عید میلاد النبیﷺ کو موثر کیسے بنائیں؟

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:’’بےشک اللہ سبحانہ نے مومنوں پربڑا اِحسان و انعام فرمایا کے اُن کے درمیان اُنھیں میں سے ایک پیغمبربھیجا، جو اُن پر آیات قرآنیہ کی تلاوت کرتا ہے، اُنھیں پاک وصاف اور ستھرا کرتا ہے اور اُنھیں قرآن وحکمت کی باتیں سکھاتا ہے، جب کہ وہ اِس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘(سورۂ آل عمران: ۱۶۴)

اِس آیت مقدسہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو نعمت قرار دیاگیا ہے، اور بلاشبہ بعثت نبوی سے عظیم تردنیا کی اور کون سی نعمت ہوسکتی ہے؟کیوں کہ دوسری تمام نعمتیں تو صرف دنیا تک ہی محدود ہوتی ہیںلیکن بعثت نبوی وہ منفرد وممتاز نعمت ہے جودُنیا میں بھی برابرفائدہ دیتی ہےکہ سیرت وسنت اور تعلیمات نبوی سے رشد وہدایت حاصل کی جاتی ہے،اور اَلحمدللہ!آخرت میں بھی یہ بڑافائدہ حاصل ہوگاکہ بندگانِ خدا کو شفاعت اور جام کوثرسےسیرابی نصیب ہوگی ۔

 اَب جب کہ یہ بات ثابت اور متحقق ہوگئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک ایک عظیم ترین نعمت ہے تواُس کا ذکراَور چرچا نہ کرنا رب کی ناشکری اور اِحسان فراموشی ہوگی بلکہ اُس عظیم ترین نعمت کی ناقدری بھی ہوگی۔اِسی ناشکری، احسان فراموشی اور ناقدری سے محفوظ رکھنے کے لیےرب تعالیٰ نےہم مسلمانوں کو یہ حکم دیاکہ’’ اپنے رب کی نعمت کو خوب خوب یاد کرو۔‘‘ (سورۂ ضحی)

گویا مجالس میلاد النبی کا انعقاداَور آمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذِکرخیر دَراَصل حکم ربی وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ کی تعمیل وتکمیل ہےاِس کے سوا اَور کچھ نہیں۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہےکہ مجالس میلاد النبی کے موقع پر کیا ہوتا ہےاور کیا کیا جانا چاہیے؟ تو اِس سلسلے میںبس اتنا جان لیناکافی ہے کہ مجالس میلادالنبی کے نام پر گاؤں،محلےیا شہر کے چند لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیںاور حیات طیبہ،کمالات ودرجات، وقت پیدائش کے عجائبات کے بیانات اور نعت خوانی اورحسب حیثیت صدقہ وخیرات کرنے جیسے اعمال اَنجام دیے جاتے ہیں۔  

جیساکہ مجالس میلاد النبی کی حقیقت پر گفتگو کرتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:’’ میلاد کی حقیقت یہ ہے کہ لوگ جمع ہوں، تلاوت قرآن کریں اور اُن آیات و اَحادیث کا بیان کریں اور سنیں جن میں آپ کی ولادت مبارکہ کا ذکر ہے، اور پھر شیرینی تقسیم کی جائےکہ یہ اچھے اعمال ہیں، اِن پر اَجروثواب ہے۔کیوں کہ اِس میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرومنزلت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوشی کا اظہار ہے۔‘‘ (حسن المقصد فی عمل المولد،ص:۴۱،دارالکتب العلمیہ، بیروت)

اب اگر اِس کے بعد بھی کوئی یہ کہتا ہے کہ مجالس میلاد النبی کے موقع پر کیے جانے والے جائز ومستحب اعمال بھی غیر شرعی ہیں اوربدعت ہیں، تو یقیناًاَیساکہنے والا سخت دھوکے میں ہے یاپھر وہ بڑاہی ناسمجھ ونادان ہے۔ 

پھرچوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہرطرح کی بُرائیوں کے خاتمے کےلیے ہوئی ،تو مجالس میلاد النبی کے موقع پر اُن پیغامات کو دنیا کے کونے کونےمیں پہنچایا جانا چاہیے جن سے بالخصوص تمام طرح کی سیاسی اورمعاشرتی بُرائیوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ مجالس میلاد النبی ہم مسلمانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جہاں سے ہم بڑی آسانی کے ساتھ ساری دنیا کو اَمن وآشتی اور اِتحادویگانت اور اِنسان دوستی کی دعوت دے سکتے ہیں، اِس لیے بڑے ہی منظم طورپر اِس مبارک محفل ومجلس کو منعقد کرنے اور اِنتہائی حکمت وتدبر کے ساتھ محمدی پیغامات بندگانِ خدا تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

چناں چہ باوجودیکہ مولاناسید اَبوالاعلیٰ مودودی سے بعض دینی معاملات میںہم صدفیصد متفق نہیں لیکن مجالس میلادالنبی کے موقع پر ترسیل پیغامات کے تعلق سے اُن کی ایک تحریر ہمیںبڑی پیاری معلوم ہوتی ہے،جسے ہم یہاں پر ’’حکمت، مومن کی گمشدہ دولت ہے‘‘ کے تحت نقل کررَہے ہیں،وہ لکھتے ہیں:’’ آج اُس عظیم الشان انسان کا جنم دن ہےجو زَمین پر بسنے والے تمام انسانوں کےلیے رحمت بن کر آیا تھا اور وہ اُصول اپنے ساتھ لایا تھا جن کی پیروی میں ہر فرد اِنسانی، ہرقوم و ملک اور تمام نوع انسان کےلیے یکساں فلاح اور سلامتی ہے۔ یہ دن اگرچہ ہر سال آتا ہے مگر اَب کے سال یہ ایسے نازک موقعے پر آیا ہے جب کہ زمین کے باشندے ہمیشہ سے بڑھ کر اُس دانائے کامل کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ معلوم نہیں، مسٹر برناڈشا نے اچھی طرح جان بوجھ کر کہا تھا یا بےجانے بوجھے، مگر جو کچھ اُنھوں نے کہا وہ بالکل سچ تھا کہ ’’محمد(ﷺ) اِس وقت دنیا کے ڈکٹیٹر(حاکم) ہوتے تو دنیا میں اَمن قائم ہوجاتا۔‘‘میں اُس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوںکہ’’ محمد صلی الله علیہ وسلم دنیا میں موجود نہ سہی اُن کے پیش کردہ اُصول توبے کم وکاست موجود ہیں۔اُن کے اُصولوں کو بھی اگر ہم راست بازی کے ساتھ ڈکٹیٹر(Dictator) مان لیں تو وہ سارے فتنے ختم ہو سکتے ہیں جن کی آگ سے آج نسل انسانی کا گھر جہنم بنا ہوا ہے۔ ‘‘(کتابچہ:میلادالنبیﷺ )

خلاصہ یہ کہ نبوی فضائل و کمالات کے بیانات اور غریبوں، یتیموںاور مسکینوں پر خرچ کرنےکے علاوہ مجالس میلاد النبی کے موقع پرآج بالخصوص واقعۂ طائف،صلح حدیبیہ، فتح مکہ، میثاق مدینہ اورحجۃ الوداع سے حاصل شدہ پیغامات کو دُنیا کے سامنے پیش کرناچاہیے، تاکہ ملک ومعاشرے میں اخلاق وکردار سازی کی جڑ مضبوط ہوسکے۔ کیوں کہ موجودہ زمانے میں تمام تر جدیدسہولیات کے باوجود اَگردُنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہےتو اِس کا ایک ہی بنیادی سبب ہے اوروہ اَخلاقیات کی پستی ہے۔جس طرح عرب کے تعلیم یافتہ اَفراد کواُن کے غیراَخلاقی رویوںنے اُنھیں کہیں کا نہیں چھوڑاتھا۔ یہی حال آج کے تعلیم یافتہ اَفراد کا بھی ہے کہ وہ اپنے غیراَخلاقی رویے کے سبب ہرمحاذپر ناکام ونامراد ہیں۔ اِس لیےمجالس میلاد النبی کو مؤثر بنانے کے لیے لازم ہے کہ اِس موقع پر رَحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق اورحسن معاملات کے اَسباق (Lessons)کوبہرصورت اَزبر کرایا جائے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter