بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کی ۲۷ ویں برسی پر قتل عام کا اعتراف اورڈچ حکومت کی معافی ، ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
۱۱ جولائی بوسنیائی مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کی ۲۷ ویں برسی پر نیدر لینڈ حکومت نے امن دستوں میں شامل ڈچ فوجیوں کے کردار اور مسلمانوں کے اجتماعی قتل کو نہ روک پانے کے لئے گہری معذرت کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ افراد کے لواحقین سے معافی طلب کی ہے گذشتہ روز پوٹو کاری میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران ڈچ وزیر دفاع جسا اولونگرین نے اپنے بیان میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی فورم سربرینیکا میں شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی اور وہاں جو فوج تعینات تھی وہ ڈچ فوجی دستہ پر مشتمل تھی اس لئے انہوں نے ڈچ فوج کے کردار کے تعلق سے معذرت طلب کرتے ہوئے معافی مانگی ’ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا ‘ ۱۹۹۵ کا سال مسلمانان عالم کے لئے ایک دردناک سال کے طور پر جانا جاتا ہے جس کی تفصیلات یاد کر آج بھی دل بے چین اور آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں-
یہ خون آلود داستان ۱۹۹۰ کی دہائی سے شروع ہوئی تھی جب یوگوسلاویہ کے کئی ٹکڑے ہو ئے تو ہر ٹکڑے میں اقتدار و رقبہ کے ساتھ ساتھ مذہبی بنیاد پر کئی تنازعات نے جنم لیا اور ان تنازعات نے مسلح تصادم کی شکل بھی اختیار کرلی بوسنیائی جنگ بھی ان میں سے ایک تھی جس میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا اور عالمی اداروں نے بھی اس وقت مسلمانوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا تھا بوسنیا ۔ ہرزیگووینا نے ۱۹۹۲ میں جہاں مسلمانوں کی آبادی ۴۴ فی صد اور کروواٹ کی آبادی ۲۲ فی صدی ہے ایک ریفرنڈم کے ذریعہ آزادی کا اعلان کیا جسے امریکی و یورپی یونین نے تسلیم بھی کرلیا مگر سرب حکومت نے بوسنیا میں رہنے والے سرب باشندوں جو عیسائی مذہب کے جزیات کے ماننے والے تھے اور ان کی آبادی ۳۳ فیصدی تھی کو اپنے ایک خاص مقصد گریٹر سربیا منصوبہ کے تحت ورغلایا اور بوسنیائی سرب آبادی نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کردیا اور سرب حکومت کی فوج کے ساتھ اپنے ہی لوگوں پرحملہ کردیا اس حملہ کا دفاع کرنے والے بوسنیائی مسلمانوں کا خوب قتل عام کیا گیا اور ۱۹۹۲ میں بوسنیائی سرب فورسیز نے سربرپنیکا جسے اقوام متحدہ نے جنگ زدہ ملک میں پناہ گاہ کے طور پر مخصوص کیا تھا اور اقوام متحدہ کی حفاظت کی یقین دہانی کے بعد یہاں بڑے پیمانے پر بوسنیا کے مسلمان پناہ لئے ہوئے تھے اس پر قبضہ جما لیا جسے بعد میں بوسنیا کے جاں بازوں نے چھڑا لیا تھا مگر ۶ جولائی ۱۹۹۵ کو سرب فرسیز نے ایک بار پھر پوری طاقت سے سربرینیکا پر حملہ کیا مگر اس بار نہ جانے کس وجہ یا سازش کے تحت اقوام متحدہ کی فوج جو نیدر لینڈ کے فوجی دستہ پر مشتمل تھی اور ان کا کمانڈرفلپ مورسن تھا انہوں نے سرب فوجیوں کے ذریعہ یرغمال بنائے گئے چند ڈچ فوجیوں کی رہائی کے بدلے ہتھیار ڈال دئے اورپورے سربرینیکا کوان کے حوالے کردیا -
حتیٓ کہ زبردست خون ریزی کے دوران جب نیٹو فوج کو فضائی حملہ کے لئے کہا گیا تو انہوں نے بھی انکار کرکے سرب فوج کو موقع فراہم کیا پھر ۱۱ جولائی کی وہ خوں آلود تاریخ رقم ہوئی جسے یاد کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اقوام متحدہ کی فوج و نیٹو فورسیز کی غداری کے بعد محض ۵ دنوں میں سرب فورسیز نے سربرینیکا کے پورے علاقہ پر قبضہ کرلیا اور قتل عام شروع کردیا ۱۱ جولائی کو ہزاروں مسلمانوں کو پھانسی دے دی گئی وہاں کے مسلمان جب اس علاقہ کو چھوڑ کر جانے کے ارادے سے گاڑیوں و بسوں میں سوار ہوئے تو ان میں سے مردوں و بالغ نا بالغ لڑکوں کو اتار کر انہیں گولی ماردی گئی اور سب کو بلڈوزر سے ڈھکیل کر بڑے گڑھے میں ڈال کر دفن کردیا گیا اس قتل عام پر پوری دنیا نے صدائے احتجاج بلند کی مگر نہ یورپ نہ امریکہ نہ اقوام متحدہ کہیں سے کوئی خاطر خواہ مدد یا کاروائی نہیں کی گئی -
اقوام متحدہ کی جانب سے پناہ گاہ کے طور پر بنائے گئے اس علاقہ میں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس دنیا کی چاق و چوبند فوجیوں کی موجودگی کے باوجود مسلسل ۱۰ دنوں تک جاری رہنے والا یہ اجتماعی قتل عام چلتا رہا جس میں عالمی میڈیا کے مطابق زائد از ۱۸ ہزار بوسنیائی مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا اور لاکھوں مسلم خاندان بے نشان ہوگئے ہزاروں مسلم خواتین و بچیاں جن کا آج تک کوئی پتہ نہیں اس واقعہ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی بی سی نے اس واقعہ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی سرزمین پر سب سے بڑا قتل عام قرار دیا تھا اس کے بعد بڑی مشکل سے اقوام متحدہ کے جنرل سیریٹری کوفی عنان کو کہنا پڑا کہ یہ قتل عام بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک حصہ تھا اقوام متحدہ کا نسل کشی کا اعتراف اور ٹریبونل بنا کر جنگی جرائم کے قصورواروں کی تلاش اور ان کے کردار کی جانچ کا دکھاوا اور بوچر آف بوسنیا ( بوسنیا کا قصائی ) کے نام سے پوری دنیا میں بدنام ہونے والے ریٹکوم ملادچ کو قصوروار ٹھرانے کا دکھاوااوراب ۲۷ سال بعد نیدر لینڈ کا اپنی نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگنے کا ڈرامہ کیاان مظلوم مسلمانوں کے لواحقین کے زخموں پر مرہم ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ وہ مظلوم آج تک بین الاقوامی برادری سے صحیح انصاف کے منتظر ہیں-