"قیامی صاحب"کچھ یادیں، کچھ باتیں

دار العلوم علیمیہ، جمدا شاہی کے سابق استاذ اور بزرگ عالمِ دین حضرت مولانا محمد تفسیر القادری قیامی  ۱۹ محرم ۱۴۴۴ھ / 17 اگست 2022ء، شبِ پنج شنبہ، گیارہ بج کر بیس منٹ پر وصال فرما گئے۔ 
إنا لله وإنا إليه رٰجعون.
شمسی تقویم سے ان کی عمر -کاغذات کے مطابق- مکمل پچہتر 75 سال تھی۔ 12 اگست 1947 ان کی تاریخِ پیدائش ہے۔
میرا گاؤں حضرت کے آبائی علاقے ہی میں ہے۔ منہداول Menhdawal قصبے کے شمال-مغرب میں ان کا وطن اصلی "اِملی ڈِیہا" گاؤں ہے۔ میرے گاؤں سے جنوب-مشرق کی طرف سات آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر۔ 
مولانا تفسیر القادری صاحب علما اور طلبہ کے مابین "قیامی صاحب" کے طور پر مشہور تھے۔ میں نے اگرچہ زمانۂ طالب علمی ہی سے ان کا نام اور کچھ شہرہ سن رکھا تھا، مگر میری محرومی کہ ان کا قدرے وسیع تعارف اور ان کی خدمات کا علم مجھے بہت بعد میں (2010ء کے آس پاس) حاصل ہوا۔ پھر ان سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ میں ان کا شاگرد تو نہیں مگر کثیر علما اور طلبہ کی زبانوں سے ان کے محاسن کے چرچے بارہا سنے۔ اور ان کی بہت سی خوبیاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ ان کے ریٹائرمنٹ (2010ء) کے بعد (غالبا 2011ء یا 2012 میں) ایک بار اپنے ہم قریہ مولانا محمد شمیم قادری کے ساتھ حضرت کے آبائی گاؤں ان سے ملنے کے لیے حاضر ہوا۔ یہ میری ان سے باقاعدہ پہلی ملاقات تھی۔ پھر بھی مجھ پر بہت شفقت اور توجہ فرمائی۔ بلکہ کھلے لفظوں میں کہوں تو مجھ میں اور ان میں علم، عمل، اور عمر کے اس بہت بڑے فرق کے باوجود مجھ جیسے حقیر شخص کو بہت عزت سے نوازا۔ یہ صرف شفقت نہیں۔ اور نہ ہی اسے فقط اصاغر نوازی کہا جا سکتا ہے۔ یہ اس اعلی اور عمدہ اخلاق کا ایک نمونہ بھی ہے جو انھیں بزرگوں کے فیضِ صحبت سے ورثے میں ملا تھا۔ اسی ملاقات میں الجامعۃ الاشرفیہ سے میری تعلیمی نسبت اور میرے مرشد سے میری علمی و روحانی نسبت کا علم ہونے پر بہت خوش ہوئے۔ دعاؤں سے نوازا۔
ان سے آخری ملاقات گزشتہ ۲ شوال ۱۴۴۳ھ کو ہوئی تھی۔ میرے گاؤں میں بچیوں کے ایک تعلیمی ادارے کے سنگِ بنیاد کے لیے حضرت کی خدمت میں دعوت پیش کی گئی تھی۔ حضرت نے قبول فرمائی اور اصاغر نوازی فرماتے ہوئے تشریف لائے۔ کثیر علاقائی علما کی موجودگی میں حضرت نے خشتِ اول رکھی۔ اور بہت دعائیں کیں۔ 
ان میں بڑوں والی سادگی تھی۔ تکلف اور تصنع سے دور تھے۔ عجز و انکساری بھی خوب تھی۔ ان کے ساتھ روز و شب گزارنے والے بتاتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے انھیں اخلاصِ عمل اور تقوے سے نوازا تھا۔ 
چھوٹوں کی تحسین اور حوصلہ افزائی بھی بہت فرماتے تھے۔ اسی سنگِ بنیاد کے موقعے پر ایک محفل ہوئی۔ حضرت کی موجودگی میں خاکسار نے کم و بیش ایک گھنٹہ بیان کیا۔ بغور سماعت فرمایا، تعریف و تحسین فرمائی اور پھر اپنے بیان میں دو تین بار معلّا القاب کے ساتھ میرا اور میرے خطاب کا ذکر بھی کیا۔ ان کا یہ رویہ دراصل نئی نسلوں کی تعمیر کا ایک حصہ ہے۔ یہ چھوٹوں کو بڑا بنانے کی ایسی خوبی ہے جو اب مفقود ہوتی جا رہی ہے۔!!
وہ اکابرِ اہلِ سنت کے شاگرد اور فیض یافتہ علما میں سے تھے۔ افسوس کہ اب علما کی یہ جماعت بھی ایک ایک کر کے ہم سے رخصت ہو رہی ہے۔ زیادہ تر حضرات تشریف لے جا چکے۔ جو باقی بچے ہیں وہ بھی کوچ کی تیاری میں ہیں۔ وہ علما کی اس نسل سے تھے جس میں ہم ان سے پہلے کے اکابرِ اہلِ سنت کے اخلاق و عمل کی خوشبو بآسانی محسوس کر سکتے ہیں۔ میری اس بات کی تصدیق بہت سے اصحابِ ذوق فرمائیں گے کہ اکابرِ اہلِ سنت اور بزرگانِ دین کے انفاس کریمہ کی برکت پانے والے علما کی اس جماعت کے پاس بیٹھنے سے ایک روحانی انس اور دل بستگی کی کیفیت ملتی ہے۔ 
انگریزی کی ایک اصطلاح ہے جنریشن گیپ۔ یہ اصطلاح دو نسلوں کے درمیان خیالات، اخلاقیات، رویّے اور اعمال وغیرہ کا موازنہ اور فرق بتانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مولانا مرحوم اور ان کے ہم عمر و ہم پلہ علما کی نسل دیکھتا ہوں اور آج اپنی عمر اور اپنے سے کم عمر کی نسل دیکھتا ہوں تو مجھے جنریشن گیپ واضح طور پر نظر آتا ہے۔  
اللہ عزوجل خیر فرمائے، اخلاف کو اسلاف کا سچا خلَف بنائے۔ اور مولانا علیہ الرحمہ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام سے نوازے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter