شیخ الاسلام امام انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ اپنے اخلاق کے آئینے میں
جنوبی ہندوستان کے عظیم مصلح اور مجدد شیخ الاسلام فضیلت جنگ علامہ محمد انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اپنے زمانے کے عظیم نابغہئ روزگار میں ہوتا ہے۔ جہاں آپ اپنے وقت کے جید عالم تھے وہیں آپ سلطنت آصفیہ نظامیہ کے حکمرانوں کے اتالیق بھی تھے۔ درسگاہ میں آپ دین کے سپاہی تیار کرتے وہیں دربار شاہی میں امور سلطنت کی نگرانی کرتے ہوئے حکمران کی اصلاح بھی کرتے تھے۔اسی وجہ سے سلطنت آصفیہ کے آخری تاجدار اعلی حضرت نواب میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع کے ہاں بہت مقبول اور ممتاز مقام کے حامل تھے۔چنانچہ آصف سابع اور آصف سادس بوجہ رشتہ تلمذ کے آپ کے نہ صرف قدردان و مداح تھے بلکہ اصول سلطنت، تدبیرِ مملکت، نظم ونسق عامہ، اصلاح معاشرہ کی تدابیر، محکمہ امور مذہبی کی تنظیم جدید، شرعی قوانین و احکام کے نفاذ کے ہر موقع پر آپ سے صلاح ومشورہ لیتے اور اس پر عمل آوری کے لیے دل و جان سے کوشش کرتے تھے۔
علامہ فاروقی کی مذہبی رہنمائی میں آصف سابع نواب میر عثمان علی خان نے علم دوستی، علم پروری، رعایا کی فلاح و بہبود کے وہ رفاہی کارہائے نمایاں انجام دیے جسکی وجہ سے دکن کے علاقے کو پورے برصغیر میں ایک اعلیٰ اور نمایاں مقام حاصل ہوا۔ آپ کی صحبت بافیض کی برکت کہیے کہ سلطان دکن کو سلطان العلوم بنادیا۔ شیخ الاسلام کی علمی جلالت پر پورا عالم ثناء خواں تھا۔ وہیں آپ ایک خوش اخلاق، ملنسار، متواضع، اصاغر نواز، مہمان نواز، غریبوں اور مساکین کے پرسان حال تھے۔ انھیں اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ کی وجہ سے آپ پورے دکن میں مقبول اور محبوب نظر تھے۔ ہم یہاں آپ کے چند ممتاز ونمایاں اخلاق وکردار بیان کریں گے جس سے قارئین کو بحسن وخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ نہ علم وعرفان، شعور وآگہی میں آپ کا ہم پلہ اور نہ بلند اخلاق وکردار میں آپ کا کوئی ہمسر تھا۔
آپ کا حسن کردار وخوش اخلاقی:
بلند پایہ عالم اور مصلح ہونے کے باوجود آپ بڑے ملنسار اور خوش اخلاق تھے۔ خانگی اور سرکاری خدام اور ملازمین سے اس طرح برتاؤ کرتے کہ یہ تمام آپ کے شیدائی ہوجاتے تھے۔ کبھی کسی سے ترش روئی سے پیش نہ آتے، اگر کوئی غلطی بھی کرتا تو خندہ پیشانی کے ساتھ اس کی اصلاح فرماتے۔ ہر ایک سے عالمانہ وقار کے ساتھ ملتے اور شریفانہ انداز سے برتاؤ کرتے، کبھی کسی سے ایسی بات نہ کرتے جس سے وہ ناراض ہو جائے۔ آپ کے حسن خلق کا نتیجہ کہیے کہ آپ کے ملازمین اور خدام تاحیات آپ کی خدمت اور ملازمت کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔ جو ایک بار خدمت کرتا تو زندگی بھر خدمت کرنے کی خواہش ظاہر کرتا۔ بلامبالغہ لوگ آپ کی خدمت کو اپنی زیست کی سعادت اور آخرت کا سرمایہ سمجھتے تھے۔
آپ کی مہمان نوازی:
آپ بڑے مہمان نواز اور خاطر دار تھے۔ آپ کا دستر خوان کافی وسیع تھا۔ ہر وقت بلادِ عرب اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آپ کے پاس مہمان علماء وفضلاء موجود رہا کرتے تھے۔ مفتی رکن الدین قادری بیان کرتے ہیں کہ آپ کے دسترخوان پر ہر وقت بیس یا تیس مہمان رہتے تھے۔ آپ کی غذا سادہ تھی لیکن مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے رنگ برنگے پکوان تیار کرتے مگر آپ نہ کھاتے تھے۔ مہمانوں کی دلجمعی کی خاطر آپ ان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے ضرور لیکن مہمانوں کے لیے تیار شدہ متلون غذا تناول نہ فرماتے۔ بعض مہمان اپنی تنگ دستی کی وجہ سے آپ کے یہاں مہینوں قیام کرتے مگر آپ کبھی برا نہ مانتے بلکہ ان سے حال دریافت کرکے ان کی حاجت روائی کرتے اور بڑی بڑی رقوم عطا فرماتے تھے۔ جو چیز آپ کے بس میں نہیں ہوتی اسے سلطنت آصفیہ کے فرمانروا اعلی حضرت میر عثمان علی خان سے درخواست کرکے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے تھے۔
آپ کی سخاوت و فراخ دلی:
جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا کہ آپ بڑے مہمان نواز اور غریب پرور اور قوم وملت کے ہمدرد تھے۔ وہیں آپ بڑے فیاض اور سخی دل بھی تھے۔ غریبوں اور مسکینوں کی حاجت روائی آپ کا خاص وطیرہ تھا۔ اتنے فیاض تھے کہ جو کوئی آپ سے کچھ مانگتا یا مطالبہ کرتا تو بلا تامل اس کی ضرورت پوری کرتے اور دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔ شاہی دربار سے اتالیق ہونے کی وجہ سے بڑی بڑی رقمیں ملتی تھیں۔ بڑے بڑے نذرانے پیش خدمت ہوتے تھے لیکن آپ کی طرز زندگی کافی سادہ تھی۔ اپنی ذات پر کبھی خرچ نہ کرتے تھے شاہی دربار کی آمدنی غریبوں، مسکینوں، طالبان علوم دینیہ اور دینی امور میں خرچ کرتے۔ آپ اپنی پوری آمدنی ایک منشی کے پاس جمع کرتے تھے جو حسب ضرورت خرچ کرتا تھا۔ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ کبھی آمد وخرچ کا حساب وکتاب ملاحظہ نہ کرتے۔ بلکہ مہینے کے آخر منشی کو بلا کر پوچھتے کہ کچھ رقم باقی ہے یا نہیں اگر جواب نفی میں ہوتا تو خدا کی بارگاہ میں شکر کرتے اور جواب مثبت رہا، تو منشی کو حکم جاری کرتے کہ وہ باقی ماندہ رقم غریبوں پر خرچ کرے اور مدرسہ نظامیہ کی خانگی ضرورتوں کا بھرپور خیال رکھے۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ جمعہ اور متبرک ایام میں خاص طور پر صدقات و خیرات کرتے۔ یتیموں اور بیواؤں کی امداد کرتے اور ان کے لیے ہر ماہ رقم متعین کر کے بلا ناغہ ارسال فرماتے۔ جس طرح شاہی دربار سے غریبوں کی امداد کی جاتی تھی اسی طرح آپ کی بارگاہ سے بھی کئی لوگوں کی ضرورت پوری کی جاتی تھی۔اس کے علاوہ آپ کے دولت خانے پر کئی طلبہ قیام فرماتے جن کی تمام ضرورتیں آپ اپنے صرف خاص سے پوری کرتے تھے۔ کئی سارے طلبہ ایسے بھی تھے جن کو آپ کے دربار سے ماہانہ وظیفہ بھی ملتا تھا۔ یہ تھی آپ کی فیاضی وسخاوت۔ سبحان اللہ!
آپ کی خاکساری وفروتنی:
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:من تواضع للہ رفعہ اللہ فہو فی نفسہ صغیر وفی اعین الناس عظیم، ومن تکبر وضعہ اللہ عز وجل فہو فی اعین الناس صغیر وفی نفسہ کبیر، وحتی لہو اہون علیہم من کلب او خنزیر۔ جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرے، اللہ اسے رفعت سے نوازتا ہے، پھر وہ خود کو اپنی نظروں میں چھوٹا سمجھتا ہے جبکہ لوگوں کی نظروں میں وہ عظیم ہوتا ہے۔ اور جو شخص تکبر اختیار کرے، اللہ عز وجل اسے پستی کا شکار کر دیتا ہے پھر وہ خود کو بڑا سمجھتا ہے جبکہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہوتا ہے حتیٰ کہ کتے یا خنزیر سے بھی حقیر ہوتا ہے۔(مسند الشہاب/حدیث: 335)آپ کی ذات ستودہ صفات اسی حدیث کا مصداق اتم تھی۔ آپ کی علمی جلالت اور دینی رعب و دبدبہ کے باوجود آپ ہر ایک سے بڑی خاکساری سے برتاؤ کرتے تھے۔ اصاغر نوازی میں آپ کی مثال خود آپ تھے۔ آپ کے اخلاق اتنے وسیع تھے کہ اگر آپ کے ملازمین آپ سے جھگڑتے تو آپ انہیں سنجیدگی اور متانت سے سمجھا دیتے اور معاملہ کو حل کرتے۔ اپنے چھوٹوں کو بھی ’آپ‘ سے خطاب کرتے۔ چھوٹے اور بڑوں کو سلام کرنے میں آپ پہل کرتے۔ ہر ایک کے خوشی وغم میں شریک رہتے۔ اگر ان میں سے کوئی بیمار ہوجاتا تو خود ان کے گھروں کو جاکر تیمارداری اور عیادت کرتے۔ آپ کی خاکساری کا ایک دل افروز واقعہ مفتی رکن الدین قادری یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ فتوحات مکیہ کا درس ہورہا تھا، اسی اثنا پیرزادہ مولانا محمد شریف الدین احمد رودولوی رحمہ اللہ جو آپ کے شاگرد تھے تشریف لائے اور سلام و مصافحہ کے بعد قدم بوسی کے لیے خمیدہ ہو ہی رہے تھے کہ حضور شیخ الاسلام نے بخیال اعزاز پیرزادگی ان کے پیر چھولیے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا خاکساری ہوسکتی ہے۔ اپنے ہی شاگرد کے قدم محض اس لیے چھوتے ہیں کہ وہ پیرزادہ ہے۔ انھیں اخلاق کریمانہ کی وجہ سے آپ کی جس طرح دربار شاہی میں پذیرائی تھی کچھ اسی طرح عوام الناس میں بھی آپ کو مقبولیت اور محبوبیت حاصل تھی۔
ان نفوسِ قدسیہ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ آج ہمارے اندر سب کچھ ہے لیکن اخلاق وکردار مفقود ہیں۔ اسی وجہ سے غیر تو غیر اپنے بھی ہم سے دور ہیں۔ ان بزرگانِ دین کی پاکیزہ زندگی سے درس عبرت حاصل کر کے ہمیں اپنے اخلاق اور کردار کو مزین کرنا چاہیے اور جو ہم سے دور ہیں انھیں قریب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہی نبوی تعلیم بھی ہے۔ سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:صل من قطعک واحسن إلی من اساء إلیک وقل الحق ولو علی نفسک۔ یعنی جو تیرے ساتھ قطع رحمی کرے تو اس کے ساتھ صلح رحمی کر، جو تیرے ساتھ برا معاملہ کرے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر اور حق بات کہہ اگرچہ وہ تیری ہی ذات کے خلاف ہو۔ (ترمذی) لہذا ضروری ہے کہ ہم ان بزرگانِ دین کی زندگی کو مشعل راہ بنائیں اور دنیا و آخرت کی سرخروئی حاصل کریں۔ اللہ ہمارے اخلاق کو بلند کرے۔ آمین! بجاہ السید الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔