بابری مسجد سے شروع ہوا سلسلہ کہاں تھمے گا
فرقہ پرست عناصر کا بابری مسجد ہتھیانے کے بعد ایک کے بعد ایک مساجد و دیگر اسلامی شعائر پر ظلماقبضہ کرنے کے لئے پرپیگنڈہ کی زور و شور سے شروعات کردی گئی ہے۔ یہ ان ناعاقبت نام نہاد مسلم اسکالروں و خود ساختہ لیڈران کے منہ پر تمانچہ ہے جو لوگ اس بات کی وکالت کرتے نہیں تھکتے تھے کہ ایک بابری مسجد دے کر ملک کی دیگر مساجد کو محفوظ کرلینا چاہئے ۔بابری مسجد میں ۱۹۴۹ میں چوری چھپے مورتی رکھ دی جاتی ہے جسے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بھی چوری چھپے مورتی رکھنے کا جرم مانامگر بعد میں جس چیز کو چوری چھپے زبردستی مسجد میں مورتی رکھنا کہا گیا تھا اسی کو عوام کے سامنے رام للا کا نمودار ہونا ثابت کرتے ہوئے تاریخ کو توڑ مروڑکر جھوٹی من گھڑت آستھا سے جوڑ کر اسے خوب پھیلایا گیا اور ان مورتی رکھنے والوں کو سزا دینے کی بجائے انعام کے طور پر پوری مسجد کی زمین دے دی جاتی ہے۔
کسی کی زمین ہتھیانے کا یہ قدیم برہمنی موثر طریقہ ہمیشہ سے ہی کارگر رہا ہے فرقہ پرستوں کے اقتدار میں آنے کے بعد اس طریقہ نے زور پکڑا ہے۔ اب گیان واپی مسجد ، دہلی کی شاہی جامع مسجد ، اجمیر درگاہ ، و دیگر مساجد و درگاہیں وآستانوں پر بھی یلغار کردی گئی ہے اور قدیم مساجد کے نیچے منادر ہونے کا دعوی کرنے کی ہوڈ لگ گئی ہے گیان واپی مسجد میں شیولنگ نمودار ہونے کا شور برپا کیا گیا اور فوارے کو شیو لنگ بتا کر پورے مسجد احاطے پر قبضہ کرنے کی سازش کو آگے بڑھایا جارہا ہے ۔جس پر نچلی عدالت کے بعد سپریم کورٹ نے بھی درمیانی راہ نکالی اور تنازعہ کو یکسر ختم کرنے کی بجائے جہاں ایک طرف مسلمانوں کو نماز کی اجازت دے کر انہیں پرسکون کرنے کی کوشش کی وہیں حوض کو سیل کرکے بظاہر شیولنگ والے دعوے کو کچھ حد تک صحیح مانا ہے جس سے آئندہ اس معاملہ میں کیا ہونے والا ہے یہ ماضی کے تلخ تجربات سے سمجھا جاسکتا ہے۔
ہندوستان کی مسلم تنظیمیں ، تاریخی مساجد اور عدلیہ
پورے ملک کے سنجیدہ مسلمانوں میں ایک فکر زور پکڑتی جارہی ہے کہ کیا مسلم امہ اور ان کی نمائندہ تنظیموں نے ملک میں موجود سینکڑوں تاریخی مساجد براہ راست فرقہ پرستوں کو دینے کی بجائے عدلیہ کے توسط سے سونپنے کے لئے رضا مند ہوگئے ہیں ۔جس طرح بابری مسجد کے مسئلہ پر عدلیہ پر اعتماد کا خوب واویلہ کرکے پوری قوم کو فیصلہ قبول کرنے پر آمادہ کیا گیا اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک منصوبہ بند سازش تھی جس میں اغیار کے ساتھ اپنے بھی شامل تھے۔ اب گیان واپی مسجد میں شیولنگ کے مبینہ دعوے پر جس طرح پوری امت اپنے قائدین و نمائندہ تنظیموں کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے مگر قائدین و مسلم تنظیمیں جس طرح کا روئیہ اپنائے ہوئے ہیں وہ سمجھ سے باہر ہے خاموشی میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔ نہ احتجاج نہ حکومت کے خلاف کوئی تبصرہ نہ عدالتی چارہ جوئی بلکہ باقائدہ اعلان نامہ جاری کرکے امت کو صبر کرنے ،احتجاج سے اجتناب کرنے اور عدالت میں فریق بننے سے گریز کرنے کے ساتھ احساس کمتری میں مبتلا کیا جارہا ہے۔
کیا یہ سب بھی ماضی کی طرح کسی سازش کا حصہ لگ رہا ہے جبکہ فرقہ پرستوں کے حوصلے بابری مسجد کے فیصلہ کے بعد سے کافی بلند ہوچکے ہیں اور وہ بہت آگے تک کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں ۔عدالت نے بھی سابقہ معاملہ کی طرح گیان واپی مسجد معاملہ میں جو ابتدائی حکمنامہ جاری کیا ہے اس میں صاف طور پر مسلمانوں کی طرف سے عدالت میں غیر موثر پیروی دیکھی جاسکتی ہے ۔ان سب باتوں سے صاف محسوس ہورہا ہے کہ یہ مسجد بھی مسلمان عدلیہ کے بھروسے پرکھو دیں گے ۔ہزاروں کی تعداد میں ملک میں موجود مسلم تنظیمیں اور ان کے ذمہ داران کہاں ہیں؟ کیا وہ ان افتاد کو امت کے مسائل نہیں مانتے ؟کیامسلمانوں کے پاس وسائل کی کمی ہے ؟کیا ہمارے پاس قابل وکلا اور نمائندے نہیں ہیں یا ہم احتجاج کرنے اور اپنی بات منوانے کے حق سے محروم ہوچکے ہیں اور خود کو حالات کی لہروں پر چھوڑ دیا ہے؟ ایسے حالات میں ایک بے چین ہوشمند مسلمان کیا سمجھے؟