رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثالی رہنما
"لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة لمن كان يرجو الله واليوم الأخر وذكر الله كثيرا" فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہ (حیات) ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔ (الاحزاب: 12)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ اخلاق حسنہ و سیرت طیبہ کے اعتبار سے وہ منور آفتاب ہے، جس کی ہرجھلک میں حسن خلق نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جوش اور حضرت ایوب کا صبر پایا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ اسلام کے لئے بستیوں اور بیابانوں میں اللہ کا پیغام پہنچایا، مخالفین کی سنگ زنی وسختیاں سہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح وطن چھوڑا اور ہجرت کی مگر پھر بھی دنیا انسانیت کو امن و محبت، رحمت اور سلامتی کا پیغام دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرح اس دنیا میں حکمت کی طرح ڈالی غرض وہ تمام خوبیاں، اوصاف حمیدہ جو پہلے نبیوں میں پائی جاتی تھیں۔ وہ سب بدرجہ کمال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں موجود تھیں۔
حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارد، تو تنہا داری
اسلام ایک ابدی مذہب اور سرمدی اصول ہے۔ امن و سلامتی کا ذریعہ اور صلح و آشتی کا سرچشمہ ہے۔ قبل از اسلام دنیا کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ سینکڑوں خرابیاں اور بے شمار برائیاں سماج میں رائج تھیں توحید کی جگہ شرک خیر کی جگہ شر، امن کی جگہ جنگ اور عدل وانصاف کی جگہ ظلم واستبداد نے لے لی تھی۔ عورت کی معاشرے میں کوئی تکریم نہیں تھی۔ بیٹی کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اگر جنگ شروع ہوجاتی تووہ جنگ کئی سالوں تک جاری رہتی۔ شراب نوشی، جوئے بازی اور اوہام پرستی ان کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا تھا۔ انسانیت سسک رہی تھی، بلک رہی تھی اور کسی ایسے مسیحا کا انتظار کر رہی تھی جو سارے جہاں کا درد اپنے دل میں سمیٹ سکے ان جاہلانہ رسومات، خود ساختہ مذہبی، سماجی بندشوں، تہذیبی اور اخلاقی تنزلی، فتنہ و فساد، تخریب کاری، خرافات کا خاتمہ کر سکے جو ایسی تحریک چلائے جس سے اوہام پرستی کا خاتمہ ہو جائے جہالت وگمراہی کے اندھیروں، ظلم و جبر کی زنجیر کو توڑ کر غریبوں، بیواوں یتیمو ں اورکمزوروں کے استحصال کو روکے بالآخر رب ذوالجلال کی رحمت جوش میں آئی۔ ظلم وبربریت کی تاریکی میں ہدایت کا ایسا سورج طلوع ہوا جس کی روشنی سے ہر سو اجالا ہو گیا۔
ولاد ت رسول اکرم ﷺ سے پہلے برکات کا ظہور:
رسول خدا کی ولادت کے ساتھ ہی ایسے معجزات رونما ہوئے جو اس امر کا پیش خیمہ تھے کہ وہ عہد آچکا ہے کہ جس میں فرسودہ نظام اور توہم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ سند الا صفیا، اشرف الانبیا احمد مجتبیٰ عالم وجود میں رونق افروز ہوچکے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب کی سر زمین پر ایک نئی تہذیب اور الہی نظم و نسق کی بنیادوں کو مضبوط کرنے والے تھے لہذا ولادت کے پہلے ہی دن نظام جاہلیت کے کلیساؤں میں خطرات کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ فارس کے آتش کدہ میں جو آگ ہزار وں سال سے جل رہی تھی وہ بجھ گئی۔ ان واقعات کے رونما ہونے سے بڑے بڑے سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر کائنات کا نظام اچانک تبدیل کیسے ہوگیا اور دنیا میں کونسا ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جسکے اثرات انکے مذہبی عقائد پر مرتب ہو رہے ہیں۔ الغرض چالیس سال تک اس پر آشوب اور بد ترین عہد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صداقت اور دیانت داری کا لوہا منوایا اور جب فاران کی چوٹیوں سے اعلان رسالت کیا تو عرب ہی نہیں بلکہ تمام عالم میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔ وہ تہذیب اور قانون الہی کی بالادستی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلا م کے بعد دم تو ڑ چکی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے اس کو نئی زندگی مل گئی۔
يا صَاحِبَ الجَمَالِ وَ ياسَيِدَ البَشَرْ
مِنْ وَجْهِکَ الْمُنِيرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ
لَا يُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقّه
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اے صاحب جمال کل اے سرورِ بشر
رْوئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر
ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق اَدا
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
وَالد ماجد کا اِنتقال وِلادت سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خبر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبد المطلب کو ملی تو وہ خوشی سے حرم کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوش و محبت سے اپنے پوتے کو سینے سے لگایا اور کعبہ میں لے جا کر خیر برکت کی دعائیں مانگیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام محمد رکھا۔ حلیمہ سعدیہ کو جب آمنہ کے لال کی خبر ملی تو بی بی آمنہ کے گھر سے اپنی گود میں لے گئیں اور آپ کو حلیمہ سعدیہؓ نے دودھ پلایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک6 سال کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ آپ کے ننہال لے گئیں۔ واپسی میں بمقامِ ابوا اْن کا انتقال ہوگیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش اْمّ ایمن کے سپرد ہوئی۔ 8 سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اْٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو طالب نے لیا۔ 9 سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور25 سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے 2ماہ بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔ 35 سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا۔ حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے اْلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا۔ جس سے ایک ایسی خون ریز جنگ ٹل گئی جس کے نتیجے میں نہ جانے کتنا خون خرابہ ہوتا۔
تعلیم و تربیت:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی لقب ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کے کسی معلم سے تعلم نہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من جانب اللہ متعلم تھے ظاہر ہے جس ہستی کو تعلیم دینے والا خود خالق کائنات، اللہ جل جلالہ ہو اسے کسی اور سے تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہوگی آقا کریم کے والد آپ کی ولادت باسعادت سے قبل انتقال فرما گئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق و امین کا خطاب دیا۔
مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی
خلوت و عبادت:
بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اماں حلیمہ کی بکریاں بھی چرائیں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کا چالیسواں سال شرع ہوا تو آپ کی ذات اقدس میں ایک نیا انقلاب رونما ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلوت پسند آئی چنانچہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ خلوت میں اللہ کی عبادت کا ذوق اس طرح بڑھ گیا آپ کا بیشتر وقت مناظر قدرت کے مشاہدات و کائنات فطرت کے مطالعہ میں صرف ہوتا تھا۔ دن رات نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔ ایک دن آپ غار حرا کے اندر عبادت میں مشغول تھے کہ جبرائیل امین اللہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر تاج نبوت سجانے آگئے۔ آیات مبارکہ کے شان نزول کے بعد اللہ رب العزت نے مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت و تبلیغ حق کے منصب پر مامور فرمایا۔
غیر معمولی سیرت و کردار:
آپ کا شباب مجسم حیاء اور عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلان نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام حیات مبارکہ بہترین اخلاق و عادات کا خزانہ تھی صداقت ودیانت کم گوئی، ایفائے عہد، خندہ پیشانی، خوش اخلاقی، چھوٹوں سے محبت، بڑوں سے شفقت، صلہ رحمی، غمخواری، غریب پروری، عفو و درگزر، مخلوق خدا کی خیرخواہی الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اخلاص حسنہ و محاسنہ افعال کا مجسمہ اور تمام عیوب و نقائص سے پاک تھی۔ بلا شعبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار انسانیت کا ایک ایسا محیرالعقول اور غیر معمولی کردارہے جو نبی کے علاوہ کسی کا ممکن ہی نہیں۔
آپ ﷺ کا دستورِ تعلیم و معاملہ فہمی:
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اْمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے، چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا اْمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوبچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاؤ اور دلچسپی تھی معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت میں مو جود تھیں۔
جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی قریشِ مکہ کے دوش بدو ش پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے ۔ جب عمارت میں ہجر اسود نصب کرنے کا وقت آیا تو قبائل میں سخت جھگڑا ہوگیا اس کشمکش میں چار دن گزر گئے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تلواریں نیام سے نکل آئیں۔ آپ نے اس طرح اس جھگڑے کا تصفیہ فرمایا کہ آپ نے ایک چادر بچھا کراس پر حجر اسود رکھا اور تمام سرداروں کو حکم دیا کہ سب اس چادر کو تھام کر مقدس پتھر اٹھائیں سب سردارو ں نے مل کرچادر کو اٹھایا اورجب ہجر اسود اپنے مقام پر پہنچ گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کر دیا۔
کسب حلال کی اہمیت کے پیش نظر بچپن میں قریش کی بکریاں چرائیں (جو تمام انبیا ء کی سنت بھی ہے) اور اس سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور التاجر الصدوق الامین (امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔
صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ا وصاف کا اقرار کرتے تھے ۔ چنانچہ قبائلِ قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ہم نے بارہا تجربہ کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ سچا پایا۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اور امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو بطورِ اْسوہ حسنہ پیش کرنا تھا۔
وحی الہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچانے کے لیے جبریلِ امین علیہ السلام کا انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔
بے شک یہ (قرآن) ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحبِ عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔ (التکویر: 21۔ 19)
اس وحی اِلٰہی کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی تربیت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر اعتبار سے کامل بن گئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو اْمت کے لیے ایک بہترین اْسوہ حسنہ بن کر سامنے آگیا۔ امت کے ہر فرد کے لئے بالخصوص عامۃالناس کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات و ذات مبارکہ ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں مکمل رہنمائی حاصل کرسکتاہے۔
دعوت و تبلیغ حق کے تین ادوار:
پہلا دور: تین برس تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوشیدہ طور پر اور راز داری کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا فرماتے رہے ۔ اس درمیان میں سب سے پہلے ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، آزاد شدہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اِیمان لائے، ان کے بعد بہت سے آزاد اور غلام اس دولت سے بہرہ مند ہوئے۔ سب سے پہلے اسلام لا نے والے جو سابقین اولین کے لقب سے سرفراز ہوئے۔
دوسرا دور: تین سال کے بعد اس خفیہ دعوت سے مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہو چکی تھی اس کے بعد اللہ تعالی ٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سورۃ شعراء کی آیت مبارکہ نازل فرمائی: "وَأَنذِرْ عَشِيرَتَکَ الْأَقْرَبِينَ " آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا کی چوٹی پر کھڑے ہو کر قبیلہ قریش کو پکارا جب سب قریش جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں اگر ایمان نہیں لاؤ گے تو تم پر عذاب الہی اترے گا۔ تمام قوم کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی پوری قوت سے دعوت دی ، یہ سن کر تمام قریش جن میں آپ کے چچا ابولہب بھی موجود تھا سخت ناراض ہوئے، شان رسالت کا انکار کیا۔
تیسرا دور:اب وقت آگیا کہ اعلان نبوت کے چوتھے سال سورۃ حجر کی آیت: "فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِينَ" نازل فرمائی اور محبوب حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم فرمایا کہ اس دعوت حق کو علی الاعلان بیان فرمائیے ۔ جب آپ علانیہ طور پردین مبین کی دعوت وتبلیغ حق بیان فرمانے لگے۔ شرک وبت پرستی کی کھلم کھلا برائی فرمائی تمام قریش، اہل مکہ تمام کفار مشرقین آپ کی مخالفت میں جمع ہو گئے اور ایذا رسانیوں کا ایک طولانی سلسلہ شروع ہو گیا۔
رحمت اللعالمین پر ستم ظریفیاں:
کفار مکہ خاندان بنو ہاشم کے انتقام اورلڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کی ہمت تو نہ کر سکے مگر طرح طرح کی تکالیف اور ایذا رسانیوں سے آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے۔ ہرکوچہء بازار میں پراپیگنڈا شروع کردیا کفار مشرقین نے آپ پر اور اسلام قبول کرنے والے مسلمانو ں پر اتنے مظالم ڈھائے کہ جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے کفار ومشرقین کا اس بات پر مُصّر تھے کہ مسلمانوں کو اتنا تنگ کرو کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر پھر شرک و کفر میں مبتلا ہو جائیں اس لئے قتل کرنے کے بجائے ہر طرح کے ظلم وستم سزاؤں اور ایزا رسانیوں اور جاںسوز عذابوں کے ساتھ ستاتے تھے مگر خدا کی قسم! محبوب خدا نے انہیں شراب توحید کے وہ جام پلا رکھے تھے کہ ان فرزندان توحید نے استقلال، استقامت کا وہ منظر پیش کردیا کہ پہاڑوں کی چوٹیا ں سر اٹھا کر حیرت سے ان بلا کشان اسلام کے جذبہ، قوت ایمانی کے ساتھ استقامت کا نظارہ کرتی رہیں بے رحم، سنگدل، درندہ صفت کافروں نے ان غریب، بے کس مسلمانوں پر جبرو کراہ ظلم وستم کا کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑا مگر ایک بھی مسلمان کے پائے استقلال میں تزلزل نہیں آیا۔
ان کے قدم پر ہیں نثار جن کے قدوم ناز نے
اجڑے ہوئے دیار کو رشک چمن بنادیا
شعب ابی طالب میں محاصرہ:
اعلان نبوت کے ساتویں سال کفار مکہ نے جب دیکھا کہ اسلام روز بروز پھیلتا جارہا ہے تو غیض و غضب میں آپے سے باہر ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ساتھ مکمل سوشل بائیکاٹ کردیا گیا اور قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے حوالے نہیں کرتے اُس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان اورچچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں تین سال محصور رہے۔ تین سال کا زمانہ اتنا سخت اور کٹھن تھا کہ سنگدل اور ظالم کفار نے ہر طرف پہرہ بٹھا دیا تھا کہ کہیں سے بھی گھاٹی کے اندر کھانے پینے کا سامان جانے نہ پائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورخاندان بنو ہاشم ان ہوش ربا مصائب کو جھیلتے رہے معاہدہ کی دستاویز ات کو دیمک نے کھالیا حضرت ابو طالب نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ میرا بھتیجا کہتا ہے۔ معاہدہ کی دستاویزات کو دیمک کھا گئی ھے جہاں خدا کا نام لکھا ہوا تھا وہ حصہ بچ گیا ہے۔ یہ سن کر معطم بن عدی کعبہ کے اندر گیا اور دستا ویز اتار لایا واقعی بجز اللہ کے نام کے ساری دستاویز کیڑوں نے کھالی تھی اس کے بعد یہ محاصرہ ختم ہوا منصور بن عکرمہ جس نے یہ دستاویز لکھ تھی اس پر قہر الہی ٹوٹ پڑا اس کا ہاتھ شل ہوکر ناکارہ ہو گیا۔
عام الحزن:
اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابوطالب شعب ابی طالب سے نکل کر گھر جب آئے تو حضرت ابو طالب شدید علالت کے بعدانتقال کر گئے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد آپ بہت مغموم رہنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غم گسار زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ ابھی ابو طالب کے انتقال کا زخم تازہ تھا مکہ میں ابو طالب کے بعد جس ہستی نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت اور حمایت میں تن من دھن سب کچھ لوٹا دیا وہ حضرت خدیجہ تھیں جس وقت دنیا میں آپ کا کوئی مخلص و غمخوار نہیں تھا یہ دونوں ہستیاں آپ کے ساتھ جانثار اور مدد گار رہے۔ اب دونوں اس دنیا میں نہ رہے آپ قلب مبارک پر اتنا صدمہ گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کا نام عام الحزن رکھ دیا۔ قریش کی اِیذا رسانی اور بڑھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل طائف کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ اْنہوں نے ایک نہ سنی بلکہ اْلٹا درپے ایذاء ہوئے اس لئے یہ سال عام الحزن (غم کا سال)کہلاتا ہے۔
نبوت کا گیارہواں سال : نبوت کے گیارہویں سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج ہوئی۔ پنج گانہ نماز فرض ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر عرب کے مختلف قبائل کو دعوت دی چنانچہ مدینہ کے قبیلہ خزرج کے 6 آدمی مسلمان ہوئے۔
نبوت کا بارہواں سال : اس سال اوس و خزرج کے 12 افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہ اولیٰ کہلاتی ہے۔
نبوت کا تیرہواں سال : اس سال مدینہ کے 70 مردوں اور 20 عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے۔
ہجرتِ مدینہ:
مدینہ میں اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہؓ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا۔ قریش کو پتہ چلا تو انہوں نے دار الندوۃ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافروں کے گھیرے سے بااطمینان نکلے اورحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں 3 دن رہے، پھر ہجرت فرمائی اور مدینہ کی نواحی بستی قُبا پہنچے۔
اِسلام کا نیا دور:
یہاں سے اِسلام کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ قبا میں 14 دن قیام کیے، وہاں ایک مسجد بنائی، وہاں سے مدینہ طیبہ منتقل ہوئے۔ حضرت ابو ایوب اَنصارِی رَضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعمیر فرمائی، اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں مدینہ آگئے تھے ، اس پر بھی کفار مکہ راضی نہ ہوئے۔ مدینہ میں بھی سکھ کا سانس نہ لینے دیا۔ اہل مدینہ کے بھی جان کے دشمن ہو گئے اب تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے یہ حکم تھا کہ لوگو ں کو اسلام کی دعوت دیجئے اور کفار و مشرقین کی ایذاؤں پر صبر و تحمل، برداشت کا حکم تھا اسی لئے مسلمانوں پر کفار نے بڑے بڑے پہاڑ توڑ دئیے مگر مسلمانوں نے کبھی اپنے دفاع میں ہتھیار نہیں اٹھایا لیکن ہجرت کے بعدجب کفار و مشرقین مسلمانوں کے جانی دشمن ہو گئے اور ان کا جینا دوبھر کردیا اب رب ذولجلا ل نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی کہ جو لوگ تم سے جنگ کی ابتدا ء کریں تم بھی ان سے لڑسکتے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان (یعنی نظام عالم) کو جس حالت پر پیدا کیا تھا ، زمانہ اپنے حالات و واقعات کا دائرہ مکمل کرنے کے بعد پھر اس مقام پر دوبارہ آگیا ہے۔گویا زبان نبوت اس امر کا اعلان فرما رہی تھی کہ نظام عالم کے ایک دور کا خاتمہ ہو چکا ہے اور آج سے دوسرے دور کا آغاز ہو رہا ہے اور دنیائے انسانیت کو نظام عالم کے نئے دور کے آغاز پر خطبہ حجۃ الوداع کے ذریعے بالخصوص اور اپنی تعلیمات و ہدایات کے ذریعے بالعموم نیا عالمی نظام عطا کر رہا ہوں۔
ضروری تھا کہ اس موقع پر آپ پچھلے نظام اور اس کے جاہلانہ امور کو منسوخ کرنے کا اعلان بھی فرماتے سو ارشاد فرمایا:
خبردار؛ جاہلیت کا سارا (ظالمانہ اور استحصالی) نظام میں نے اپنے پاؤں سے روند ڈالا ہے اور آج سے نظام جاہلیت کے سارے خون (قصاص، دیت اور انتقام)کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں اور آج سے نظام جاہلیت کے سارے سودی لین دین بھی ختم کیے جاتے ہیں۔
ان دو اعلانات کے بعد اس امر میں کسی شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ خطبہ حجۃ الوداع فی الحقیقت. ایک نئے نظام کا اعلان تھا۔
حضور کے فرامین سے یہ امر واضح ہے کہ اسلام دین امن، محبت اور رحمت ہے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون؛ تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں حرام کر دی ہیں اور ان چیزوں کو ایسی عزت بخشی ہے جو عزت تمہارے اس شہر میں اس مہینہ اس دن کو حاصل ہے۔ کیا میں نے پیغام حق پہنچا نہیں دیا؟ سبھی نے بیک زبان جواباً عرض کیا جی ہاں ضرور۔
اس واضحیت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب حاضرین کو تلقین فرمائی۔ سنو جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں اس وقت موجود نہیں ہیں، ہوسکتا ہے کہ کوئی جو یہاں موجود نہیں تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ کے آخری اور نمایاں موقع پر عالم انسانیت کو پیغام امن دیا اور اس امر کی پابندی پر زور دیاکہ اپنے عمل و کردار سے قیام امن کو ہر سطح پر ممکن بنائیں۔ معاشرے کو پرامن بنانے کے لیے فروغ و ابلاغ کا مجسم بن جائیں یہ ایک حقیقت ہے۔ آج کرہ ارضی کو امن وامان کا مرکز بنانے کے لئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطاکردہ منشور سے زیادہ مؤثر اور جامع ضابطہ کہیں اور دستیاب نہیں۔