حافظ ملت:عمل پیہم اورحسن اتحاد کے عظیم پیکرتھے.

بموقع یوم وصال یکم جمادی الآخر.

سرزمین بھوجپور،مرادآبادیوپی کی ایک دین دارگھرانے میں سال ۱۸۹۴ء کو ایک اقبال مند بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ اہل خاندان خوشی سے پھولے نہیں سماتے اوراپنے وقت کے مشہور بزرگ عالم شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے نام پراپنے بچے کا نام ’’عبدالعزیز‘‘ رکھتے ہیں۔اُن کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہمارایہ لاڈلا، لخت جگر بھی علم دین حاصل کرے اور حضرت محدث دہلوی کی طرح عالم دین بننے کے ساتھ دین کی خدمت پرمامورہو،کلمہ حق کی سربلندی کے لیے خودکو وقف رکھے،اور اللہ و رسول کی تعلیمات واحکام کودنیا کے گوشے گوشے میں پہنچائے۔لہٰذاخلوص وللہیت پر مبنی اہل خاندان کی کوششیں کام آئیں اوروہ وقت بھی آیاکہ یہ بچہ نہ صرف عالم دین بنا، بلکہ دین اسلام کی خدمت کے لیے اپنی پوری زندگی وقف بھی کردی۔ اُس عظیم اور مثالی بچے کو آج دنیا عبد العزیزکے نام اور حافظ ملت کے لقب سے جانتی اور پہچانتی ہے۔

حافظ ملت علیہ الرحمہ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ جس اخلاص وللہیت سے خاندان والوں نے اُن کانام عبد العزیز رکھا اور جس نیک نیتی کے ساتھ اُنھوں نے اُن کی تعلیم وتربیت کی، وہ اخلاص وللہیت اور نیک نیتی اُن کی زندگی کا خاصہ اور لازمہ بن گئی۔ جس کا ظہوراُس وقت سے ہونا شروع ہوا جب صدرالشریعہ مولانا امجدعلی علیہ الرحمہ نے حافظ ملت کو سرزمین مبارک پور بھیجنے کی خواہش ظاہر کی۔یہ سن کروہ اپنے استاذ محترم سے مؤدبانہ عرض گزارہوئے کہ حضور!میں نے ملازمت کے لیے علم دین حاصل نہیں کیاہے۔اس پر صدرالشریعہ نے کہا کہ مولانا! ہم نے آپ سے ملازمت کرنے کے لیے کب کہا ہے؟ ہم توآپ کو دین متین کی خدمت کے لیے بھیج رہے ہیں ۔

یہاں پرایک بات واضح کرتا چلوں کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ جب مبارک پور تشریف لائے تواُس وقت یہاں ایک ہی جامع مسجد تھی اور ایک ہی مدرسہ بھی تھا۔اُس کی تعمیر وتوسیع میں ہر مکتب فکر کے افرادشامل تھے اور اُس مدرسے میں مختلف افکار وخیالات رکھنے والوں کے بچے تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔لیکن اُنھوں نے اپنی ذاتی تشخصات اور دینی شناخت قائم رکھتے ہوئے جس حکمت عملی سے کام لیاوہ قابل تحسین ہے۔مختصریہ کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کوجس خدمت دین کے لیے اُن کے استاذمحترم نے بھیجاتھاوہ اس پر کھرّے اُترے، اورلوگوں کو ’’زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے‘‘ آرام کا انوکھا پیغام دیا اورخود بھی اپنی زندگی میں یہ گرہ باندھ لی، پھر پیچھے مڑ کرکبھی نہیں دیکھا ۔

 حافظ ملت علیہ الرحمہ کی زندگی کا یہ پہلو بھی سبق آموز ہے کہ اُنھوں نے نہ توکسی اختلاف کی طرفداری کی،اور نہ ہی کسی اختلافی جھمیلے میں پڑے۔ چوں کہ اُنھیں دینی، علمی اورتعمیری کام سے فرصت ہی نہیںتھی کہ وہ دنیاداری، فتنہ پروری اور تخریب کاری میں پڑتے۔اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ’’ دارالعلوم اہل سنت مصباح العلوم‘‘ نے نظریہ ساز ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور الجامعۃ الاشرفیہ کے نام سے پورے برصغیرمیں مشہورومعروف ہوا۔اس ادارینے پہلے ہی دن سے اپنی ذاتی تشخصات،دینی تحفظات، تعمیرمعاشرت اور احترام انسانیت میں جو نمایاں کرداراداکیاہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ 

اسی دوران حافظ ملت علیہ الرحمہ کوایک عظیم امتحان سے بھی گزرنا پڑا کہ کچھ اکابر اُن سے ناراضـ ہوگئے، یہاں تک کہ اُن کی حمایت ونصرت سے دستبرداری کا اعلان بھی کردیامگر ایسے نازک ترین حالات میں بھی حافظ ملت نے صرف صبرواستقلال کاعمدہ نمونہ پیش کیا، بلکہ انتہائی فراخدلی کے ساتھ سب کچھ برداشت توکرلیا، لیکن احترام اکابر میں ایک حرف غلط بھی اپنی زبان پر نہ آنے دیا۔حالاںکہ معاندین ومخالفین نے اس موقع کاپورا پورا فائدہ اٹھانے کی بڑی کوششیں کیں اوریہ چاہاکہ حافظ ملت اپنے مقصد سے دور ہوجائیں مگر اِن تمام باتوں میں اُلجھنے کے بجائے اور معاندین ومخالفین کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کے بجائے وہ اپنے مشن کی تکمیل میں لگے رہے اوراِس طرح اپنے اس قول کو سچ ثابت کردکھایا کہ ہر مخالفت کا جواب کام ہے ۔

 حافظ ملت علیہ الرحمہ کی زندگی کا قائدانہ رُخ بھی قابل عبرت ہے کہ اُنھوں نے ایسے علما وفضلا کی ایک قابل رشک ٹیم تیارکی جو اپنے اپنے علم وفن میں بہت ہی ماہر اوربڑے ہی لائق وفائق تھے،اوراُن کے درمیان واضح طورپر علمی تفاوت ہونے کے باوجود جس حکمت عملی اورہنرمندی سے اُن کو ایک دھاگے میں پروئے رکھا،اس کی مثال بھی بڑی مشکل سے ملے گی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی پوری زندگی سیرت نبوی کا آئینہ دار ہونے کے ساتھ صحابہ کرام اور سلف وصالحین کی یادگارنظر آتی ہے کہ ہمہ وقت رضائے الٰہی پیش نظررہی، اللہ ہی کے لیے محبت اور اللہ ہی کے لیے دشمنی سے سمجھوتہ نہیں کیا،اور جب جہاں جیسی ضرورت پیش آئی، حکمت عملی اور موعظت حسنہ کو بروئے کارلانے میں بھی پیچھے نہیں رہے، نیز لاکھ آپسی اختلاف ہونے کے باوجوداتحاد واتفاق کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا اور اپنے اس قول پر سختی سے عمل پیرارہے کہ اِتحادزندگی ہے اور اختلاف موت۔ پھرسب سے بڑی بات یہ کہ خود بھی اپنا رشتہ کبھی اللہ ورسول کے فرمان سے منقطع نہیں رکھا،چاہے خوشی کا موقع ہو چاہے غم کا۔ بہرحال! صبروشکر کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا،اور ہراہل ایمان کو اِس بات کی تلقین بھی کرتے رہے کہ مسلمانو! تمہاری ہوا کا رخ وہی گنبد خضریٰ ہے، تمہارا مقصودوہی تاجدارمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تمہاری مشکلات کا حل اُنھیں کی نظر کرم اوراشارہ ابروپر موقوف ہے۔

تمہارے مقاصد کا حصول اُنھیں کی تعلیم پر عمل ہے جس کو مسلمان فراموش کرچکے ہیں۔ (ارشادالقرآن)

چنانچہ آج حافظ ملت کی شخصیت اور الجامعۃ الاشرفیہ بالعموم جملہ علما وفضلا اور بالخصوص فرزندان اشرفیہ کے لیے ایک نتیجہ خیز پیمانہ عمل ہے کہ اگراُنھوں نے علم دین حاصل کیاہے توبہرحال دین متین کی تبلیغ واشاعت میں مخلص بنیں ،ہرعام وخاص تک صحیح دین پہنچائیں اوراُنھیں خوش عقیدگی وبدعقیدگی کی بنیادی چیزوںسے آگاہ کریں تاکہ وہ حق و باطل میں تمیز کرسکیں، اور اس عمل میں تامرگ پیچھے نہ رہیں کہ ’’زمین کے اوپر کام اورزمین کے نیچے آرام‘‘ہر مومن کی ذمے داری میں شامل ہے۔اگرکبھی دوہم عقیدوں کے درمیان اختلاف پیداہوجائے تواُس میں دخل نہ دے،اور اگر اُس میں دخل دیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں تو وہ حتی الامکان صلح ومصالحت اور اتحادواتفاق کی کوشش کرے کہ ’’اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت‘‘،پھرانتشاروفسادپر صلح ومصالحت اور اتحاد واتفاق کو بہرصورت فوقیت حاصل ہے،اگرکبھی کسی معاملے میں اکابر کی ناراضی جھیلنی پڑجائے توہر حال میں یہ کوشش کرے کہ احترام مشائخ کا جذبہ کسی بھی طرح مجروح نہ ہوپائے کہ اکرام مشائخ(مومن)واجب ہے۔ یہاں تک کہ اگر معاندین ومخالفین کی مخالفت حد سے بڑھ جائے توبھی اینٹ کا جواب پتھرسے دینے کے بجائے حافظ ملت علیہ الرحمہ کی طرح صرف اور صرف اپنے مقاصد ومشن کی تکمیل میں مصروف رہے کہ انبیاومرسلین کی سنت اور سلف صالحین کا طریقہ بھی یہی ہے، چوں کہ معاندین ومخالفین اور ناعقلوں کی چال یہی ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح بنیادی مقاصد ومشن سے بھٹکادیا جائے،اس لیے کسی بھی ری ایکشن سے بہتر ہے کہ کام کیاجائے کہ ’’ہر مخالفت کا جواب کام ہے۔‘‘ چنانچہ یہ فیصلہ اب ہر ذی علم افرادبالخصوص فرزندان اشرفیہ کو کرناہے کہ وہ اپنے علم وعمل، قول وفعل اوراپنی حرکات وسکنات سے کہاں تک اپنے محسن کے مشن سے منسلک ہیں ؟اوراس مشن کو فروغ دینے کے لیے وہ کس حد تک جدوجہد کررہے ہیں؟

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی، ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ،الہ آباد،9910865854)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter