اصلاح معاشرہ میں اعلی حضرت کا کردار

چودہویں صدی ہجری کی  فقیدالمثال، در نایاب اور مایہ ناز  عبقری شخصیت سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمہ اللہ تعالی اپنی گوناگوں خدمات جمیلہ اور مساعی جلیلہ کے باعث محتاج تعارف نہیں ۔گزشتہ چند صدیوں کے مفسرین، محدثین، فقہاء اور مدبرین کی فہرست کو ملاحظہ کیا جائے  تو دور دور تک آپ کی نظیر نہیں ملتی، شرک کی زہریلی فضا میں عظمت توحید کا علم بلند کرنے والی ذات کا نام اعلی حضرت ہے ، توہین رسالت کے پرآشوب ماحول میں محبت رسول کی قندیلیں فروزاں کرنے والی شخصیت کا نام اعلی حضرت ہے ،  تنقیص اولیا کی مسموم فضا میں توقیر  اولیا کی خوشبو بکھیرنے والے عالی مرتبت شخصیت کا نام اعلیٰحضرت ہے اور خرافات کے انبار سے اسلامی قدروں کے نگینے تلاش کرنے والی در نایاب شخصیت کا نام  اعلیٰحضرت ہے ، 

بلاشبہہ آپ کی دینی،ملی ، سماجی فکری اور اعتقادی کارگزاریوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ  آپ تن تنہا ایک انجمن اور انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت سے  قدم قدم پر ہماری رہنمائی کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔ علماء اعلام اور دانشوران عظام کے مطابق   علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ کے بعد اب تک اتنی کثیرالتصانیف شخصیت دنیا میں پیدا نہیں ہوئی ،روایت کے مطابق آپ 24 گھنٹوں میں ڈھائی سے تین گھنٹے ہی سویا کرتے اور مسلسل اٹھارہ گھنٹے  فتاویٰ اور دیگر موضوعات پر آپ کا قلم سیال جوش مارتے رہتا ، آپ کی چھوٹی بڑی تمام کتابوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار  ہے، آپ نے اپنی  زندگی کا   ہر لمحہ اشاعت اسلام اور خدمت دین میں صرف فرما دیا ،اور یہ آپ کی بلند پایہ  خدمات ہی کا نتیجہ ہے کہ  آپ  کے وصال کو ایک صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی آپ کے افکار کی خوشبو دن بدن پھیلتی جارہی ہے، آپ کے پاکیزہ خیالات کی کرنوں سے دلوں کے آفاق روشن و تابندہ ہو رہے ہیں ، آپ  کے علم کی جامعیت، فنی بصیرت  اور تفقہ کے نور سے ایک عالم اکتساب کر رہا ہے  اور ان شاءاللہ تا ابد کرتا رہے گا۔ 

سرکار اعلی حضرت نے اپنے بیش قیمتی فتاوی ، افکار اور کتابوں سے جہاں پوری امت میں پیدا ہونے والے نت نئے فتنے ، فسادات ،  گمراہیت اور ناموس رسالت پر اٹھنے والے خیالات فاسدہ اور ارادات رذیلہ پر نکیل  کس کر باطل کی سرکوبی فرمائی، وہیں آپ نے  معاشرے میں جنم لینے والے بے شمار فرسودہ رسومات اور اسلام کوبدنام کرنے والی بے جا  تقریبات سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے اصلاح معاشرہ  میں بھی نہایت ہی اہم اور قابل ستائش کردار ادا کیا، اس مختصر سے مضمون میں، جن کا احاطہ کرنا کوزے میں سمندر کو سمونے کے مانند ہوگا، لیکن اس حوالے سے آپ کی چند   اہم خدمات کو قارئین کے نذر کرتا ہوں  اور اللہ کی بارگاہ میں اپنے اس عمل قصیر  پر جزائے خیر کا متمنی اور مرتجی ہوں۔

مزارات پر عورتوں کی حاضری معاشرے کے لئے ایک زہر ہلاہل ، 

عصر حاضر میں مغربی تہذیب  اسلامی تہذیب پر بڑی ہی تیزی سے غالب ہوتی جا رہی ہے ، جس کے نتیجے میں  مسلم عورتیں  اسلام اور شریعت سے بالاتر ہو کر آزادانہ طرز حیات اور مغربی بودوباش اور رہن سہن کی طرف آمادہ ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں بے حیائی اور بے پردگی دن بدن عام ہوتی جا رہی ہے ، مسلم خواتین کا  سڑکوں ،بازاروں ،پارکوں اور تفریحی مقامات پر بے پردہ گھومنا اسلامی تقدس کو پامال کر رہا ہے ، اس آزادانہ طرز زندگی اور مغربی بود و باش سے متاثر ہوکر مزارات پر بھی عورتوں کا بڑھتا ہوا سیلاب ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ، جو کہ  بدنظمی، بے حیائی اور فتنہ و فساد کا باعث  ہے۔ 

آئیے اس حوالے سے سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا ارشاد مبارکہ ملاحظہ کریں جو عورتوں کی مزارات پر حاضری اور ہر قسم کی بے حیائی کے سدباب کے لیے کافی ہے۔

اعلی حضرت سے مزارات پر عورتوں کی حاضری کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ علیہ الرحمۃ رقمطراز ہیں ، 
غنیہ میں ہے  یہ نہ پوچھ کہ عورتوں کا مزارات پر جانا جائز ہے یا نہیں،  بلکہ یہ پوچھ کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے ، اللہ کی طرف سے اور صاحب مزار کی طرف سے، جس وقت گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہو جاتی ہے اور جب تک واپس آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں،  آپ مزید لکھتے ہیں کہ سوائے روضہ انور  ﷺ کے عورتوں کو کسی مزار پر جانے کی  اجازت نہیں ، وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ، عظیمہ اور قریب بواجبات ہے  اور قرآن نے اسے مغفرت ذنوب کا تریاق بتایا ہے ، 

الملفوظ  الکامل جلد دوم ص 240۔ 

بلاشبہ مزارات اولیا مہبط  انواروتجلیات اور باران  رحمت الہی ہوا کرتے ہیں، یہاں ہر وقت سعادات وبرکات کی خیرات تقسیم ہوتی ہے ،جب عورتوں کو اتنی بابرکت جگہوں پر جانے کی ممانعت ہے تو ذرا اندازہ لگائیں کہ انھیں بے حجاب بازاروں،سڑکوں اور عیاشیوں کے اڈوں پر  گھومنا یہ  اسلام میں کیسے درست ہو سکتا ہے؟ 
لیکن افسوس  کہ ہم اور ہماری قوم مغربی کلچر کے رنگ میں اس قدر رنگ چکے ہیں کہ ہمیں اپنے مذہب کے فرامین کا بھی پاس و لحاظ نہیں، لہذا اگر سرکار اعلی حضرت کے اس فرمان پر عمل کیا جائے تو ہم معاشرے سے اس بے حیائی کو ختم کرکے   اسلامی تہذیب و ثقافت پر احسن طریقے سے کاربند ہو سکے نگے۔

ناچ گانے اور ڈھول تاشے کی حرمت۔ 

ابتدا ہی سے اہل مغرب اپنی تمام تر حیلہ بازیوں اور ریشہ دوانیوں سے مسلمانوں کے دلوں سے خوف خدا اور محبت رسول کو نکال پھینکنے کے درپے ہیں  ، اور اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے انھوں نے ڈھول تاشے کو بطور آلہ استعمال کیا اور افسوس کہ وہ اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہو رہے ہیں، جس کا کھلا نقصان   آج مسلم معاشرے میں دیکھا جارہا ہے کہ ہمارے کمسن بچے اور بچیاں حتی کہ بہت سے عمر رسیدہ اشخاص بھی ناچ گانے میں اس قدر مستغرق ہو چکے ہیں ، جیسے انھیں اسلامی طور طریقے سے کوئی مطلب ہی  نہیں، ہماری شادیوں اور دیگر تقریبات میں بعض جگہ ناچ  گانے ، ڈھول تاشے، آتش بازی اور پٹاخے  اس قدر عام ہو چکے ہیں ، گویا کہ انھیں تقریب کا حصہ گمان کیا جا رہا ہے  کہ اس کے بغیر  محفل بے کیف اور تقریب بے رونق نظر آتی ہے (معاذ اللہ رب العالمین) 
کل تک ایک مرد مومن جن چیزوں کو کرنے سے   زمین میں دھنس  جانا زیادہ  پسند کرتا تھا، افسوس کہ آج انھیں بے حیائیوں کو فیشن کا نام دیا جا رہا ہے۔

در حقیقت ہم اس بات سے نا آشنا ہیں  کہ اس کے پیچھے یہودی لابی اور عیسائی باطل قوتیں کام کر رہی ہیں  ،جو ہمارے اندر سے عشق رسول،  مذہبی سوز اور جذبہ وفاداری کو نکال کر ہمارے ایمانی گلستاں  کو پزمردہ کر کے ہمارے قلوب و اذہان کو ایمان سے خالی اور عاری کر دینا چاہتے ہیں۔
مجدد قوم و ملت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ تعالی  قوم کی اس غلط روش پر سخت تنبیہ کرتے   ہوئے رقم طراز ہیں۔ 

یہ گانے باجے کہ ان بلاد میں معمول اور رائج ہیں بلاشبہہ ممنوع و ناجائز ہیں ،  خصوصا وہ  ملعون و ناپاک رسم کہ  بے تمیز احمق جاہلوں نے  شیاطین  ہنود ملاعین بے بہبود سے سیکھی  ،یعنی مختص گالیوں کے گیت گانا  اور مجلس کے حاضرین و حاضرات کو لچھے دار سنانا، سمدھیانہ کی  عفیف اور پاک دامن عورتوں کو الفاظ زنا  سے تعبیر کرنا  کرانا ،  خصوصا اس بے جا رسم کا مجمع زنان میں ہونا، اس ناپاک فاحشہ  حرکت پر ہنسنا قہقہہ لگانا،یہ وہ شنیع گندی مردود رسم ہے،جس پر   صدہا  لعنتیں  اللہ کی اترتی ہیں،اس پر راضی ہونے والے اور اپنے یہاں اس کا انسداد نہ کرنے والےفاسق و فاجر مرتکب کبائر مستحق غضب جبار و عذاب نار ہیں  ۔ 
(ہادی الناس فی رسوم الاعراس ص 2 ۔) 

 آپ مزید لکھتے ہیں کہ جن شادیوں میں یہ حرکتیں ہوں مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس میں ہرگز شریک نہ ہوں ،آتش بازی جو خاص طور پر شادی اور شب برات میں رائج ہے ، بے شک  حرام اور پورا حرام ہے کہ اس میں تضیع مال ہے ، قرآن پاک میں ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے ۔ 

(ہادی الناس فی رسوم الاعراس صفحہ نمبر 3۔) 

جسموں اور درختوں پر کسی پیر بزرگ اور شہیدوں کا رہنا ۔ 

گاؤں، دیہاتوں اور بعض شہروں میں آج بھی یہ توہم  پرستی پائی جاتی ہے کہ فلاں درخت پر فلاں  بابا یا شہید رہتے ہیں، لوگ ہر جمعرات کو اس درخت پر حاضری لگاتے، اگربتی جلاتے نیز فاتحہ دلاتے ہیں اور اس معاملے میں عورتیں زیادہ تر مبتلا ہیں،  بلاشبہ اولیاے کرام کی شان اور عظمت مقام پر قرآن پاک  شاہد ہے،
 لیکن اولیاے کرام کے جسموں کے درختوں پر آنے والے   اعتقادات باطلہ کا گمان بھی رکھنا نہ  صرف اپنے آپ کو گمراہی کی دلدل میں ڈھکیلنے کے مانند ہے ، بلکہ مذہب اسلام میں افراط و غلو سے کام لے کر  جہنم میں جانے  کا سامان مہیا کرنا ہوگا۔ 

معاشرے میں پھیلی اس برائی کے خاتمے کے لیے  سرکار اعلی حضرت کا وہ ارشاد مبارک ہماری اور پوری امت کی اصلاح کے لئے کافی ہو گا ۔ 
آپ لکھتے ہیں کہ یہ سب واہیات، خرافات اور جاہلانہ حماقت وبطالات ہیں ان کا ازالہ لازم ہے۔

(احکام شریعت اول صفحہ نمبر 46 ) 

عورتوں کا مسجد میں جاکر طاق بھرنا۔ 

اکثر جگہوں پر شادی وغیرہ کے موقع پر عورتیں  مسجد میں جاکر طاق بھرتی ہیں، راستے پر خرافات بکتی  اور غیر اسلامی حرکات کا ارتکاب کرتی ہیں ،ویسے تو نیاز کے لیے مسجد جانا ضروری نہیں لیکن اگر جانا بھی ہو تو اس میں عورتوں ہی کی کیا تخصیص  ؟ 
لیکن افسوس صد افسوس کہ اس بدعات شنیعہ  میں بوڑھی، جوان اور کنواری سبھی  شامل ہوکر گیت  وغیرہ گاتی ہوئی جاتی ہیں،  یہ طریقہ بھی ناجائز و حرام اور منافی اسلام ہے۔ 
اعلیٰحضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی   لکھتے ہیں کہ یہ سب رسوم جہالت و حماقت اور ممنوعات و بےہودہ ہیں ۔ 
(فتاوی رضویہ جلد 9 ص 216 ) 

بے حد اختصار سے کام لیتے ہوئے چند چیزیں سپرد قرطاس  کرنے کی سعادت حاصل کی،اگر  اعلی حضرت  علیہ الرحمہ کے فتاویٰ اور کتابوں کا امعان نظر  سے مطالعہ کیا جائے تو اصلاح معاشرہ  کے حوالے سے  بے شمار باتیں  پڑھنے کو ملیں گی ، جس سے  اس بات کا بخوبی علم ہوگا کہ اعلیٰحضرت ایک عظیم مفکر و مدبر قرآن و سنت کے ماہر اور ایک بڑے سائنسداں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم  الشان مصلح قوم وملت   بھی ہیں، دور حاضر میں جن کی تعلیمات و تحریروں کی روشنی سے جہاں ہم اپنے ایمان و عقیدے کو درست   کرسکتے ہیں تو وہیں معاشرہ میں پھیلی تمام برائیوں کا انسداد و اختتام بھی کر سکتے ہیں۔ 

 اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولی  ہمیں سرکار اعلی حضرت کے روحانی فیوض و برکات سے مستفیض و مستیز فرمائے ، عوام الناس کو تعلیمات اعلی حضرت کی طرف تیزی سے راغب  فرمائے اور ہمیں مسلک اہل سنت یعنی مسلک اعلی حضرت پر تا ابد قائم و دائم رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ 
آمین بجاہ سید المرسلین  صلی اللہ علیہ وسلم ۔ 

محمد احمد حسن  امجدی ۔

ریسرچ اسکالر  البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ۔ 
8840061391

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter