کربلا کا منظر

 اس خاکدان گیتی کو وجود بخشے نہ جانے کتنا عرصہ گزر گیا- اس عرصے میں نہ جانے کتنے حوادث رونما ہوئے- سورج اپنا فرضِ منصبی ادا کر کے روپوش ہوتا رہا- ستارے شب کی گھنگھور گھٹائیں ضو بار کرتے رہے- مختلف نت نئے انداز سے حادثات پذیر ہوئے- مگر ان میں سے کچھ ہی حاشیہ ذہن پہ محفوظ رہے- ورنہ اکثر و بیشتر واردات نسیا منسیا ہو گئے- انہیں میں سے کچھ ایسے ہیں جو تاریخ کے اوراق میں بکھرے پڑے ہیں- لیکن ایسا کوئی دل سوز اور روح فرسا واقعہ نہیں جو کائنات کے کونے کونے اور خطے خطے میں پھیلا ہوا ہو- ایسا کوئی درد انگیز واقعہ نہیں جس کی خونی داستان سنکر ہر ذی روح کانپ اٹھے- ہر انسان خواہ وہ ہندو ہو یا مسلم لرزہ براندام ہو جائے- ایسا کوئی المناک واقعہ نہیں جس کی یاد تازہ ہونے پر ہر ایک آنسو بہانے پر مجبور ہو جائے- اگر کوئی واقعہ ہے تو وہ سید الشہداء جگر گوشہ رسول، حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ اور ان کے اعزاز واقربا، دوست واحباب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے- جس کی روداد سننے کے بعد چودہ سو سال پیشتر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے- میدانِ کربلا کے منظر کا تصور کر کے آنکھیں اشک بار اور دل بے قرار ہو اٹھتا ہے- 

       گلشن کے سارے پھول لٹ گیے- دوپہر کی دھوپ میں ہرا پھرا چمن تاراج ہو گیا- اب شاخ گل سے ٹپکتا ہوا خون اور روندی ہوئی پنکھڑی کا تماشہ دیکھنے کے لیے اکیلا باغباں رہ گیا ہے- صبح سے اب تک سفیہ اہل بیت کے سارے ناخدا ایک ایک کر کے کوثر کی موجوں میں ڈوب گیے- حرم کی شہزادیوں، کاشانہ نبوت کی مستورات اور تاراج کارواں کے آخری محافظ حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ بھی اب پابرکاب ہیں- بادیدہ پرنم خیمے میں داخل ہوتے ہیں- حضرتِ شہر بانو، حضرتِ زینب، حضرتِ سکینہ اور عابد بیمار کے اداس چہرے سامنے ہیں- زندگی بھر کی رفیقہ حیات نوشیرواں کی پوتی حضرت شہر بانو سے کچھ کہنا ہے- ماں کی اداؤں کا آئینہ سگی بہن حضرتِ زینب کو سمجھانا ہے- لختِ جگر بیٹی حضرتِ سکینہ کو تسلی دینی ہے اور خاندان کی آخری امید گاہ نور نظر عابد بیمار کو نصیحت کرنی ہے- خیمے میں کہرام بپا ہے- سوتی ہوئی قیامت جاگ اٹھی ہے- ارمانوں کی دنیا لٹ رہی ہے- گھر کا تاجدار ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہا ہے- یتیمی آواز دے رہی ہے- بیوگی دروازے پر کھڑی ہے- حضرت شہر بانو کی زبان سے بس ایک جملہ نکلا اور ضبط وشکیب کے سارے بند ٹوٹ گیے- دبا ہوا اندوہ کا آتش فشاں پھوٹ پڑا- ہمارے سرتاج سب جاچکے ہیں اب آپ بھی نانا جان کے حضور جارہے ہیں جائیے- اس مبارک سفر سے آپ کو کون روک سکتا ہے- لیکن اے میرے کشور حیات کے والی! اتنا بتا جائیے کہ آپ کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بیٹیوں کا نگہبان کون ہوگا؟ آل ہاشم کے یتیم کس کا منہ تکیں گے؟ کس مجرم کی ہمراہی میں ہم مدینہ واپس لوٹیں گے؟ بیمار صغریٰ آپ کو پوچھے گی تو ہم اسے کیا جواب دیں گے؟ شیر خوار علی اصغر کا مچلتا ہوا ناز اب کون اٹھائے گا؟ حرم میں بیٹھنے والے کس چراغ کی روشنی میں اپنے نبی کی کتاب کا مطالعہ کریں گے؟ مدینے والے نانا جان کی تربت پر کسے اپنا سفارشی بنا کر لے جائیں گے؟  سب جاچکے ہیں اب آپ بھی جارہے ہیں- یہ صدمہ ہم سے کیسے برداشت ہوگا؟ آپ کے بعد ہم کیسے جی سکیں گے؟ یہ کہتے کہتے آواز بند ہوگئی اور آپ زمین پر غش کھا کر گر پڑیں-

         امام مظلوم نے سمبھالا- تھوڑی دیر کے بعد سکون ہوا تو امام عالی مقام نے صبر وتشفی کے کلمات تلقین فرمائے- آبدیدہ آنکھوں سے شیر خوار بچے کا پیار لیا اور اہل خیمہ کو بلکتا تڑپتا چھوڑ کر میدان کی طرف روانہ ہو گیے- جونہی تھوڑی دور چلے تھے کہ خیمہ سے نالہ وگریہ کا شور بلند ہوا پلٹ کر خیمے میں واپس تشریف لائے تو حضرت شہر بانو نے اضطراب کی حالت میں کہا! یہ دیکھیے شیر خوار علی اصغر کئی دنوں کی بھوک و پیاس کی وجہ سے دم توڑ رہا ہے- زبان سوکھ گئی ہے- گل قدس کی پتیاں مرجھا گئی ہیں- چند قطرے مل جائیں تو زندگی کی آس بندہ جاتی- لے جائیے اشقیا کے سامنے شاید انہیں رحم آجائے- موت وحیات کی کشمکش میں تڑپتے بچے کو گود میں لے کر امام عالی مقام باہر تشریف لائے اور اعداء کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا! دیکھو یہ شیر خوار بچہ ہے- کئی دنوں کے فاقہ سے ماں کا دودھ خشک ہوگیا ہے- کل سے اس کے حلق کے نیچے کچھ نہیں اترا- اب یہ موت کی ہچکیاں لے رہا ہے- اس نیم جان بچے پہ اگر تمہیں ترس آسکے تو چند قطرے پانی کے دے دو- کل ساقی کوثر کے نواسے تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولیں گے- دشمنی ہم سے ہے اس شیر خوار بچے نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ اور اگر کسی رشتے کا لحاظ کر سکو تو کم از کم انسانیت ہی کے ناتے سے ایک جاں بلب بچے پر رحم کرو- حضرت امام عالی مقام کی یہ درد انگیز تقریر سن کر اشقیاء نے ترس کھانے کے بجائے جواب دیا: جب تک آپ یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر لیتے ہم کسی طرح کی ہمدردی آپ کے ساتھ نہیں کر سکتے- اس کے بعد ایک شقی الاقلب نے کمان پر تیر چڑھا کر جو نشانہ لگایا تو تیر شیر خوار علی اصغر کا حلقوم چھیدتا ہوا امام کے بازو میں پیوست ہو گیا- فاطمی چمن کی زخمی کلی ذرا سی تڑپی اور خاموش ہو گئی- موج فرات شرم سے پانی پانی ہوگیا- امام عالی مقام نے بچے کے خون سے شرابور چہرا آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا! بے نیاز خداوند! ذبح ہونے والے جانوروں کے لیے بھی عمر کی قید ہے- مگر آج اپنے محبوب کے گھر کی یہ ننھی قربانی قبول فرما لے- ظلم و جفا کی دنیا سے منہ پھیر کر سوجانے والے قدسی مسافر کو گود میں لیے ہوئے جب امام عالی مقام خیمے میں پہنچے تو شہر بانو نے دوڑ کر پوچھا کہ بچہ پر سکون حالت میں نظر آرہا ہے- شاید اس کی بے چینی کا علاج ہوگیا ہے- امام عالی مقام نے بچے کی ڈنڈھی لاش ماں کی گود میں ڈالتے ہوئے کہا! لو تمہارا بچہ اب کبھی بے چین نہیں ہوگا اسے ہمیشہ کے لیے سکون مل گیا ہے- 

       سب کے سب جام شہادت نوش کر چکے اب تنہا ایک ابنِ حیدر کی ذات باقی رہ گئی ہے- جو لٹے ہوئے قافلے کی آخری امید ہے- اب وہ بھی رخت سفر باندھ رہے ہیں- خیمے میں ایک کہرام بپا ہے- کبھی بہن کو تسکین دیتے ہیں- کبھی شہر بانو کو تلقین فرما رہے ہیں- کبھی لختِ جگر عابد بیمار کو گلے لگاتے ہیں اور کبھی کمسن بہنوں اور لاڈلی شہزادیوں کو یاس و امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں- خون کا رشتہ دامن کھینچتا ہے- ایمان کا اشتیاق عقل کی طرف لے جانا چاہتا ہے- کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے بعد اہل خیمہ کا کیا حال ہوگا؟ پردیس میں حرم کے یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ دشمن کیا سلوک کریں گے؟ دوسری طرف شوق دامن گیر ہے- ملت کی تطہیر اور حمایت حق کا فرض نیزوں پر چڑھ کر آواز دے رہا ہے- بالآخر اہل بیت کے ناخدا- کعبہ معظمہ کے پاسبان- نانا جان کی شریعت کے محافظ حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ بھی اب سر سے کفن باندھ کر رن میں جانے کے لیے تیار ہو گئے-

       اہل حرم کو تڑپتا بلکتا اور سسکیاں لیتا چھوڑ کر حضرت امام عالی مقام خیمہ سے باہر نکلے اور لشکر اعداء کے سامنے کھڑے ہو گئے- دیکھنے والی آنکھیں اپنے امیر کشور کو، اپنے مرکز امید کو، اپنے پیارے حسین کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں- کہ ایک نشانے پر ہزاروں تیر چلے، تلواریں بے نیام ہوئیں، فضا میں نیزوں کی آنی چمکی اور دیکھتے ہی دیکھتے فاطمہ کا چاند گہن میں آگیا- زخموں سے چور، خون میں شرابور، سیدہ کا راز دلارا جیسے ہی فرش زمین پر گرا کائنات کا سینہ دھل گیا- کعبے کی دیوار ہل گئی، چشم فلک نے خون برسایا، خورشید نے شرم سے منہ ڈھانپ لیا اور ساری فضا ماتم و اندوہ سے بھر گئی- ادھر ارواحِ طیبات اور ملائکہ رحمت کے جلو میں جب شہید اعظم کی مقدس روح عالم بالا میں پہنچی تو ہر طرف ابنِ حیدر کی امامت اور یکتائی کا غلغلہ بلند ہو رہا تھا، سورج کو گہن لگ چکا، چاند اپنے چہرے پر غم و اندوہ کی سیاہ نقاب ڈال چکا، زمین کربلا کانپ اٹھی، سرخ وسیاہ آندھیاں صحرائے نینوا کے لق و دق میدان میں گم ہو گئیں، آسمان سے خون کی بارش بھی تھک گئی، رات دبے پاؤں سہمی سہمی سی آگے بڑھ رہی ہے- اندھیرا دبیز سے دبیز تر ہوتا جا رہا ہے- خیموں کے درمیان کچھ بے وارث بیبیاں نیزو تلوار کی یلغار سے بچ جانے والے یتیم اور بھوکے پیاسے بچوں کو اپنی گود میں سمٹے ہوئے بہلانے کی کوشش کر رہی ہیں- یہ شام غریباں ہے- شط فرات کے کنارے نصب ہزاروں خیموں میں جشن منایا جا رہا ہے- دن بھر کے تھکے ماندے سپاہی فرزند رسول کی شہادت کے بعد اطمینان کی سانس لے کر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں- کبھی کبھی قہقہوں کی آواز دشت نینوا کے بھیانک سناٹے میں اور بھی ڈراؤنی ہو جاتی ہے جس سے سہمے ہوئے بچے اپنی ماؤں سے چمٹ جاتے ہیں- مائیں انہیں حفاظت کا یقین دلانے کے لیے اپنی اپنی باہوں میں سمیٹ لیتی ہیں- عجیب بات ہے کہ عزیزوں اور وارثوں کی شکستہ لاشیں خاک و خون میں غلطیدہ ان بے وارث بیبیوں کی نگاہوں کے سامنے خون سے رنگین سر زمین کربلا پر بے گور کفن پڑی ہوئی ہیں- لیکن نہ جانے کیوں ان کے مقدس اور نورانی چہرے مایوسیوں، ناکامیوں اور محرومیوں کے آثار کے بجائے یقین، عزم، ثبات اور کامیابی و کامرانی کا الوہی نور دمک رہا ہے- ان میں سے ایک بی بی ہاتھ میں ٹوٹا ہوا نیزا لئے کبھی ان غمزدہ بیویوں کے پاس آکر ان کی گودیوں میں بیٹھے ہوئے بچوں کو دیکھتی ہیں، کبھی ایک دوسری بیوی کو ساتھ لے کر شط فرات کی طرف رخ کئے ہوئے قدم قدم پر رکتی ہوئی جھک جاتی ہیں- غور سے دیکھ کر آگے بڑھ جاتی ہیں- دونوں ہی بے مقنع و چادر البتہ چلنے کا انداز ہی کچھ ایسا ہے جیسے ضعف و نقاہت بار بار انہیں رکنے پر مجبور کر دیتی ہو- ساحل کے کچھ فاصلے پر دونوں محدرات ٹھٹھک جاتی ہیں- جن بی بی کے ہاتھ میں نیزہ تھا وہ بیٹھ جاتی ہیں- کچھ غور سے دیکھتی ہیں پھر دوسری بی بی سے گھبرا کر کہتی ہیں- دوسری بی بی بیٹھ کر اپنے چہرے کو اس پڑی چیز کے قریب لے جاتی ہے اور پہلی بی بی سے سسکیوں کے انداز میں کچھ کہتی ہے- پہلی بی بی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل جاتی ہے- پھر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں- اب دونوں بیویاں کلیجے سے لگائے دو بچّوں کو لے کر اس مقام کی طرف جہاں شہیدوں کی پامال لاشیں رکھی ہوئی تھیں سنبھل سنبھل کر اس طرح جارہی ہیں جیسے انہیں گر جانے کا اندیشہ ہو- دونوں بچوں کے ہاتھ پہلوں میں جھول رہے ہیں اور پیر بار بار بیویوں کے پیر سے ٹکراتے ہیں ان دونوں بچوں کو شہیدوں کے درمیان لٹا کر واپس ہوتی ہیں مگر جیسے کچھ خیال آیا پہلی بی بی ایک نشیب کی طرف بڑھ جاتی ہے- صرف ایک آواز، السلام علیکم یا ابا عبد الله، بھائی جان بہن رخصت ہونے کے لیے آئی ہے- زیادہ وقت نہیں دے سکتی- ابو عبد الله ذمہ داریوں کا بڑا بھاری بوجھ تم نے میرے کندھے پر رکھ دیا ہے- ابھی عباس سے ہاں، ہاں تمہارا قوت بازو تمہارا شیر حربی تمہاری سکینہ کا چہیتا چچا اور میری ڈھارس خانوادہ محمد کی امیدوں کا مرکز عباس یہ کہہ کر وہ بی بی اٹھتی ہیں اور ایک ایک قدم جیسے بوجھل ہو رہے ہوں- پتہ نہیں کس سے مخاطب ہیں، ہاں اتنی بات سننے میں آئی ہے- بہن میں اتنی طاقت نہیں کہ آسانی سے تم تک پہنچ سکے، لیکن بہن آئے گی ضرور، گود میں جو کھلایا ہے عباس آتو رہی ہوں لیکن پہلے تو آنکھیں بند کر لینا دوسری بات جو کہنی ہے وہ یہ کہ کوئی سوال نہ کرنا اب زینب کے پاس تمہارے بعد کسی سوال کا جواب نہیں ہے- تم نے بیچ بیابان میں زینب کا ساتھ چھوڑا اور عباس مدینے سے اتنی دور لق و دق صحرائے بے آب و گیا میں تم نے ساتھ چھوڑ دیا- عباس ہم آل محمد کے لیے یہ زمین بے آب و گیا ہی ہے- جہاں ہمارے بچے ایک ایک بوند پانی کو ترس ترس کر ایڑیاں رگڑتے رہے- جہاں کے شاداب درخت ہم اہلِ بیتِ رسول کو اپنے سائے میں پناہ نہ دے کر چٹیل میدان میں چھوڑ دیں تاکہ پیاس کی شدت اور سورج کی تپش سے ریاض فاطمہ کے نازک کومل پھول وقت کی باد مسموم میں خشک ہوکر بکھر جائیں- وہ سر زمین ہمارے لیے بے آب و گیا ہی ہے- عباس میرے بھائی، میرے شیر، خدا حافظ، بہن تمہارے فرائض انجام دے رہی ہے- میرے صف شکن یہ کہہ کر حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی یہ غیور اور شجاع بہن دریا کے ساحل سے پلٹی، اب قدم جلے ہوئے خیموں کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں- رات تسبیح و تہلیل اور شکر و اطمینان خداوندی میں گذاری گئی-

          گیارہویں محرم الحرام کا سورج اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ نکلا- لشکر نے کوچ کی تیاری شروع کر دی- کشتہ ہائے بحس بڑے تزک واحتشام کے ساتھ دفن کیے جا رہے ہیں- خاصان خدا کے پامال لاشے کربلا کی تپتی ہوئی زمین پر بے گور و کفن پڑے ہوئے ہیں- نبی زادیاں قیدی بنائی جاتی ہیں- ایک لاغر ناتواں نیم غشی کی کیفیت طاری لاوارثوں کے درمیان کھڑا کیا جاتا ہے- جس کی جوانی جیسے جلدی جلدی بڑھاپے کا لباس پہن رہی ہو- آنکھیں کثرتِ گریہ سے سرخ لیکن اسیری پر گریہ نہیں، بھوک اور پیاس کی شدت پر گریہ نہیں، بچوں کی صدائے العطش پر گریہ نہیں، باپ، بھائی، چچا، دوست واحباب کی شہادت پر گریہ نہیں، عالم غریب میں حوصلہ شکن بے بسی پر گریہ نہیں، خیموں کے جل جانے پر گریہ نہیں، مال واسباب کے لٹ جانے پر گریہ نہیں، ماں بہنوں کے سروں سے چادریں چھن جانے سے گریہ نہیں، باپ اور بھائی کی لاشوں پر دوڑتے ہوئے گھوڑوں سموں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پامال ہو جانے پر گریہ نہیں، شہدائے کربلا کے لاشوں کے میدان میں بے گور و کفن پڑے رہنے پر گریہ نہیں، اپنے چاروں طرف دشمنوں کی موجودگی پر گریہ نہیں، اپنی جان کے خوف سے گریہ نہیں، گریہ اور آنسؤں کی مسلسل دھار صرف اور صرف بارگاہِ خداوندی میں کائنات کے خالق و رازق کے حضور میں تشکر واطمینان کے اظہار کے لیے گریہ ہے- اس عظیم سعادت کے حصول پر عظیم کامیابی پر گریہ ہے- یزیدی کتوں نے حسین کا سر قلم کیا، پوری انسانیت کا سر قلم کیا اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ ان ظالموں نے آپ کے کٹے ہوئے سر اقدس کو نیزے پر چڑھا کر گلی گلی کھمایا۔ لیکن سنو! ظالموں نے کچھ بھی سوچ کر سر حسین نیزے پر چڑھایا ہو، مگر سر حسین جاتے جاتے نیزے پر بلند ہو کر یہ حقیقت دنیا والوں کے سامنے پورے طور سے ظاہر کرگیا کہ حق ہمیشہ سر بلند ہی رہتا ہے- صداقت کو ہمیشہ سرفرازی ہی نصیب ہوتی ہے- یہ تھی وہ داستان عشق و محبت جس کے ہر ہر موڑ پر ایثار و قربانی، عزم و استقلال کا کوئی عظیم پیکر یہ اعلان کر رہا ہے:
              جان تو دی مگر ایمان کو جانے نہ دیا
              عظمت   دین پہ   سر  اپنا کٹایا ہم نے
                                                   (خطباتِ محرم) 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter