واقعہء کربلا: عبرت و پیغامات
محر م الحرام کا مقدس و متبرک مہینہ دنیا بھر کے فرزندان توحید کو بیک وقت کئی پیغامات دیتا ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ، سجدوں میں خلوص و تڑپ، راہ خدا میں گھر کے گھر کی قربانی کے لئے رضامندی، بہادری و جواں مردی، دین و سنت پہ ثابت قدمی، اعدائے اسلام سے بے خوفی، برائی کا خاتمہ، احقاق حق و ابطال باطل کی جد و جہد اور طاغوتی قوتوں کے خلاف ہمہ وقت بر سر پیکار و سینہ سپر رہنا وغیرہ! گویا دھرتی کے ننگے سینے پہ واقع شدہ وہ ناقابل فراموش سانحہ جسے دنیا ’معرکہئ کربلا‘ کے نام سے جانتی ہے تمام عالم اسلام کے لئے سراپا پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس تاریخ ساز واقعے کی زبان حال سے صادر ہونے والے ہر پیغام پہ کان دھر نا مسلمانوں کے لئے از حد ضروری ہے تاکہ بوقت ضرورت دین و سنت کی
حفاظت و پاسبانی کے لئے اس کا اعادہ ممکن ہو سکے کیوں کہ ’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘۔
اسلام نے ہر دور میں اپنے ماننے والوں سے قربانی چاہی ہے اور اس کے جانثاروں نے ہر دفعہ اپنی جانوں کا نذرانہ بصد عجز و نیاز اور ہزار خلوص پیش کیا ہے۔ اور بلا شبہ یہ اسی قربانی و خلوص کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام ہر چہار جانب پھلا پھولا نظر آتا ہے۔ گویا اسلام میں قربانی کی بڑی اہمیت اور خاصہ رول ہے بلکہ اگریہ کہہ لیں کہ اس عظیم مذہب کا خمیر ہی قربانی سے تیار ہوا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ کے زریں صفحات فرزندان توحید کی بے لوث قربانیوں کے خون سے رنگین ہیں۔ حکمت خداوندی دیکھئے کہ اسلامی مہینوں کا آغاز بھی قربانی سے ہوتا ہے اور اختتام بھی۔ آغاز ذبح عظیم سے ہوا اور انجام شہادت حسین پر۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس حقیقت کا بڑا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
دین اسلام میں قربانی کی اس قدر اہمیت ہمیں دعوت فکریہ دے رہی ہے کہ ہم دین حنیف کی ناموس پر بمع جان و مال ہمیشہ قربان و نچھاور ہونے کے لئے تیار رہیں۔ احکام اسلام کی پابندی اور ان پہ عمل برآوری کے لئے ہمہ وقت مستعد رہیں۔ مگر نہایت غم و افسوس کا مرحلہ ہے کہ ان بنیادی چیزوں کا احساس آج ہمارے اندر ناپید ہے جس کی وجہ سے ہم مسلسل ناکامی و ذلت کے گہرے گڑھے میں گرتے جا رہے ہیں۔ برما اورفلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار در حقیقت امت مسلمہ کی اسی بے حسی اور اسلامی اقدار کی پامالی کا نتیجہ ہے۔ ایسے پرفتن اور نامساعد حالات میں جو ذمہ داری مسلمانوں پہ عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنی عادت و اطوار پہ غور کریں اور اپنے نفس کا محاسبہ کر کے دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ ایا ان کی طرززندگی اسلامی قوانین کے عین مطابق ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اپنے اطوار و کردار کو جہاں تک ممکن ہو سکے بدلنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو حالات میں سدھار اپنے آپ محسوس کرنے لگیں گے۔ اپنی ذات کو مکمل طور پر جب وہ اسلامی سانچے میں ڈھال کر ظلم و بربریت، شرک و الحاد اورکفر و تثلیث کا مقابلہ کریں تو نصرت غیبی ان کاکی حلیف ہوگی اور وہ قربان ہو کر بھی مذہب اسلام کو بقا و دوام اور ثبات و پائیداری بخش جائیں گے۔واقعہ کربلا سے ہمیں یہی عبرت حاصل ہوتی ہے کہ جب تک ہم اسلامی اصولوں پہ قائم رہ کے دشمن پر وار کرتے ہیں، ہمارا وار کام کر جاتا ہے اور سیدھا اپنے ہدف کو جا لیتا ہے ورنہ’نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری‘ کے مصداق ہماری ہر کوشش رائیگاں ہوتی نظر آتی ہے۔ میدان کربلا میں امام حسین کی تلوارجس برق رفتاری سے چل رہی تھی اگر اپنا سلسلہ جاری رکھتی تو یزیدیت کے لشکر جرار کے لئے تنہا کافی تھی مگر عین لڑائی کے وقت جب کہ جان کا خطرہ بالکل واضح تھا حکم خداوندی سے بے بس ہو کربغرض ادائیگیئ افضل العبادات رک گئی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ احکام خداوندی کی پاسداری کے بغیر اس کی دھار تیز ہونے کے باوجود ناکارہ ہے۔ امام حسین نے ایسے بھیانک ماحول اور خطرناک حالات میں بھی خدائے برتر و بالا کے حضور سجدہ ادا کیا اور ایسا سجدہ ادا کیا کہ:
ہو سکے تو لاؤ اب دونوں جہاں میزان میں
میں نے اک سجدہ زمین کربلا سے لے لیا
اگر روئے زمین پر اس قسم کے سجدے آج بھی ہونے لگیں تو کوئی عجب نہیں کہ مسلمانوں کی ایک تکبیر کی جھنکار دنیا بھر کے ظلم و بربریت کے حاملین کے کان بہرے کر دے اور مسلمان آن کی آن میں ذلت و رسوائی کے قعر عمیق سے نکل کر ایسی عزت و بلندی پائیں کہ حیرت سے اقوام عالم کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی اور منہ کھلے کے کھلے رہ جائیں۔ سر زمین کربلا کا یہ سجدہ اپنے آپ میں بڑی معنویت و گہرائی کے ساتھ ساتھ ایسی طاقت رکھتا ہے جس کے سامنے دنیا کا بڑے سے بڑا جابر و ظالم گھٹنے ٹیکتا نظر آتا ہے۔یزید امام حسین کے تعلق سے اپنی اس نازیبا اور قبیح حرکت پہ شاید فخر محسوس کر تا ہوگا مگر اسے شاید یہ نہیں معلوم تھا کہ A man could be killed but not be defeated یعنی اس نے امام کوحالت سجدہ میں قتل تو کر دیا (جو در اصل انسانی تاریخ میں بزدلی کی سب سے بڑی مثال ہے) مگرحیدری کچھار کے اس شیر نر کو شکست دینا اس کے بس میں نہ تھا بلکہ ہار کے بھی حقیقی جیت امام کے حصے میں آئی اور یزید بزعم خود جیت کے بھی ہار گیا۔ یاد رکھیں کہ ایسا اسی لئے ممکن ہو سکا کیوں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات احکام خداوندی کی کامل رعایت کی عملی تفسیر تھی اور یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ جس کسی کی ذات اس وصف سے متصف ہو دنیا کی کوئی طاقت نہ اسے ڈرا سکتی ہے نہ ہرا سکتی ہے۔ عرصہئ دراز سے مسلمان اغیار کے ظلم و ستم اور سفاکی و بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں اور ان کی دیرینہ عظمت و سطوت زوال پذیر ہے۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان بے سر و سامان ہیں؟ ان کے پاس مال و دولت کا انبار نہیں؟ ہتھیار نہیں؟ نہیں بلکہ بقول اقبال:
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہئ مومن کا بے زری سے نہیں
اور وہ سبب ہے احکام خداوندی سے بیزاری اور اسلام کے پاکیزہ اصولوں سے انحراف۔ حد تو یہ ہے کہ خدائے تعالی کے مقرر کردہ احکام سے روگردانی اور بیزاری کی مہلک چنگاریوں اور مہیب شعلوں نے مدارس اسلامیہ اور خانقاہوں کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ مدارس اور خانقاہ جنہوں نے ہمہ وقت ملت اسلامیہ کی حقیقی رہنمائی کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور امت ہر معاملے میں ان سے رجوع کرتی ہے، بھی بے راہ روی کے دلدل میں پھنسنے لگے ہیں اور ان کے کام سے دیانت و ایمانداری اور خلوص و للہیت اٹھتی جا رہی ہے۔ امت کی فلاح و بہبود کا جذبہ سرد پڑتا جا رہا ہے۔ اہل مدارس کی خدمت صرف اور صرف نصابی کتابوں تک محدود ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں مدارس و جامعات کے طلبہ میں اونچی سوچ اور آفاقی نظر پیدا نہیں ہو پا رہی ہے اور وہ درسی کتابوں سے باہر کی دنیا سے یکسر بے خبر ہیں۔ایک دور تھا کہ جب دینی مدارس کے طلبہ ہر میدان میں طاق نظر آتے تھے اور ان کی عقابی نگاہوں سے حیات انسانی کا کوئی بھی شعبہ مخفی نہیں تھا۔ وہ زندگی کے نشیب و فراز سے خوب واقف تھے۔ مگر جب سے شیطان نے مدارس و خانقاہ کے ذمہ داران و اراکین کو اپنے دام فریب میں لینا شروع کیا اورسیادت و قیادت کے اعلی اقدار اور حقیقی لیاقت وقابلیت سے خالی نام نہاد ملاؤں نے ان کا باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیا ان (طلبہ) کے اندر سے یہ نمایاں اور بلند پایہ اوصاف بتدریج زائل ہونے لگے۔یہ مال و دولت اور دنیاوی جاہ و جلال کے حریص ملاؤں نے اسلام کے ان نو نہال طلبہ کو جنہیں آفاقی تعلیم اور شہنشاہی گُر کی ضرورت تھی روباہی سکھلائی اور جیتے جی ان معصوموں کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا۔ شاعر مشرق نے سچ کہا ہے:
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ؟
اس لئے وقت کا اہم تقاضا ہے کہ مدارس وخانقاہ کے اراکین وعلماء اورمساجد کے ائمہ وخطباء اپنی عادت و اطوار اور کردار کو آئینے کی طرح صاف و شفاف کریں کیوں کہ یہ حضرات امت کے پیشوا سمجھے جاتے ہیں اورپیشواؤں کے ہر قول وفعل سے بے باکی، صداقت، قوم کا درد، ملت کا سوز، بلند بالی اوراولو العزمی کی روح پرور خوشبو کا پھوٹنا ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ جوان علماء وفضلاء کے قلوب میں بالکل سرد پڑ چکاہے از سر نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی اپنے طلبہ اور عقیدت مندوں بلکہ پوری امت کواس کا درس دینا بھی لازمی ہے تاکہ آنے والی نسلیں بزدلی و روباہی کی جگہ دلیری و جانثاری یعنی شیری و شہنشاہی کے جذبے سے سرشار ہوں تاکہ امت پہ آنچ آنے کی صورت میں یہ خانقاہ و مدارس کی چہار دیواری سے باہر نکل کر میدان کارزار میں باطل کے خلاف بلا خوف وخطر سینہ سپر ہوجائیں اور میدان کربلا کی یاد تازہ کریں۔ بالجملہ محرم کی دسویں تاریخ کو سر زمین کربلا پہ واقع ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ نادر الوقوع اور بے نظیر واقعہ قوم و ملت کی جڑوں کو کھوکھلاکرنے والے عیش پسند، تن آساں اور مادی ترقی کے لالچی پیشواؤں اورمدارس وخانقاہ کے نام نہاد ملاؤں کو چیخ چیخ کر یہ پیغام دیتا ہے کہ ’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری‘۔
خدائے جبار وقہار ہمیں اسلامی اصولوں کی پاسداری کے ساتھ ساتھ دین پہ ثابت قدمی اورہمہ وقت باطل سے ٹکرانے کا عزم و حوصلہ اور جرات و دلیری عنایت فرمائے۔ آمین! بجاہ سید المرسلین!