عکس حیات ِاما م احمد رضا محدث بریلوی رحمۃاللہ علیہ

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ العزیز چودہویں صدی کے مجدد اور امام تھے۔ ۱۰/شوال ۱۲۷۲ھ/۱۴ جون ۱۸۵۶ء کو بریلی(یوپی) میں پیدا ہوئے، اور۲۵؍صفر ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء کو اس دنیاے فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے۔ ارسٹھ (۶۸) سالہ مختصر عمر میں آپ نے احیا و تجدید دین کے جو کارہاے نمایاں انجام دیے، دنیاے علم و ادب انگشت بدنداں ہے۔

          کون سا علم ہے جس پر امام احمد رضا نے قلم نہیں اٹھایا تفسیر وحدیث اور فقہ کے تو امام ہی تھے علم ریاضی، ہیئت، توقیت اور فلسفہ قدیمہ وجدیدہ(سائنس) پر بھی آپ کو مہارت تامّہ حاصل تھی۔پچاس سے زیادہ علوم و فنون میں آپ کی مطبوعہ غیر مطبوعہ تصانیف حواشی اور تعلیقات آپ کی جلالت علمی پر شاہد عدل ہیں۔آپ کے فتاوی کی بارہ ضخیم جلدیں منصہ شہودپرآچکی ہیں،جوجدیدترتیب و ترجمہ کے ساتھ۳۰؍جلدوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔

          آپ نے اپنی تصانیف میں جو احادیث نقل کی ہیں ان کودستیاب تصانیف سے اخذ کر کے فاضل جلیل حضرت مولانا محمد حنیف خاں مصباحی بریلوی نے مرتب کر کے ۱۰؍ جلدوں میں شائع کر دیا ہے، جن میں آخر کی تین جلدیں تفسیری مضامین پرمشتمل ہیں۔ یہ کتاب امام احمد رضا کے محدثانہ مقام کوسمجھنے کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

          یوں ہی فاضل نوجوان مولانا محمد عیسیٰ رضوی دیناج پوری نے امام احمد رضا اور علم حدیث کے نام سے چھ(6) جلدوں میں ایک مجموعہ احادیث مرتب فرمایا ہے، جس کی تین جلدیں رضوی کتاب گھر مٹیا محل دہلی سے شائع ہوچکی ہیں۔ باقی جلدیں منتظرطبع ہیں۔

          موصوف نے فتاوی رضویہ اور دیگر تصانیف کو سامنے رکھ کر احادیث کو لیا ہے اور فہرست موضوع کے اعتبار سے بنائی ہے۔یہ کتاب بھی امام احمد رضا کے محدثانہ مقام کو آشکارا کررہی ہے۔ہر ہر کتاب کا تعارف بھی مرتب نے قلم بند کردیا ہے جو ایک خاص چیز ہے۔

          امام احمد رضا سے متعلق یہ باتیں مزیدنوٹ کرنے کے لائق ہیں کہ آپ نے تقریباً چودہ سال کی عمر میں علوم مروّجہ سے فراغت پالی، اور مسند افتا پر بیٹھ کر فتوے کا کام شروع کردیا تھا۔ آپ نے تمام علوم اپنے والد گرامی عمدۃ المحققین حضرت مولانا نقی علی خاں بریلوی قدس سرہ (متوفی ۱۲۹۷ھ) سے ہی حاصل کیے۔ابتدائی تعلیم مولانا مرزا غلام قادر بیگ سنی بریلوی سے حاصل کی، اور ریاضی کی تعلیم مولا نا عبدالعلی رام پوری سے اور علم تکسیر وغیرہ میں تاج دار مارہرہ قطب ارشاد حضرت مولانا سید شاہ ابوالحسین احمد نوری (متوفی ۱۳۲۴ھ) سے استفادہ فرمایا۔

          آپ نے مدۃ العمر بھی کبھی مدرسہ یا اسکول میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل نہیں کی شہرسے باہر کہیں کسی مدرسہ میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتااسی لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کا علم لدنی تھا۔ بعض لوگ اس سلسلے میں بالکل بے بنیاد اور بے دلیل باتیں اپنی طرف سے گڑھ کر لکھتے اورصریح جھوٹ بولتے ہیں۔ انصاف پسند حضرات اور اہل علم وتحقیق کو کم از کم اس قسم کی سنی سنائی باتوں پر قطعا ً توجہ نہیں دینی چاہیے۔

          اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ چوں کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ ذمہ دار عالم تھے، مفتی شرع تھے، اور مجدد ملت بھی، اس لیے آپ نے وقت کے تمام ہی فتنوں کا سد ّباب کیا، اور تمام گمراہ فرقوں کا رد کرتے ہوئے مسلک اہل سنت و جماعت کی بھر پور تائید و حمایت فرمائی، یعنی اسلاف کرام اور بزرگان دین ہی کے مسلک کی ترجمانی کی۔

          مرزاغلام احمدقادیانی پنجابی نے جب نبوت کاجھوٹادعویٰ کیا تو سب سے پہلے آپنے ہی اس کا شدیدردفرمایااوراس کے خلاف متعددکتابیں تصنیف فرمائیں یوں ہی آپ کے صاحبزادگان اورخلفاوتلامذہ نے بھی اس فتنے کاڈٹ کر مقابلہ کیااوراس سلسلے میں تصانیف یادگارچھوڑیں۔

          اسی طرح جب روافض نے سر ابھارا، صحابہ کرام کی توہین کی، اپنے گمراہ کن عقائد کا پرچار کیا تواعلیٰ حضرت نے ان کا بھی رد کیا، اور متعدد کتابیں ان کے رد میں تصنیف کیں۔ یوں ہی شیعوں کے ایک فرقہ مفضِّلہ کا بھی ردفرمایا، جو تفضیلِ علی کا قائل تھایعنی حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو تمام صحابہ سے افضل مانتا تھا۔

          قرآن پاک کے تراجم توفارسی اوراردومیں بہت منظرعام پرآئے اورآرہے ہیں مگرآپ نے عشق وایمان میں ڈوب کر جوترجمہ قر آن کنزالایمان اپنے خلیفہ وتلمیذ صدرالشریعہ علامہ محمدامجدعلی اعظمی(متوفیٰ ۱۳۶۷ھ)[مصنف بہارشریعت فتاویٰ امجدیہ] کے ہاتھوں قلم بند کرایاہے وہ علوم معارف اورعشق ومحبت کاگنجینہ ہے۔ اس کی سطر سطر آپ کے علمی مقام و مرتبے کی سچی تصویر ہے۔اس ترجمے کو دیکھنے کے بعد تمام دیگر تراجم پھیکے نظر آتے ہیں۔

          آپ کا یہ ترجمہ ایک طرف اردو زبان و ادب کا شاہکار ہے تو دوسری طرف قرآن حکیم کی صحیح ترین ترجمانی کا منہ بولتا ثبوت بھی ، نیز ایجاز بیانی میں بھی یہ ترجمہ قرآن اپنی مثال آپ ہے۔

          یہ بات بھی توجہ کے لائق ہے کہ آج پوری دنیا میں کوئی ترجمہ قرآن کثرتِ اشاعت میں اس کا مقابل نہیں۔دنیا کی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔طویل تفسیری مباحث کوچندلفظوں میں سمیٹ کربیان کرنابڑے کمال کی بات ہے،اوراس کا ثبوت اہل علم کو ’’کنزالایمان‘‘میں جگہ جگہ ملے گا۔

          شعروادب میں آپ نے جو گل بوٹے کھلائے ہیں اور نعتیہ شاعری کے فروغ میں جیساکچھ نمونہ چھوڑا ہے، اہل علم عش عش کر اٹھتے ہیں اور وجدان جھوم جھوم جاتے ہیں۔

          جس کسی کو فن اور کمالِ سخن وری کا مشاہدہ کرنا ہو وہ آپ کے مجموعہ کلام حدائق بخشش (اول/ دوم) کو مطالعہ میں رکھے، اور فیصلہ کرے کہ کیسی کیسی نادر تشبیہات و استعارات سے آپ نے کام لیا ہے، ساتھ ہی عشق ومحبت رسول کی کیسی شمع جلائی ہے کہ ایک ایک شعر آتش عشق کو بھڑکاتااور تیز کرتا نظر آتا ہے۔ ذرا چند اشعار ملاحظہ کریں اور جذبہ تحسین کو مہمیز دیں:

طوبیٰ میں جو سب سے اونچی نازک سیدھی نکلی شاخ

مانگوں نعت نبی لکھنے کو روح قدس سے ایسی شاخ

کا نٹامرے جگر سے غم روزگار کا٭ یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو

 دنداں کا نعت خواں ہوں نہ پایاب ہوگی آب

ندی گلے گلے مرے آبِ گہر کی ہے

 وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں٭ تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

پھر کے گلی گلی تباہ ٹھو کر یں سب کی کھائے کیوں

دل کو جوعقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں

پوچھتے کیا ہوعرش پر یوں گئے مصطفےٰ کہ یوں

کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں

جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا

جس کو ہو دردکا مزا نا زِ دوا اٹھائے کیوں

وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں

یہی پھول خارسے دور ہے، یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

پل سے ا تا روراہ گز رکوخبر نہ ہو ٭جبر یل پَر بچھا ئیں تو پَر کوخبر نہ ہو

          حدائق بخشش پڑھتے جائیے اور سر دھنتے جائیے۔ وہ روانی وہ سلاست اور حسن ادا کی وہ کرشمہ آرائی کہ زبان و بیان کو بھی پسینہ آئے۔ آج کہا جاتا ہے کہ فن کاری اور شریعت کی پاس داری دونوں کا جمع ہونا ممکن نہیں یا بہت مشکل ہے۔ اس کے جواب میں مذکورہ اشعار پڑھیے اور پھر امام احمد رضا کا یہ شعر سامنے رکھیے جو حقیقت کی غمازی کرتا نظر آ رہا ہے:

جو کہے شعرو پاسِ شرع دونوں کاحسن کیوں کر آئے

لا اسے پیش جلوہ زمزمہ رضا کہ یوں

           امام احمد رضا کی حیات و خدمات کا تو ہر گوشہ اس لائق ہے کہ اس کو دیکھا پڑھا اور سبق حاصل کیا جائے،مگر امام احمد رضا کے تجدیدی کارنامے بطور خاص ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ تجدیدی کارناموں میں سرفہرست یہ بات آتی ہے کہ آپ نے پیارے آقا کی شان میں گستاخی کرنے اور اس کو پھیلانے والوں کو بخشا نہیں، اور کوئی بھی عاشق اپنے محبوب کی ناقدری برداشت نہیں کرسکتا، پھر بھی آپ نے جذبہ اصلاح کے پیش نظر توبہ ورجوع کی دعوت دی مگر صریح کفریات بکنے والوں نے جب توبہ ورجوع میں اپنی شان گھٹتی محسوس کی اور اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ (اسے گناہوں کی ضد چڑھ گئی)کی بناپر،اَنا کا شکار ہو گئے اور توبہ ورجوع سے روگردانی کی تو پھر ان پر شرعی حکم لگانا آپ کی دینی ذمہ داری تھی، جسے امام احمد رضا نے بہ احسن وجوہ یعنی اچھی طرح نبھایا۔ بس یہی بات بعض لوگوں کو بڑی ناگوار گزری، اور طرح طرح کے الزامات لگانا شروع کردیے۔

          مولانا کوثر ؔنیازی جوایک غیر جانب دار شخصیت کے حامل تھے،لیکن پرکھنے اور سوچ سمجھ کر بات کرنے کے عادی تھے،تحریر کرتے ہیں اور سچی بات کہتے ہیں:

          ‘‘کہا جاتاہے کہ امام احمد رضا بہت متشددتھے، انھو ں نے اپنی کتابوں میں بڑے بڑے علما اورا کابر کو کافر ٹھہرایاہے؛مگرمیں کہتاہوں یہی ایک بات توا نھیں دوسرے مکاتب فکر کے مقابلے میں ممیزومشخّص(یعنی ممتاز)کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر لوگ انہیں صرف بریلوی نامی ایک فرقے کا بانی سمجھتے ہیں،حالاں کہ وہ اپنے مسلک کے اعتبارسے صرف حنفی اور سلفی (یعنی اسلاف کرام کے نقش قدم پر)ہیں اوربس۔ ان کے مقابلے میں جن لوگوں کو دیوبندی کہا جاتا ہے،فقہی مسلک اور اکثر و بیش تردوسرے مسائل میں وہ بھی وہی نقطہ نظر رکھتے ہیں جو مولانااحمد رضا خان بریلوی کا ہے، پیری مریدی ان کے ہاں بھی پائی جاتی ہے،فیض قبور کا وہ بھی اعتراف کرتے ہیں،عدم تقلید(غیر مقلدیت) کے وہ بھی مخالف ہیں،امام ابوحنیفہ کی فقہ کو دوسرے تمام فقہی اصولوں پر وہ بھی ترجیح دیتے ہیں۔ اصل جھگڑا یہاں سے چلا کہ ان کے بعض اکابر کی خلافِ احتیاط تحریروں کو امام رضا نے قابلِ اعتراض گردانا،اور چوں کہ معاملہ عظمت رسول کا تھا۔ توہین رسول ﷺ کی بنیاد پر انھیں فتووں کا نشانہ بنا یا۔دیکھا جائے تو یہی فتوے امام بریلوی اور ان کے مکتب فکر کے جداگانہ تشخص کا مدار ہیں۔ جس تشدد کی دہائی دی جاتی ہے وہی ان کی ذات کی پہچان اور پوری حیات کا عرفان ہے۔ وہ فنا فی الرسول تھے، اس لیے ان کی غیرت ِعشق احتمال کے درجے میں بھی توہین رسول کا کوئی خفی سے خفی پہلو بھی برداشت کرنے کو تیار نہ تھی۔ دم آخر یں اپنے عقید ت مندوں اور وارثوں کو جو وصیت کی وہ بھی یہی تھی کہ:

          ’’جس سے اللہ و رسول کی شان میں ادنی توہین پاؤ، پھر وہ تمہارا کیساہی پیارا کیوں نہ ہو، فوراً اس سے جدا ہو جاو، جس کو بارگاہ رسالت میں ذرا بھی گستاخ دیکھو، پھر وہ کیسا ہی بزرگ معظم کیوں نہ ہو اسے اپنے اندر سے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو‘‘۔(وصایا شریف)

(امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت ،ص ۱۹، از: مولانا کوثر نیازی ، مطبوعہ رضا اسلامک مشن بنارس)

          گویا امام احمدرضا عشق رسالت کے داعی تھے اور خود بھی بڑے سچے عاشق رسول تھے۔ وہ فرماتے ہیں؂

جان ہے عشق مصطفےٰ روز فزوں کرے خدا

جس کو ہو درد کا مز ا نا زِ دوا اٹھائے کیوں

          چناں چہ آپ نے عشق کے پر چار اور دشمنانِ مصطفےٰ کی سرکوبی میں کسی لومۃِ لائم کی پرواہ نہ کی اپنی عزت و آبرو کی بھی پرواہ نہ کی، بس اپنے محبوب محبوبِ ربُّ العالمین کی مدح و ثنامیں رطب اللسان رہے۔ انھیں کاگن گاتے رہے، اور ساری زندگی عظمت مصطفےٰ سے کھیل کرنے والوں، ان کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں سے نبرد آزما اور برسر پیکار رہے۔ دراصل آپ کا مطمح نظر یہ تھا کہ؂

فَإنّ أَبِی وَ وَالِدَہُ وَ عِرضِی ٭لِعِرضِ محَمّدٍ مِنکُم وِقَاءُ

          یعنی میرے باپ دادااور میری عزت و آبرو،سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کے لیے ڈھال ہیں۔

          یہ عشق ہی کی کرشمہ سازی تھی کہ زندگی بھر آپ سنت رسول ہی کی دعوت دیتے رہے اور خود بھی سنتوں کے سخت پابند تھے، مردہ سنتوں کا زندہ کرنا بھی آپ کا بڑا کارنامہ ہے، جوسنتیں متروک ہو جاتی ہیں اور شریعت کے جن مسائل پرعمل ترک کر دیا جاتا ہے، ان کی تجدید اور احیا آسان کام نہیں ہوتا،پورے ماحول سے ٹکر لینی پڑتی ہے۔ عوام تو عوام اہل علم سے بھی معاملہ پڑتاہے جن کی بے توجہی سے یا کسی مصلحت یا مداہنت کی وجہ سے سنتیں متروک ہو جاتی ہیں تو پھر ان کی اَنا کا بھی مسئلہ آڑے آتا ہے اور علم کا طمطراق بھی ان کی پشت پناہی کے لیے میدان میں اتر آتا ہے۔

          جمعہ کی اذان ثانی کا خارج مسجد کرا ناامام احمد رضا کا ایسا ہی کارنامہ ہے جس کے لیے انھیں بڑے جاں گسل حالات سے دوچار ہونا پڑا لیکن فتح آخر میں عشق اور ہمت مردانہ کو ہی حاصل ہوئی، کیوں نہ ہو کہ امام احمدرضا عشق میں کامل تو تھے ہی علم وفن کے بھی ایسے بادشاہ تھے کہ ان کے سامنے نہ ان کے عہد میں کوئی آسکا، نہ ہی آج تک ان کا ہم پلہ کوئی نظر آیا۔

          امام احمدرضا سنی تھے، اہل سنت کے امام تھے اور سنتوں کے فروغ میں ہمہ تن مصروف بھی۔ آپ کی زندگی کا گوشہ گوشہ اس کا گواہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدعات و خرافات اور غلط و غیر شرعی رسم و رواج کے سخت مخالف تھے۔ بعض لوگ جو ان کا رشتہ بدعت سے جوڑتے ہیں وہ سخت غلط فہمی کے شکار ہیں یا جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں اور شرماتے بھی نہیں۔ ایسے ہی لوگوں پرتنقید کرتے ہوئے مولانا کوثر نیازی رقم طراز ہیں:

          ’’کیا ستم ظریفی ہے کہ جور دبدعات میں شمشیر برہنہ تھااسے خود حامی بدعات قرار دیا گیا، ان کے افکار وفتاویٰ کا مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ جتنی سخت مخالفت، خلاف پیمبر راہ گزینی (یعنی نبی کے راستے کے خلاف چلنے)کی انھوں نے کی شاید ہی کسی اور نے کی ہو۔ ان کے ایک معاصر خواجہ حسن نظامی دہلوی نے ’’مرشد کو سجدہ تعظیمی‘‘کے نام سے ایک کتا بچہ لکھا تو امام احمدرضانے’’حرمت سجدہ تعظیمی‘‘کے نام سے اس کا جواب لکھا اور سو سے زیادہ آیات واحادیث سے اسے حرام ثابت کیا۔‘‘

(امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت ،ص ۱۸، از: مولانا کوثر نیازی ، مطبوعہ رضا اسلامک مشن بنارس)

           لیکن افسوس کہ آج قبر کے سوداگروں، ہنود اور بعض جاہلوں کے غلط عمل کو امام احمد رضا بریلوی کی طرف منسوب کرنے کا گھنونا کھیل کھیلا جارہا ہے، اور انھیں بدنام کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔ الحمد للہ اب مطلع صاف ہورہا ہے ،حقائق سامنے آرہے ہیں اور انصاف پسند حضرات اعتراف حقیقت پر مجبور ہورہے ہیں۔ قبروں پر چراغاں اور چادر کے متعلق موصوف لکھتے ہیں:

          ’’اسی طرح ہمارے یہاں قبروں پر چراغاں کیا جا تا ہے مگر امام احمد رضا قبروں پر چراغ جلانے کوبدعت قرار دیتے ہیں، صرف اس صورت کے جواز کے قائل ہیں کہ جب قبر راستے میں ہو یا مسجد میں اور اس کی روشنی سے مسافروں اور نمازیوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ آج کل مزاروں پر منوں اور ٹنوں کے حساب سے چادریں چڑھانے کا رواج ہے اور یہ چادر میں عام طور پر وزیروں اور امیروں کی دستار بندی میں صرف کی جاتی ہیں،(یا پھر انھیں آمدنی کا ایک ذریعہ بنا لیا جاتا ہے)۔ امام رضا قبر پر صرف ایک چادر چڑھانے کی حد تک اس کے جواز کے قائل ہیں، ڈھیروں چادریں چڑھانے کو بطور رسم جائز نہیں سمجھتے ،لکھتے ہیں:

          ’’جو دام اس میں صرف کریں ولی اللہ کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لیے محتاج کودیں۔‘‘

           ناواقف لوگ آج کل کی قوالیوں کو بھی امام رضا کے مکتب فکر کی پہچان قرار دیتے ہیں، مگر آپ نے اپنے رسالے مسائل سماع میں ان قوالیوں کو نا جائز ٹھہرایا ہے جنھیں مزامیر کے ساتھ سناجاتا ہے۔

(امام احمد رضاایک ہمہ جہت شخصیت، ص:۱۸،از مولاناکوثرنیازی، مطبوعہ رضاسلامک مشن، بنارس)

          غرضے کہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضانے اپنے دور میں پائی جانے والی تمام خلاف سنت روایات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور تمام بدعات و خرافات کے خلاف قلمی جہاد فرمایا۔تفصیل کے لیے مولانا یٰسین اختر مصباحی کی کتاب ’’امام احمدرضا اور رد بدعات ومنکرات‘‘ کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

          اسی مجدد و مصلح امت کے ارشادات و تعلیمات کا ایک مختصر مجموعہ ارشادات اعلیٰ حضرت بھی ہے جس کو عام فہم انداز میں تلخیص وتر جمہ کے ساتھ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی گئی ہے جو راقم الحروف کے ابتدائی دور کے مطالعہ کا خلاصہ ہے، اسے بھی عام کرنے، گھر گھر پہنچانے کی ضرورت ہے، تا کہ اس مجددِبرحق اور امام عشق و محبت کی تعلیمات عام ہوں اور قوم کی اصلاح بھی ہو سکے۔

          میں نے اپنے تازہ مقالے ’’امام احمد رضا اور ان کی تعلیمات‘‘میں امام موصوف کے اصلاحی اور تجدیدی کارناموں کا ایک مختصر خاکہ پیش کیا ہے جس سے انصاف پسند حضرات بخوبی اندازہ لگا سکیں گے کہ امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ کی فکر کیا تھی اور ان کا موقف ومسلک کیا تھا۔ امید کہ سنی سنائی باتوں کے مقابلے میں حقائق کو اہمیت اور ترجیح دی جائے گی۔

          اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کے یہ افکار ان عقیدت مندوں کے لیے بھی درس عبرت و قابل ِعمل ہیں جو اعلیٰ حضرت سے عقیدت و محبت کا تو خوب اظہار کرتے اور ان کے مسلک کا نعرہ بھی لگاتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ آج افکار رضا کو عام کرنے کی بھی ضرورت ہے اور ان پرعمل کرنے کی بھی۔

٭٭٭

 

از: مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری

بانی رکن المجمع الاسلامی، مبارک پور

رابطہ: 9838189592

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter