محمد ﷺہے متاعِ عالمِ ایجاد سے پیارا - تحفظ ناموس رسالتﷺ اور مملکتوں کا منفی کردار

مسلم قوت و شوکت کا راز مخالفین اسلام کے اعلیٰ دماغوں نے کئی صدی قبل جان لیا تھا؛ کہ مسلمانوں کی کامیابی و سربلندی کا واحد سبب رسول اللہ ﷺ سے محبت و عشق ہے، جب تک یہ روحِ محبت زندہ رہے گی نہ مسلمانوں کو تباہ کیا جا سکتا ہے نہ ہی فکرِ جہاں بانی و جہاں گیری سے دور کیا جا سکتا ہے۔ اقبالؔ نے مغرب کی سازشوں کے تناظر میں ہی کہا تھا؎

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو

  اسی پہلو سے ان کے دانشوروں اور مشنریوں نے کام کیا۔ نتیجتاً :
[۱] توہینِ رسالت ﷺ کی فضا ہموار کی گئی۔توہین کو آزادیِ اظہار راے کا نام دے کر گستاخوں کی حوصلہ افزائی و حمایت کی گئی-

[۲] پادریوں، مستشرقین، مغربی مصنفین سے چلنے والی یہ وَبا ہند میں بعض مشرکوں، پنڈتوں اور غیر مسلم پیشواؤں تک پہنچی، جن میں بعض نے توہین کا ارتکاب کیا۔

[۳] داخلی فتنوں کو بھی شہ دی گئی۔ نتیجتاً بارگاہِ رسالت ﷺ میں توہین پر مشتمل کتابیں وجود میں آئیں۔
[۴] داخلی سطح پر مغربیت زدہ مصنفین، ناقدین، دانشوروں کا ایک ایسا حلقہ بھی تیار ہوا؛ جنھوں نے ناول و افسانوں میں ایسی ہی فضاہموار کی جس سے بارگاہِ رسالت ﷺ یا شرعی اصولوں کی بے ادبی واقع ہوتی ہو۔ ایسے لادینی مزاج کے حاملین نے دین کو معذرت خواہانہ انداز میں پیش کیا۔ تاویلات کے ذریعے احکام اسلامی کی من مانی تشریحات کیں۔ جہادِ اسلامی کے پاکیزہ معنیٰ و مفہوم کو زبردستی تبدیل کرنے کی جرأت کی۔

  ان وارداتوں نے مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کیا۔ قومی بے حسی نے گستاخوں کی جرأتیں بڑھادیں۔ توہین کا جو سلسلہ یورپ سے شروع ہوا تھا؛ وہ بڑھتا ہوا ساری دنیا میں پہنچا۔ لادینی حکومتوں نے اس کی تائید کی۔ بلکہ بعض مسلم حکومتیں بھی گستاخوں کی پشت پناہ بنی ہوئی مشاہدہ ہوئیں۔

  فرانس میں سربراہِ حکومت نے رسول اللہ ﷺ کی بے ادبی کا ارتکاب کیا۔ مسلمانوں کے قلب چھلنی ہو گئے۔ پڑوسی ملک میں امیر المجاہدین علامہ رضوی کی ذات اسی تناظر میں اُبھر کر سامنے آئی۔ آپ نے گستاخ کے خلاف برملا اظہار کیا۔ وہیل چیئر پر چلنے والا بوڑھا جوانوں سے زیادہ پُر عزم دکھائی دیا۔ یورپ ان سے خوف زدہ ہو گیا۔ امن کے اس سپوت سے دجالی قوتیں لرزا براندام تھیں۔ علامہ رضوی کا ان کی حکومت سے یہ جمہوری مطالبہ تھا کہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال باہر کر کے احتجاج درج کروایا جائے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی بے ادبی گوارہ نہیں۔ توہین برداشت نہیں۔ ہم جان دے سکتے ہیں لیکن ناموسِ رسالت ﷺ میں حرف گیری برداشت نہیں کر سکتے؎

محمد ہے متاعِ عالمِ ایجاد سے پیارا
پدر، مادر، برادر، مال و جاں اولادسے پیارا

  اسی مضمون کو تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ نے ان الفاظ میں کہا اور درسِ عمل دیا؎

نبی سے جو ہو بیگانہ اسے دل سے جُدا کر دیں
پدر، مادر، برادر، مال و جاں ان پر فِدا کر دیں

  پڑوسی ملک کا وجود اسلام کے نام پر ہوا۔ وہاں کے سربراہانِ مملکت کو اس پہلو کو ملحوظ رکھنا چاہیے تھا؛ انھیں رسول اللہ ﷺ کی عزت کے لیے پاکیزہ قلب کے ساتھ جمہوری فیصلے لینے چاہئیں تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عاشقانِ رسول نے گستاخ فرانس کے خلاف مملکتی اقدام کا مطالبہ کیا۔ پر امن جمہوری احتجاج کو بزورِ قوت کچلنا انسانیت پر ظلم ہے۔ نہتوں پر آگ برسانا دہشت گردی ہے۔ جن کا وجود ہی اسلام کے نام پر ہوا ہو وہ مغربی قوتوں کے ایسے ایجنٹ ہوں گے یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ بہر کیف یہ زوال پذیر فکر کا نتیجہ ہے کہ عاشقانِ رسول کے دستوری مطالبے کو بزورِ قوت کچلا جا رہا ہے۔ 

  اِدھر ہند میں تری پورا میں اقلیتوں کے ساتھ جو ظلم و تشدد کا بھیانک کھیل کھیلا جا رہا ہے اور شدت پسند بھگوا قوتیں مسلم دُشمنی کو شہ دے رہی ہیں؛ ان کی پشت پناہی بھی توہین رسالت کے ارتکاب کے ساتھ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ گستاخوں کو شہ دینا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا اسلام دشمن عناصر کا معمول بن چکا ہے۔ 

  محبوبِ پاک ﷺ کی توہین کا ماحول بنا کر دُنیا کو بدامنی کی آگ میں ڈھکیلا جا رہا ہے۔ جن مملکتوں نے عزتِ رسول ﷺ کے لیے امن پسندوں کو نشانہ بنایا، تشدد کا شکار بنایا انھیں کے یہاں متشدد طبقوں کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ دہشت گرد تنظیموں کو شہ دی گئی جب کہ ان کے ساتھ سختی کی جانی تھی؛ بجائے اس کے نہتے اور پر امن عاشقانِ رسول پر تشدد سے کام لیا گیا۔ لیکن! ظلم بہر حال ظلم ہے جس کا خمیازہ یقیناً سربراہانِ مملکت کو بھکتا ہوگا کہ اگر مسلمان خاموش رہے تو رب کی گرفت سے یہ طاقت کے نشے میں گرفتار بچ نہیں پائیں گے اور ان کے اقتدار کا سورج غروب ہوگا ۔لیکن! بحیثیت عاشقِ رسول ہماری ذمہ داری ہے کہ توہین رسالت کی پشت پناہ طاقتوں کو پہچان لیں۔ ان کے مکروہ عزائم کو ناکام کرنے کے لیے اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کریں اور بیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نسبتوں کو مکین گنبد خضرا سے استوار کریں؎

انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دُنیا سے مسلمان گیا
٭ ٭ ٭

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter