سی ایچ عیدروس مصلیار: شخصیت اورخدمات (قسط- 1)
والسابقون الاولون من المہاجرین والانصاروالذین اتبعہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضواعنہ واعد لہم جنات تجری من تحتہا الانہار خالدین فیہا أبدا ذلک الفوز العظیم (التوبۃ 100)
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پر گھس جانے کے بعد سرخرو ہوتا ہے انسان ٹھوکر یں کھانے کے بعد
ہردور میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی اصلاح واخلاص کی راہ بتانے کے لئے ان کوخواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے ایک برگذیدہ اوربزرگ شخص کو انکے درمیان معمار کی حیثیت سے بھیجتا ہے انہی میں سے شمارہونے والے حضرت علامہ عیدروس (مسلیار)صاحب ہیں جن کی جہد مسلسل ایثار وقربانی اور دینی خدمات کو دیکھکر آسمان دنگ او رزمین حیرت میں ہے۔ وہ مفکر ملت،جامع شریعت، عاشق علم وعلماء، بڑے پارسا وزاہد، جماعت اہل سنت میں اختلاف کو مٹانے کی سعی بلیغ کرنے والے، اتحاد علماء اہل سنت کے پیش رووحکیم الامت تھے۔ بچپن ہی سے سنتوں کا اہتمام کرنے والے تھے، او ردنیا کی دولت وعزت سے نفرت کرنے والے تھے، آخرت کی فکرکرنے والے صاحب کشف وکرامت بزرگ تھے، سی ایچ عیدروس صاحب کیرالا کے مسلمانوں کی ترقی کے لئے انتھک محنت و کوشش کرتے،اپنی جو انی ہی سے آرام وسکون کو ترک کر کے مدارس کی تاسیس میں شب وروز سرگرداں تھے،جس کا نتیجہ ہو ا کہ کیرالا کے ہرہر گوشہ میں اسلامی نو ر چمکا۔
ولادت:19/رجب 1349 ھ مطابق،10/دسمبر 1930 ء بروز بدھ وہ مبارک ومسعود دن ہے، جس مین آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔آپ کے والد کانام محمد مسلیار،اور والدہ کانام بی بی فاطمہ ہے۔محمد مسلیا رکے چار بچے۔ ۲ لڑکے،احمد کٹی مسلیار، عیدروس مسلیار‘ ۲لڑکیاں‘ کنجی بی بی،بی بی خدیجہ آپ کا خاندان دینی ماحول میں ڈھلا ہوا تھا،والدماجد عالم اورخد ا رسیدہ بزرگ تھے، انکا بچپن پد ُپرّمب(جو بہت سے بزرگوں کی جائے پیدائش ہے) میں ہی گذرا، بچپن ہی میں آغوش مادرسے محروم ہوگئے تھے،یہ المیہ انہیں ایک گھنٹہ کے بعدہی پہنچا وہ اس لئے کہ پیدائش کے ایک گھنٹہ کے بعدہی انکی مادرمشفقہ ہمیشہ کے لئے اپنے لال کو روکتا بلکتا چھوڑکر داعی اجل کو لبیک کہہ گیئں،مگر-
جسے خد ا رکھے اسے کو ن چکھے -حضرت سی ایچ عیدروس مسلیار صاحب اپنی والدہ کے اکلوتے لڑکے تھے انکی والدہ کے انتقال کے بعد والد نے دوسری شادی کی اور ساری اولاد اسی دوسری بیوی سے ہے
ان کے والد جوجیدعالم، بڑے بزرگ صفت،صوفی منش اور اللہ والے، علوم دینیہ میں مہارت کے ساتھ آدا ب طریقت واسر ار شریعت سے اچھی طر ح واقف کار تھے، نہایت ہی محنت ومشقت اور ناز ونعم سے آپکی پرورش کی جب آپ پا نچ برس کے ہوئے تو آ پکی ابتدائی تعلیم کی انہیں فکر دامن گیر ہوئی۔
تعلیم وتربیت:پانچ سال کی عمر میں آ پ اپنے ہمراہ لیکر مکتب میں داخل کر وایا جس کے مدر س خو د وہی تھے لہذا رسم بسم للہ خوانی خو د والد ماجد نے کرائی چند سالو ں کے بعد آپ نے جامع مسجد کلاری کے درس میں تعلیم شروع کی جہاں کے مدرس اعلی سی کے محمد مسلیار تھے جو عربی نحو وصرف میں مہارت رکھتے تھے۔ ان سے عر بی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد - شہر چیرورمیں واقع درس میں تعلیم حاصل کی یہاں مشہور صوفی بزرگ پنملاponmala محی الدین مسلیار مدرس تھے،یہ درس مسجد میں ہو اکرتا تھا۔1953 تک یہیں علم کی پیاس بجھاتے رہے،یہیں ان کی ملاقا ت ایم ایم بشیرمسلیار سے ہوئی جو ان کے رفیق در س تھے، بعدمیں یہی رفاقت نے گہری دوستی اور یار غار کاسا لبادہ اوڑھ لیاجس ہم نشینی کی مثا ل دی جاتی ہے۔نئی نئی فکریات سے مزین دونوں مصاحبین کو مزید زیور علم سے آراستہ وپیراستہ ہو نے کی خواہش نے جو ش مار ا تو آ پ نے گھر بار کو خیرآباد کہنے کے لئے سرمنھ تیار ہو گئے۔
لہذا اعلیٰ تعلیم کی تشنگی کی سیرابی کے لئے کیرالا سے باہر کا رخ کیا، اس دور میں جنوبی بھارت کی مشہور درسگاہ الباقیات الصالحا ت ویلورتھی اس کے لئے رخت سفرباندھا علوم دینی کی آسودگی کے لئے عازم سفرہوئے اور کشاں کشا ں جامعہ باقیا ت پہنچے مسلسل دوسال تک علم کے لازوال دولت کودامن
میں خوب سمیٹا،اس کے بعد تامل ناڈو میں واقع جامعہ الباقیات الصالحات سے عالم دین بنکراورباقوی سندلیکر اپنے صوبے کی طرف خوش وخرم لوٹے او رپھر کیرالا میں جو انقلاب برپا کیا وہ تو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ایسی کاشت کار ی کی اورایسے ایسے سیم وزر بوئے کہ اس زراعت کی لہلہاتی کھیتیوں سے میرا اذعان ہے کہ تاقیامت لدھے ہوئے پھل وپھول ہی چنیں گے!
اک نظر نے آدمی کا بول بالا کردیا خاک کے ذروں کو ہمدوش ثریا کردیا
واضح رہے کہ جامعہ الباقیات الصالحات ویلور کے مؤسس ایک سنی صحیح العقیدہ عالم باعمل اور مجاہد آزادی تھے اس عہد میں سنی اساتذہ کا دور دورہ تھا مگر بعد میں بقول شیخ آدم حضرت ایک غالی ومتعصب ومتشددتبلیغی کے عہدہ صدارت پرقابض ہونے کے بعد اچانک سارا نظام درہم برہم ہوگیا“اور اب تو پوری طر ح یہ ادارہ تبلیغی جماعت کے تحت ہے، جہاں بنام سنی پرندہ پر بھی نہیں مارسکتا!یہی وجہ ہے کہ شخ آدم حضرت کو سنیت کی بناء پر نہ یہ کہ عہد ہ سے معزول کردیا گیا بلکہ بادل نخواستہ ادارہ سے بھی جاناپڑا،راقم کو، حضرت آدم صاحب مدظلہ العالی سے غا لبا جون /۰۱۰۲کوملاقات کا شرف ملا ہے۔
(لیکن یہ آدم حضرت سی ایچ عیدروس صاحب کے استاذ نہیں ہیں، بلکہ دوسرے ہین جو غالبا عیدروس کے مصاحب ہو سکتے ہیں چو نکہ آدم حضرت ثانی بھی آدم حضرت اول کے تلمیذہیں یہ جانکاری،ہمارے روم پاٹنر مولانا محمد کے سی باقوی نے دی،کہ ایک آدم حضرت بہت پہلے تھے جو باقیا ت کے پرنسپل بھے تھے اس دور میں تبلیغیو ن کا نام ونشاں تک نہیں تھا ان کا انتقا ل آج ۱۱/جولائی 2010سے تقریبا /25 /30 سال قبل ہو چکا ہے)
وہ اسطرح کہ حضرت آدم حضرت جامعہ الباقیات الصالحات سے جانے کے بعد شری لنکا میں درس وتدریس کافریضہ انجام دیا،بعدہ فی الحال اپنے ہی گاؤں میں ایک ادارے کاکا م انجام دے رہے ہیں اسے خود انہوں نے اپنے بل بوتے پر بنایا ہے کام بہت کچھ ہوچکا ہے مگر بہت ہونا بھی باقی ہے جن میں خاص کر مدرسے کے چھت لدھنے کی باری ہے اسی سلسلہ میں وہ پرامید ہوکر اپنے شاگردوں کی زمین پر براجمان ہوئے تھے چنانچہ ہو ا بھی ایسا ہی۔ اتفاق سے جس کمرہ میں، میں تھا اسی میں ا ن کے ایک شاگرد بھی رہتے تھے ویسے ان کے شاگر د دارالہد ی میں کئی ہیں مگر علاقہ ونواحی میں بہتیرے ہیں،خیر وہ ہمار ے کمرے میں تشریف فرما ہوئے ظاہر ی شکل و صورت سے معلوم ہو تا کہ بہت تھکے ہوئے ہیں،او رہونا بھی چاہیے، کیونکہ تقریبا ان کی عمر ۰۶ /۰۷ کے درمیان تو ہو گی ہی او رچہر ے سے کچھ یو ں معلوم پڑتا تھاکہ شاید تبلیغ والے ہیں اس بناء پر میں زیادہ ان سے مانو س نہیں ہو اکہ اگر انہیں معلو م ہو جائے کہ میں سنی ہو ں تو کچھ کچھ بجھے بجھے سے رہیں گے چونکہ میں بھی یہی جانتا تھا کہ جامعہ الباقیات میں تبلیغیوں کا قبضہ ہے لہذا یہ بھی انہی میں سے ہوں گے اور میر اشبہ اس وقت یقین میں بدلتا ہو محسوس ہوا جب کہ انکے ہاتھ میں ذاکر نائک کا ایک پیپر دیکھا جسے میں نے اپنے میز پر چھوڑرکھاتھا، وہ چپکے سے مطالعہ کررہے تھے، اور جیسے ہی انہیں میرے آنے کی بھنک ہوئی فورا قریب ہی دوسر ے میز پر عجلت میں رکھدیا،میں نے سوچا ضرور یہ، انہی میں سے ہیں، جبھی تو وہ چھپ کر وہابیوں کا پرچہ دیکھ رہے تھے کیونکہ انکو میرے وضع قطع سے تو یقین ہو چلا تھا کہ یہ سنی شخص ہے, بات آئی,گئی,ہوگئی, البتہ دلی خدشات برقرار ہے پھر وہ دوسرے دن ہی مقابل گروپ کے شیخ سید خلیل بخار ی کے قائم کر دہ مدرسہ میں تشریف لے گئے،ان کے شاگرد وہا ں بھی پڑھاتے اورشاید شیخ سید خلیل بخاری بھی ان کے شاگردوں میں سے ہیں وہاں سے گاڑی آئی ساتھ میں ان کے ایک شاگر د بھی تھے معیت میں لے گئے اور پھر ہفتہ دن کے بعد تشریف لائے ادھر میں نے ان کی عدم موجودگی میں ان کے شاگردوں سے پوچھا کہ یہ حضرت کو ن ہیں اورکیا یہ تبلیغ والے ہیں تو پتہ چلا کہ نہیں یہ تو سنی ہیں اور شافع المسلک ہیں (یہ او ربا ت ہے کہ، بیڑی وسگریٹ،حنفیوں سے بڑھکر پیتے ہیں)پھر جب وہ حضرت دوبارہ تشریف لائے تو میں نے ان سے تسلی قلب کے لئے عرض کیا کہ حضور آپ جامعہ باقیات میں تھے؟ جواب ملا ہاں! میں نے عرض کیا: پھر کیوں چھوڑ دیا؟ تو حضرت نے وہ راز اگلا جو میں نے صدر کے متعلق اوپر ذکرکیا۔ ع
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
آپ(عیدروس) کے اساتذہ میں جناب سی کے محمدکٹی مسلیار،ایم محمدمحی الدین مسلیار،شیخ آدم حضرت، شیخ حسن حضرت،شیخ کے کے ابوبکر حضرت شامل ہیں اور آپ کے روحانی رہنما ؤں میں مولانا عبدالبار ی مسلیاررحمہ اللہ، پرسیڈینٹ جمعیۃ العلماء کیر الا اور باپو مسلیارچاپنگاڑی،شامل ہیں۔
فراغت کے بعدقریبا14 /سال تک -اُوْرگم- ضلع ملاپورم میں واقع درس میں تعلیم دی اور اڈکولم ضلع ملا پورم۴/سال،دین کی خدمات،سرانجام دی۔آپ کے دینی خدمات کی مثا ل،خود آپ ہیں،فراغت وحصول سندکے بعدپہلا درس -اورگم کُنڈور -جامع مسجدمیں بحیثیت مدرس دیا،طریقہ تدریس وتفہیم یہ تھا،اولا ترجمہ، اس کے بعد تشریح عبارت،بعدہ ازالہ شکو ک وشبہات، اور پھر سبق کو سننا، جس میں چالیس سے زیادہ متعلمین شامل درس تھے،جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد آفتاب ومہتاب علم وہنربنکر چمکے۔عیدروس صاحب میں علم کیساتھ، عمل بھی بدرجہ اتم موجود تھا، جو انکے شاگردوں میں بھی بخو بی پایا جاتاہے۔