بابری مسجد کی شہادت اور بھارت کے مسلمان

مسجد خدا کا گھر ہے۔الله کی عبادت وریاضت کی جگہ،مسلمانوں کا سب سے مبارک ومقدس مقام اور زمین کا ایسا قابلِ احترام حصہ ہے کہ جہاں خالق کائنات کی توحید و ربوبیت کا شب وروز اقرار واعتراف اور اظہار واعلان کیا جاتا ہے۔اس کی حمد وثنا، ذکر وفکر، تسبیح وتہلیل سے مسجد کی فضائیں ہمیشہ گونجتی رہتی ہیں۔الله تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہونے کے لیے سب سے پہلا گھر جو تعمیر ہوا وہ کعبہ معظمہ ہے۔جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ہے؛،،سب سے پہلے جو مکان انسانوں کی عبادت کے لئے مقرر ہوا وہ مکہ ہے۔ جس میں خیر وبرکت ہے اور سارے اہل جہاں کا مرکز ہدایت ہے،،(آل عمران:96)جو مساجد عالم وجود میں آگئیں ان کے بارے میں مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قیامت تک کے لیے اسے قائم ودائم رکھنا ضروری ہےاور اسے کسی بھی طرح دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مسجد کی زمین کے نیچے اور چھت کے اوپر کا سارا حصہ داخل مسجد ہے۔اس کی تخریب وانہدام اور توہین وبےحرمتی کا ارتکاب وہی انسان کر سکتا ہے جو ایمان واسلام کی برکتوں سے محروم اور کفر و شرک کی غلاظتوں میں ملوث ہو۔اہل ایمان ان مساجد کی تعمیر وآبادکاری میں حصہ لیتے ہیں اور کفار ومشرکین انہیں ویران وغیر آباد کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔الله رب العزت ارشاد فرماتا ہے؛ ،،الله کی مسجدوں کو تو وہی آباد کرتے ہیں جو الله اور یومِ آخرت پر ایمان لائیں،نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں اور الله کے علاوہ کسی سے نہ ڈریں،،(التوبہ؛18)الله تعالیٰ کی عبادت سے روکنے والے اور اس کی مسجدوں کو تباہ وبرباد کرنے والے انسان خدا کے باغی اور سرکش وظالم ہیں۔ ،،اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو الله کی مسجدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو،،(البقرہ:114)

    اس وقت ایک منظم سازش کے تحت بھارت کے مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل میں الجھا کر ان کے شیرازہ کو منتشر اور ان کی طاقت کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے.بھارت کا میڈیا مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر افشانی کر رہا ہے۔اسلام کے اصول وقوانین اور اس کی مقدس شخصیات کے بارے میں مسلسل بدگمانیاں پھیلائی جارہی ہیں۔شعار دین کو پامال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔قرآن مجید پر حملے ہو رہے ہیں اور بہت ساری مساجد کو مسمار کیا جارہا ہے یا اس میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا جارہا ہے۔جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان مجبور ہو کر اپنے امتیاز وتشخص کو خیرآباد کہہ کر اپنے آپ کو گنگا وجمنا کی دھاروں کے حوالے کر دیں۔لیکن خدا کا شکر ہے کہ بھارت کے مسلمان اپنے دین وایمان کے تحفظ وبقا کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں اور انہیں کوئی بھی طاقت کسی قیمت پر سرحد اسلام سے باہر نہیں نکال سکتی کیونکہ ہر موڑ پر بھارت کے مسلمانوں نے اپنے استقلال واستقامت کا زبردست مظاہرہ اور اسلام دشمن قوتوں کا جم کر مقابلہ کیا ہے۔یہی وہ جذبہ ایمانی ہے جس کی وجہ سے بھارت کے مسلمان اپنے آپ کو اب تک محفوظ رکھے ہوئے ہیں اور ہزار مزاحمتوں کے باوجود اپنے دین ومذہب اور تہذیب وتمدن کی باوقار حفاظت وپاسبانی میں مصروف ہیں۔

 6 دسمبر مسلمانانِ ہند کے لئے ناقابلِ فراموش تاریخ ہے۔جس میں متعصب قوم ہنود کی جماعت وشو ہندوپریشد،بی جے پی،بجرنگ دل،شیوسینا پارٹیوں کے ساختہ پرداختہ پروگرام سے تقریباً کئی سو سالہ قدیم عظیم تاریخی بابری مسجد جو سر زمینِ اجودھیا میں آباد تھی اس کو زمین بوس کردیا گیا تھا۔معتبر ذرائع وشواہد سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت کی برسر اقتدار حکومت کانگریس پارٹی کے وزیراعظم ہند نرسمہا راؤ اور اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنکھ بھی خفیہ طور پر ان لوگوں کی اس خبیث سازش میں برابر کے شریک تھے۔ چونکہ کئی ہزار کے فوجی دستے کی موجودگی میں بابری مسجد کو شہید کیا جاتا رہا اور تمام فوجی دستے نیز ارکان و عملہ تماشائی بنے رہے۔آخر ان افواج وعساکر کے ارسال کا منشا و مقصد کیا تھا؟مقام حیرت واستعجاب تو یہ ہے کہ اگر اس وقت کی حکومت سے بابری مسجد کے انہدام اور افواج و عساکر کے بھیجنے کے متعلق دریافت کیا جاتا تو وہ یہی جواب دیتی کہ اگر فرستادہ افواج وعساکر بزورِ بازو ہندوؤں کو روکنے،مسجد منہدم کرنے اور مندر کی تعمیر سے مانع ہوتے تو کافی خون خرابا ہوتا اور خون خرابا مجھے منظور نہ تھا۔بالائے تعجب ہے ایسی بوالعجمی پر کہ سر زمینِ اجودھیا میں خون خرابا کی وجہ سے افواج وعساکر کے ہاتھوں میں بیڑیاں اور پاؤں میں زنجیریں ڈالی گئیں تھیں جس کا نتیجہ اور ثمرہ اظہر من الشمس اور ابین من الامس یہ نکلا تھا کہ بابری مسجد شہید کردی گئی تھی اور اس وقت ملک کے طول و عرض میں فرقہ وارانہ آگ بھڑک اٹھی تھی۔اسی آتش فشاں ساعات میں متعدد شہروں اور انگنت قصبوں میں افواج کی گولیوں اور اس کے توپ وتفنگ کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی،ان کی بیویاں بیوگی کی زد میں بلبلا اٹھی تھیں،بچے یتیمی کی بلا میں مبتلا ہو گیے تھے، دکانیں لوٹ لی گئیں تھیں،مکانات نذر آتش کر دیے گیے تھے، عزت وناموس پر حملے ہوئے تو اس وقت کی انتظامیہ اور حکومت وقت کے سروں پر جوں تک نہ رینگی تھی اور نہ غم و افسوس ہوا،اور ہوتا بھی کیوں؟کہ مراد اور مدتوں کی تمنائیں بر آئیں تھیں،اس وقت ان تمام حرکات ونظریات سے بالکل صاف وشفاف بات سامنے آگئی تھی کہ تمام منصوبے راز ہائے سربستہ کے تحت انجام پذیر ہوئے تھے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔

اس وقت اجودھیا میں گولیاں چلتیں ہنود مارے جاتے تو غم تھا لیکن پورے ملک میں قوم مسلم کو تہہ تیغ کیا گیا، ظلم واستبداد،تشدد وبربریت کا بازار گرم کیا گیا تو کوئی غم نہیں ہوا،یاد رہے کہ ایسی ناپاک پالیسی وسیاست کسی منصف حکمراں کی نہیں ہوتی بلکہ ایک ظالم وجابر، متمرد وسرکش، متعصب وحاسد کی ضرور ہوتی ہے۔اس کھلی ہوئی ناانصافی اور ظلم وستم کے پیچھے صرف ایک جذبہ کار فرما تھا کہ اکثریت اپنی اجتماعی توانائی کے ساتھ اقلیت پر ایک بار زبردست حملہ کرکے اقلیت کو اتنا مجبور و بے بس بنا دے اور انہیں اتنا کچل ڈالے کہ وہ یہاں پھر کبھی سر اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں اور اسی کے ذریعے ملک بھر کی اقلیت کو یہ پیغام دے دیا جائے کہ اگر اس نے دوسری جگہوں پر بھی زیادہ شور وہنگامہ مچایا تو وہاں بھی ظلم وجبر کی یہی داستان دہرائی جائے گی اور اسے بچانے کے لئے کوئی حکومت ہمارے اوپر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی۔06 دسمبر کے بعد بھاجپا ریاستی حکومتیں گریں،انتہا پسند تنظیمیں پر پابندیاں عائد کی گئی مگر اس کے باوجود 06 دسمبر سے پہلے جو کچھ ہوا وہی حالات اب بھی محسوس کئے جارہے ہیں اور شرپسند عناصر تک انتظام وقانون کے ہاتھ پہنچنے میں تقریباً ہر جگہ ناکام و نامراد نظر آرہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارت میں انتہا پسند ہندو افراد کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ بھارت کے دستور اور اس کی تاریخ کو چیلنج کرنے میں کوئی جھجھک نہیں محسوس کر رہے ہیں۔بلکہ وہ ایک نئے دستور اور نئی تاریخ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔دوسرے الفاظ میں ان کا مطالبہ یہ ہے کہ انصاف پسند مؤرخین نے بھارت کی صدیوں کی جو تاریخ مرتب کی ہے وہ حقائق پر مبنی نہیں ہے اور سیکولر بنیادوں پر بھارت کا جو آئین نافذ کیا گیا تھا اس کی بھی اب کوئی ضرورت نہیں،یہ انتہا پسند افراد تاریخ کی کتابوں میں یہ لکھوانا چاہتے ہیں کہ ہندو قومیں کہیں باہر سے نہیں آئیں بلکہ محمد بن قاسم،سلطان محمود غزنوی،شہاب الدین غوری، ہمایوں،ظہیر الدین بابر اور اورنگزیب عالمگیر وغیرہ یہ سب غیر ملکی اور حملہ آور ولٹیرے تھے اور فلاں فلاں مسجدیں مندر توڑ کر تعمیر کی گئی تھیں،راجہ داہر،پرتھوی راج، شیواجی وغیرہ ہمارے قومی ہیروہیں وغیرہ وغیرہ،اور آئین و دستور میں اقلیتوں کو جو تحفظات فراہم کئے گئے ہیں ان کی عبادت گاہوں اور تعلیم گاہوں کو جو مراعات حاصل ہیں وہ ختم کر دی جائیں اور اکثریت کے مزاج اور اس کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت کو سیکولر اسٹیٹ کی بجائے ہندو راشٹر بنا دیا جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہا پسندی اپنی نقطہ عروج تک اب پہنچ چکی ہے اور اس کے زوال کا وقت اب قریب آچکا ہے،رفتہ رفتہ یہ خود اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔

     ایسے وقت میں بھارت کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ موجودہ نازک ترین حالات سے قطعاً مایوس نہ ہوں۔ الله تعالیٰ کی قدرت وکار سازی پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی قوتِ بازو پر اعتماد کرنا سیکھیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے صرف حکومت اور سیاسی پارٹیوں کی طرف نہ دیکھیں بلکہ اپنے مسائل کا حل اپنے اندر تلاش کریں،جذباتی مسائل کے تیز دھارے کے ساتھ اپنی تعلیمی،تجارتی اور اقتصادی حالات اور ان کی درستگی کی طرف خاطر خواہ توجہ دیں اور خود اپنے اندر اتنی صلاحیت وطاقت پیدا کریں،اپنی اہمیت کو اس طرح اجاگر کریں کہ پورا ملک آپ کے پیچھے چلنے پر فخر محسوس کرنے لگے اور آپ اکثریت کی نظر میں بھی ملک کا گراں قدر اثاثہ اور قابلِ قدر سرمایہ بن جائیں۔فراست مومنانہ کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان اس نازک اور بحرائی دور کو بڑھ کر خود اپنے قابو میں کرلیں اور پورے ملک میں انتشار وانارکی کی جو کیفیت پیدا ہو چکی ہے اس کے پیش نظر اپنے تدبر اور حکمت عملی کی صلاحیت کو بروئے کار لائیں اور اس خاکستر سے ایک جہان نو کو پیدا کرکے اپنے روشن مستقبل کی تعمیر کریں۔

     بابری مسجد کی شہادت اور قوم مسلم کے کشت وخون سے ہمارے سماج ومعاشرہ پر اس قدر اثر ہوا تھا کہ جس کا اظہار نوک قلم رقم کرنے سے عاجز وقاصر ہے۔آنکھیں نم ہیں، قلوب مغموم ومتفکر ہیں،زبانوں پر آہ وبکا کی لہریں ہیں، اقدام ڈگمگائے جاتے ہیں،زور بازو سیمیں مضمحل وناتوانی کے شکار ہیں،غرضیکہ کہ اعضائے رئیسہ مجروح ومریض دکھائی پڑ رہے ہیں،صرف مسلمانانِ ہند کے نہیں بلکہ اقوامِ عالم کی یہی آرزو ہے کہ واقعتاً جو کچھ سر زمینِ ہند پر بابری مسجد کے متعلق سے ہوا وہ نہایت ہی ظالمانہ،سفاکانہ،وحشیانہ، جاہلانہ،متعصبانہ،غاصبانہ،بہیمانہ کردار وعمل کا مظاہرہ تھا اور اقلیت کے ساتھ حد درجہ ناانصافی وحق تلفی کی گئی تھی اور حق تلفی کا یہ رویہ اب تک اپنایا جاتا رہا ہے۔ظالمو! تم اپنے عزائم کے تحت جیسی مہم چلا رہے ہو اور جس میں تم اپنی فتح مندی وکامیابی سمجھ رہے ہو درحقیقت اس میں نہ تمہاری کامیابی ہے نہ شجاعت ودلیری،نہ مذہبی کارکردگی، اس لیے کی یہ تمام چیزیں تم نے اپنے دجل وفریب،اپنی کثرت اور حکومت کی نصرت وحمایت سے معرضِ وجود میں لائی ہیں۔خوب یاد رکھو!دھوکہ فریب،مکاری وعیاری سے غلبہ حاصل کرنا اپنی کثرت کے بل بوتے پر اقلیت کو پائماں کر دینا، حکومت وقت کا سہارہ لے کر عوام الناس کو شکست دینا شیوہ جوانمردی اور دستورِ سپہ سالاری نہیں۔

 

    مسلمانو! عصر حاضر کے مصائب وآلام اور غم اندوہ کی بارشیں،مذہبی اشیاء متبرکہ کی بے حرمتی اور شعار اسلام کی ہتک عزتیں ہمیں جھنجوڑتی ہیں کہ تمہاری غفلت سے اغیار کو مواقع فراہم ہونے لگے ہیں،تمہارے صبر وضبط کے پیمانے لبریز ہو چکے،تم سوسو کر بہت کچھ کھو چکے،تمہاری خاموشی اور بے حسی نے غداران وطن کی زبان میں گویائی،اعضاء میں حرکتیں پیدا کردی ہیں،تمہاری مسلمانی شان اور ایمانی آن کو چنوتی دی جارہی ہے،تمہارے مذہبی وقار کو مجروح کیا جارہا ہے،تمہاری دینی حمیت اور غیرت ایمانی کو تہہ و بالا کرنے کے لیے ہر ممکن سعی وکوشش کی جارہی ہے۔مسلمانو!اٹھو!جاگو! خواب غفلت کی وادی سے نکل کر ایوانِ باطل کے در وبام کو زیر وزبر کردو،بزدلی کی نحوست سے باہر آکر شجاعت ودلیری کا جوہر دکھا کر ظالموں شرپسندوں کے پنجے مروڑ دو،ایمانی جولانیت سے اپنے شعائر وعلامات کے وقار کو مجروح نہ ہونے دو،اپنی شان وشوکت،دبدبہ وسطوت سے مسلم معاشرہ کے کھوئے ہوئے عزائم کو بلندی وہمت کا سبق پڑھا دو،تم اپنے اتحاد واتفاق کی ایسی مثال قائم کر دو کہ دنیا کے باشندے تھرا جائیں اور ان کے دلوں میں تمہاری عظمت کا سکہ جاگزیں ہو جائے کہ واقعی مومن کی جلالت شان اور ایمانی آن بان کے سامنے اقوامِ عالم کو سرنگوں وخمیدہ ہونے کے سوا چارہ کار نہیں اس سے مقابلہ،مقاتلہ،محاربہ،مجادلہ کرنا تو بڑی بات ہے چھیڑنے کے لیے بھی عظیم ہمت وشوکت کی ضرورت ہے۔

               ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن

               گفتار  میں  کردار  میں  الله  کی برہان

   مسلمانو!ہمیں ظالمان وطن کی مادی طاقتوں،ظاہری آلات و اسلحوں،حکومت وقت کی حمایتوں اور کثرتِ افراد کی زور آزمائیوں سے خوف زدہ وہراساں،لرزہ براندام وسرگرداں، مضمحل وناتواں،لاچار وحیران،نادم وپریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔اس لیے کہ ہمارے پاس ایمانی طاقتیں ہیں،ہمارے لیے،،لا تقنطو،،سرمایہ عظمیٰ اور دولتِ کبریٰ ہیں،ہمارے لیے،،لقد کرمنا بنی آدم،،کا تاج ہے۔ہمارے ہی لیے قرآن ناطق ہے،،وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین،،ہمیں سہارا ہے فضل ربی کا،رحمت مصطفےٰ کا،حمایت اولیاء الله کا،ہمیں ہمت ہے حضرتِ ابوبکر صدیق کی صداقت وامانت پر،ہمیں جرآت ہے حضرتِ عمر فاروق اعظم کی عدالت وشجاعت پر،ہمیں طاقت ہے حضرتِ ذوالنورین کی سماحت وسخاوت پر،ہمیں قوت ہے حضرتِ علی شیر خدا کی ولادت پر۔

                  اسلام تیری  نبض نہ ڈوبے  گی حشر  تک

                  تیتی رگوں میں خوں ہے رواں چار یار کا

   دعا ہے الله تعالیٰ مسلمانوں کو صدق وصفا،عدل ووفا،جود وسخا کا پیکر،دست وبازو میں شجاعت وبسالت،جرآت وہمت، طاقت وقوت کا جوہر عطا کردے،ان کے قلوب کو مجلی،مطہر ومزکی فرما دے،میدانِ کار زار میں فتح وغلبہ کا سہرہ مرحمت فرما کر غازی ومجاہد کے لقب سے ملقب فرما،اغیار کے اذہان وقلوب میں دہشت ووہشت ڈال دے تاکہ مسلمان فاتح و ناصر بنکر پرچمِ اسلام کو ہر چہار دانگ عالم میں لہراتا رہے اور چہار سو اعلاء کلمتہ الحق کا چرچہ وغلغلہ رہے اور مسلمانوں کو دیکھتے ہی قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہو جائے:

              ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

              رزم  حق و باطل ہوتو فولاد ہے مومن

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter