اور ان کے ساتھ دیہات میں تقریباً تین-چار کا عرصہ بسر کیا اور چوں کہ اول دن سے ہی شفقت پدری سے محروم ہوگئے تھے اس لیے آپ کی پرورش و پرداخت سیدہ آمنہ اور جناب عبدالمطلب نے بڑی محبت و شفقت کے ساتھ کی۔ لیکن چھ سال کے ہوئے تو والدہ سیدہ آمنہ داغ مفارقت دے گئیں۔ اس کے دو سال بعد انتہائی شفیق و مہربان دادا جان جناب عبدالمطلب بھی چل بسے۔ پھر آپ اپنے چچا جناب ابوطالب کی کفالت و نگرانی میں آ گئے۔ جناب ابوطالب نے جس شفقت و محبت سے آپ کو رکھا اس کی مثال بمشکل ملےگی۔ منقول ہے کہ وہ اپنی اولاد سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہمیت دیتے تھے۔ اس کے علاوہ جناب ابوطالب جب تک زندہ رہے انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دیا اور مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی آپ کے ساتھ خیر کا معاملہ کرتے رہے۔ یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کے لیے اہل عرب کا سوشل بائیکاٹ بھی برداشت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بڑے ہوئے تو تجارت کی طرف مائل ہوئے اور اپنے اچھے معاملات اور صداقت کلامی کی بنیاد پر "صادق و امین" کے لقب سے پکارے گئے۔

آپ کی اسی خوبی کے سبب حضرت خدیجہ کو آپ سے انس پیدا ہوا، اور پھر ایک دن وہ آپ کی شریک حیات بن گئیں۔ آپ دونوں کا نکاح جناب ابوطالب نے پڑھایا۔ آپ کی کل گیارہ شادیاں ہوئیں۔ حضرت عائشہ کو چھوڑ کر تمام اہلیہ یا تو بیوہ تھیں یا پھر مطلقہ۔ ان شادیوں کا مقصد یہ تھا کہ اہل عرب بیوہ اور مطلقہ سے شادی-بیاہ کو معیوب نہ سمجھنا بند کردیں، عورتوں کو پیروں کی جوتی نہ سمجھا جائے اور ان بےسہارا عورتوں کو سماج میں عزت کے ساتھ رہنے کا موقع میسر آجائے۔ نیز ان کے ذریعے عورتوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کی اشاعت عام  ہوسکے۔ مزید  آپ محتاجوں اور کمزوروں کی حمایت میں بھی برابر پیش پیش رہتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ تمام تر نااتفاقیوں کے باوجود آپ نے اہل عرب کے ساتھ "حلف الفضول" معاملے میں شرکت کی۔ کیوں کہ اس میں کمزوروں اور ستم رسیدہ افراد کی حمایت میں ایک سمجھوتا پاس ہوا تھا کہ مکہ اور مکہ سے باہر کے بھی کسی کمزور پر ظلم نہیں کیا جائےگا، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو تمام اہل مکہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔  چالیس کی عمر میں آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا۔ جب تک جناب ابوطالب اور حضرت خدیجہ رہیں آپ بےفکری کے ساتھ تبلیغ دین کرتے رہے لیکن ان دونوں کے انتقال کے بعد آپ ٹوٹ سے گئے اور بالآخر اعلان نبوت کے 13/ سال بعد حکم ربانی پر مدینہ منورہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم فرمائی اور اہل دینا کے سامنے ایک ایسا نظام متعارف کرایا جس میں ادنی اعلی، کالا گورا، اونچ نیچ سب کا فرق مٹا ڈالا۔ مدینہ منورہ کی دس سالہ سیرت میں ویسے تو بہت سی باتیں اہم ہیں لیکن سردست صرف دو باتوں کا ذکر مفید معلوم ہوتا ہے: ایک صلح حدیبیہ اور دوسرا میثاق مدینہ۔ تاریخ انسانی ان دونوں کی مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ایک اقلیت کی صورت میں معاہدہ کی کیفیت اور اس پر جمے رہنے کا درس دیتا ہے اور دوسرا اکثریت کی صورت میں اپنے ماتحت کے ساتھ خیر و فلاح جیسے معاملات رکھنے کا پیغام دیتا ہے۔ سنہ دس ہجری میں فریضہ حج ادا فرمایا اور ایک لاکھ مجمع کے سامنے اپنا آخری خطبہ پیش فرمایا اور اسلام کے پردے میں پوری انسانی برادری کو زندگی میں کامیابی کے لیے ناقابل تسخیر دستور العمل اور انمول فارمولہ دیا۔ پھر اسی سال ماہ صفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرض وصال کے زیر اثر آئے اور ربیع الاول کے مہینے ہی میں دنیائے فانی کو خیرباد کہا۔ 

نتیجہ: اس طرح دیکھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 63/ سالہ زندگی تین حصوں میں منقسم ہوتی ہے: اول چالیس سالہ زندگی اخلاقیات پر مشتمل ہے، دوم تیرہ سالہ زندگی مشن ربانی کی اشاعت اور اس سلسلے میں درپیش مصائب اور اس کے حل پر مشتمل ہے اور سوم دس سالہ مدنی زندگی اسلامی ریاست اور مثالی نظم و نسق کے نفاذ پر مشتمل ہے جس میں بالخصوص تمام انسانی برادری کا خیال رکھا گیا ہے۔ الاخیر اس بات سے کسی کو مجال انکار نہیں کہ کسی بھی فرد کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ وہ اخلاقی زیور سے مزین ہو، مصائب و سلام پر صبر وتحمل سے کام لینے کا حوصلہ اور ہمت رکھتا ہو اور جب اسے غلبہ اور پاور حاصل ہوجائے تو ظلم و انتقام کے بجائے وہ عفو و درگزر اور سب کے ساتھ خیر و فلاح  اور عدل کا معاملہ روا رکھے، اور اس کی انمول اور تاریخی مثال حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہے۔

(ایڈیٹر ماہنامہ خضر راہ، الہ آباد)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter