سلام رضا میں سراپائے محبوب ﷺ

  اس خاکدان گیتی میں ایک ہی ذات محبت والفت کے لائق ہے جیسے دنیا مقصود کائنات ومحمود ارض وسماوات کہتی ہے۔باقی تمام اشیاء اس دنیا میں خش وخاشاک ہے اس خرمن کائنات میں گنبد خضراء قلزم عشق ہے۔عشاقان مصطفیﷺ کی امیدوں کی شعاعیں اسی ذات ستودہ صفات سے جڑی ہوئی ہیں۔ذات رسول ﷺ کے حسن وجمال جہاں آراء میں پوری دنیا گم ہے۔ اس کائنات رنگ وبو میں جو کچھ حسن وجمال کے پیکر نظر آتے ہیں وہ سب جمال محمدی ﷺ کے پرتو ہیں۔یہی حسن زمین کی دلفریب رعنائیوں میں جلوہ گر ہے تو کبھی یہی حسن گل ولالہ کے نرم ونازک پنگھڑیوں میں جلوہ فرما ہے۔کبھی یہی حسن نغمات سمندروں اور آبشاروں سے واشگاف ہے الغرض آفاق کے ہر گوشہ گوشہ میں جمال محمدی کارفرما ہے جہاں دیکھو انہیں کا جلوہ نظر آتا ہے امام عشق ومحبت فرماتے ہیں

                             حرم وطیبہ وبغداد جدھر کیجئے نگاہ

                                                    جوت پڑتی ہے تری نور ہے چھنتا تیرا

اسی جمال جہاں آراء کو امام عشق ومحبت عظیم البرکت اعلیحضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی نے اپنے مشہور زمانہ سلام یعنی مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام  میں بڑے دلکش ولا ویز انداز واسلوب میں بیان کیا۔آئیے ذرا سراپائے محبوب ﷺ کو عاشق صادق کس انداز میں بیان کرتا ہے دیکھتے ہیں اور ایمان وعقیدہ کو بالیدگی وتازگی فراہم کرتے ہیں سر مبارک کا ذکر کرتے ہوئے اعلی حضرت فرماتے ہیں۔

                     جس کے آگے سر سروراں خم رہیں             

            اس سر تاج رفعت پہ لا کھوں سلام

آپ کا سر انور آپ کی شخصی وذاتی وجاہت وعظمت کی دلیل ہے۔اسی سرمبارک کے بارے میں مولائے کائنات فرماتے ہیں کان رسول اللہ ﷺ ضخم الرأس مزید حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں کان رسول اللہ ﷺ عظیم الھامۃ یعنی امام الانبیاء ﷺ کا سر انور اعتدال وموزونیت کے ساتھ بڑا تھا۔سرکا بڑا ہونا ہی عظمت وشرافت کی بین دلیل ہے۔شارح بردہ شریف حضرت علامہ ابراہیم باجوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عظیم الرأس دلیل علی کمال القوی الدماغیۃ وہو آیۃ النجابۃ یعنی سر اقدس کا بڑا ہونا دماغی قوت کے کمال ہونے اور نجابت وسرداری کی عظیم دلیل ہے۔اسی سر انور کے سامنے دنیا کے عظیم طاقتیں وحکومتیں سرنگوں ہوئیں۔حضور پرنور ﷺ کی تشریف آوری کے بعد قیصر وکسری جیسے عظیم حکومتیں بھی نیست ونابود ہوگئیں اور پوری دنیا مصطفی جان رحمت ﷺ کے زیر قدم ہے۔

تاجدار کائنات ﷺ کی مبارک پیشانی کا ذکر کرتے ہوئے اعلی حضرت فرماتے ہیں

                 جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا               

           اس جبین سعادت پہ لاکھوں سلام

وہ عظیم پیشانی اقدس جس پر شفاعت کبری کا سہرا بندھا ہوا ہے۔وہ جبین انور جس کے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ کان مفاض الجبین,کان رسول ﷺ واسع الجبین وکان صلت الجبین آپ کی پیشانی اقدس کشادہ اور فراخ تھی۔ دوسری ایک روایت میں ہے کان رسول ﷺ أجلی الجبین آپ کی پیشانی مبارک روشن وچمکدار تھی۔پیشانی مبارک کے حسن کو بیان کرتے ہوئے ام المؤمنین حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جعل جبینہ یعرق وجعل عرقہ یتولد نورا فبہت,,پس آپ کی مبارک پیشانی پر پسینہ آیا اس عرق مبارک کے قطروں سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں اس حسین منظر کو دیکھ کر میں مبہوت ہوگئی۔میرا قلم یہاں رقص کررہاہے اور نوک قلم کا تقاضا ہے کہ فبہت کا ترجمہ مبہوت کے بدلے مدہوش ہونا سے کروں اس لئے کہ اس جمال جہاں آراء کو دیکھ کر کوئی حواس باختہ نہیں ہوتا بلکہ حسن کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن ہوکر مدہوش ہو جاتا ہے اسی نور ٹپکنے والی پیشانی دیکھ کر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔

       متی یبدو فی الداجی البہیم جبینہ           

                  یلح مثل مصباح الدجی المتوقد

رات کی اندھیری میں امام الانبیاء ﷺ کی پیشانی انور اس طرح چمکتی ودمکتی دکھائی دیتی ہے جیسے گھٹا ٹوپ تاریکی میں چمکتا چراغ۔اسی روشن پیشانی کے بابت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں

               لواحی زلیجا لو رأین جبینہ                 

            لأثرن بالقطع القلوب علی الأیدی

اگر حضرت زلیخا علیہا السلام کو لعن طعن کرنے والی خواتین خسروئے خوباں کے ماتھے کو دیکھ لیتیں تو انگلیوں کے بدلے دل وجگر کو کاٹ دیتیں۔اسی واقعہ کی اعلی حضرت یوں عکاسی کرتے ہیں

          حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں           

        سرکٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردان عرب

امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ عنہ اس چمکتے مگھڑئے والضحی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں

                چاند سے منہ پہ تاباں درخشاں درود       

       نمک آگیں صباحت پہ لا کھوں سلام

حضور سرور کونینﷺ کی ذات مقدسہ قدرت خداوندی کا عظیم شاہکار ہے۔ حضور ﷺ کا روئے مقدس جمال یزدانی کا آئینہ دار ومظہر اتم ہے۔ رب نے اپنی اس عظیم شاہکارکے تاباں مگھڑے کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مقدس میں فرماتا ہے“ قد نری تقلب وجہک فی السماء فلنولینک قبلۃ ترضاہا فول وجہک شطر المسجد الحرام “ہم دیکھ رہے ہیں باربار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف“

     کہیں اس روئے خوباں کا استعاراتی واشاراتی انداز میں بیان کرتے ہوئے کہہ رہا ہے والضحی واللیل اذا سجی“ قسم ہے چاشت کی طرح چمکتے ہوئے چہرۂ زیبا کی اور سیاہ رات کی طرح شانوں کو چھوتی ہوئی گیسوؤں کی۔

          صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعیں اسی روئے تاباں کو بکمال عشق ومحبت قرآن مجید کے ورق سے تشبیہ دیتے تھے اور فرماتے ہیں کأن وجہہ ورقۃ مصحف گویا حضور پرنور کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہے کیوں نہ ہو یہی وہ رخ انور ہے جس نے اللہ رب ذو الجلال کے حسن وجمال کے مشاہدے سے فیضیاب ہوکر خلق خدا کوبھی نور الہی سے مالامال کیا۔

         خادم رسول ﷺ جلیل القدر محدث سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ رخ انور کے حسن وجمال کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے کہتے ہیں ما رایت شیئا أحسن من رسول اللہ ﷺ کأن الشمس تجری فی وجہہ“ میں نے حضور ﷺ سے بڑھ کر حسین وجمیل کسی کو نہیں پایا گویا حضور پرنور کے رخ انور میں خورشید درخشاں محو خرام ہے۔حضرت جابر بن سمرہ کو بھی سن لیجئے وہ بیان کرتے ہیں کہ سلطان مدینہ سرور قلب وسینہ ﷺسرخ حلہ زیب تن فرمائے آرام کررہے تھے۔حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں“ رایت رسول اللہ ﷺ فی لیلۃاضحیان وعلیہ حلۃ حمراء فجعلت أنظر الیہ والی القمر فلہو عند واللہ أحسن من القمر‘‘ حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی آمنہ کے لعل کے چہرۂ انور کی زیارت کرتا بالأخر دل بے اختیار ہوکر عشق ومستی اور کمال وارفتگی میں مچل کر کہتا ہے کہ آمنہ کا لعل میرے نزدیک چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں۔اسی وجہ سے حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں

وأحسن منک لم تر قط عینی        

         وأجمل منک لم تلد النساء

خلقت مبرأ من کل عیب               

                   کأنک قد خلقت کما تشاء

آپ سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ سے جمیل تر کو جنم ہی دیا۔آپ کی تخلیق بے عیب ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آپ کے رب نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ کی صورت بنائی ہے۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ حضور پر نور ﷺکے حسن سراپا کو دیکھنے کی کافی کوشش کرتے لیکن بینائی کے کھوجانے کے خدشے سے دیکھ نہیں پاتے فرماتے ہیں لما نظرت الی انوارہ وضعت کفی علی عینی خوفا من ذھاب بصری“میں نے جب حضور پر وقار ﷺ کے انوار وتجلیات کا مشاہدہ کیا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی اس لئے کہ روئے منور کی تابانیوں وضیاپاشیوں سے کہیں میری بینائی نہ چلے جائیں۔اس حسن تقدس مآب کو دیکھنے کیلئے عشاق تڑپتے ہیں۔کیف ومستی اور درد وسوز کے عالم میں بلکتے ہیں کبھی تو جلوہ نصیب ہوگا یہی امید لگائے بیٹھتے ہیں۔کیونکہ صفحہ ء ہستی کی تمام تر رونقیں اس گل چیدہ کی مرہون منت ہے جو مبدأ کائنات بھی ہے۔اور باعث تخلیق کون ومکان بھی ہے علامہ اقبال قلندر لاہوری اسی بارگاۂ عالیہ میں عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے کہتے ہیں

   ہونہ ہو یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو              

         چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

  یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو            

              بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو

   خیمہء افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے               

         نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

اسی حسن پیکر کے خاطر مبدأ فیض نے اس کائنات آب وگل کی افزائش حسن کے لئے منتخب فرمایا۔بریلی کا مرد قلندر عشق ومحبت کا امام سرخیل عشاقان رسول ﷺگلہائے عقیدت یوں پیش کرتے ہیں

  یہ سمن یہ سوسن ویاسمن یہ بنفشہ سنبل ونسترن         

         گل سرو ولالہ بھرا چمن وہی ایک جلوہ ہراز ہے

  یہ صبا سنک وہ کلی چٹک یہ زباں چہک لب جو چھلک    

       یہ مہک جھلک یہ چمک دمک سب اسی کے دم کی بہار ہے

   وہی جلوہ شہر بشہر ہے وہی اصل عالم ودہر ہے           

           وہی بحر وہی لہر ہے وہی پاٹ ہے وہی دھار ہے

 وہ نہ تھا تو باغ میں کچھ نہ تھا وہ نہ ہو توباغ ہے سب فنا          

        وہ جان جان سے ہے بقا وہی بن ہے بن سے ہی بار ہے

(جاری)

 

رفیق احمد کولاری ہدوی قادری

  ریاستی صدر یس کے یس یس یف کرناٹک

 پرنسپل شمس العلماء عربک کالج۔توڈار

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter