اب ابابیلوں کے لشکر نہیں آنے والے

مرکز میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے تب سے آئے دن مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔ کبھی احتجاج کے آڑ میں مسلمانوں کے گھروں کو نیست و نابود کیا جارہا ہے‘تو کبھی ٹویٹر پرٹویٹ  کرنے کی اور حق بات بولنے کی وجہ سے (آلٹ نیوز کی بانی محمد زبیر) کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جارہا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ابھی مشکل سے چند سال ہوئے کہ طلاق ثلاثہ کو لیکر اسلام پر کیچڑ اچھالا گیا۔ اسکولوں میں حجاب پر پابندی لگادی گئی۔ یعنی ہر طرح سے مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ابھی اسی مہینے پیغمبر اسلام علیہ الصلاۃ و السلام پر بیہودہ کلمات بولے گئے (نعوذ باللہ)۔ کیا اتنا کم تھا کہ پھر سے مسلم عورتوں نے طلاق حسن کو غیر قانونی بتاتے ہوئے عدالتوں میں عرضی داخل کر دی۔

دو دن پہلے کی خبر ہے کہ رضیہ ناز کو ان کے شوہر شہنشاہ عالم نے طلاق حسن کے ذریعہ اپنی اہلیہ کو طلاق دی حالانکہ ان دونوں کو شادی کئے ہوئے ابھی دوسال ہی ہوئے تھے۔ رضیہ اپنے شوہر کے اس عمل سے بہت خفا ہے۔ اور اس نے اپنے وکیل کے ذریعہ دہلی ہائی کورٹ میں طلاق حسن کو بھی غیر قانونی بتاتے ہوئے ایک عرضی داخل کردی۔ رضیہ کا کہنا ہے کہ طلاق حسن انسان کے بنیادی حقوق کے مخالف ہے اور یہ ہندوستان کے قانون دفعہ ‘14 ‘15 21 اور 25 کے خلاف ہے۔ رضیہ نے اپنے عرضی میں اس چیز کا بھی مطالبہ کیا ہے کہ تمام شہریوں کیلئے طلاق کیلئے مشترکہ بنیاد اور طریقہ بنائے بغیر کسی مذہب کی طرفداری کئے ہوئے۔ دوسرے لفظوں میں بولا جائے  تو یونیفارم سول کوڈ بنایا جائے۔ حالانکہ سپریم کورٹ میں بینظیر حنا کا طلاق حسن والا کیس ابھی التوا میں پڑا ہوا ہے۔ اس میں بھی جملہ تمام یہی باتیں کہی گئی ہے۔

میں اس بات کو لیکر بہت ہی گہری فکر میں مبتلا ہوں کہ ہمارے دین اسلام کی حفاظت کون کریگا؟  ہمارے شریعت اسلامیہ کی پاسداری کون کریگا؟  کیا ہم غیر مسلموں سے اس کی توقع کرسکتے ہیں؟  جب کہ ہمارے ہی نوجوان شادی شدہ جوڑے دوسروں کو مذہب اسلام پر کیچڑ اچھالنے کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔ أبغض الحلال الی اللہ الطلاق کو أحب الحلال الی اللہ کا رجہ مت دو۔ جب طلاق ثلاثہ غیر قانونی نہیں تھا تب وہ ہمارے معاشرے کا ایک ناسور بن گیا تھا۔ اور جب اس پر پابندی عائد کردی گئی تو اب طلاق حسن آہستہ آہستہ ہمارے شادی شدہ جوڑے کا جزء لا ینفک بنتا جارہا ہے۔ کیا ہم ایسے ہی کردار سے اپنے خدا و رسول کو راضی کرے گے۔ نوجوانوں ذرا ہوش کے ناخن لو کہ ہم کیوں اپنی شریکۂ حیات کو ایسا موقع دیں کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے؟ اور ذرا عورتیں بھی عدالتی کاروائی سے پہلے صبر و تحمل سے کام لے‘ ایسے معاملوں میں مفکرین اسلام سے مشورہ طلب کریں‘ ورنہ تمہارے ذریعہ دین اسلام کو مذاق بنا لیا جائے گا؟ کیا خدا اور اس کے رسول کو یہی کارنامہ دکھاؤگی؟ اب دین اسلام کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے۔ شریعت اسلامیہ کی پاسداری ہمیں ہی کرنی ہے۔ اس موقع پر مجھے معراج فیض آبادی کا شعر یاد آرہا ہے۔

اپنے کعبہ کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے

اب ابابیلوں کے لشکر نہیں آنے والے

طلاق دینے کے پیچھے کے اسباب و عوامل بہت کچھ ہوسکتے ہیں۔ جن عورتوں نے سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی ہے اس میں انہوں نے طلاق کے پیچھے جہیز کے اسباب ذکر کئے ہیں۔ اس کے علاوہ جہالت‘ غصہ اور چڑچڑاپن بھی طلاق کے دواعی میں سے ہیں۔ اس لئے میری فکر کے مطابق ضرورت کے ما تحت طلاق کے تمام اختیارات محکمہ کے حوالے کردیا جانا چاہئے یا جن ریاستوں میں دار القضا کو قانونی بالادستی حاصل ہے اس کے ذمہ سپرد کردیا جانا چاہئے۔ جس سے سماج میں بڑھتے طلاق کے رجحانات کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کیوں کہ کچھ اسلامی ملکوں میں جیسے سعودی عرب اور ملیشیا میں طلاق کے اختیارات محکمہ کو ہے۔ یعنی اگر میاں بیوی میں صلح نہ ہوپائے اور دونوں الگ ہونا چاہتے ہیں تو پھر محکمہ دونوں کی موجودگی میں بذریعہ طلاق تفریق کر دے گا۔

جیسا کہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ مجتہد کو عرف و عادات سے واقف ہونا ضروری ہے۔اور اس کے مطابق احکام میں تبدیلی کی گنجائش بھی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں بدعنوانیاں اتنی عام ہوگئی ہے کہ اس کی حد نہیں ہے۔ کوئی بھی مرد جب چاہتا ہے فون کے ذریعہ‘ میل کے ذریعہ‘ واپس ایپ کے ذریعہ اور دیگر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بغیر غور و فکر کے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دینا ہے۔ حالانکہ اسلام نے طلاق کا آپشن سب سے آخری میں رکھا ہے۔ اس سے پہلے صلح وغیرہ کے راستوں کو اختیار کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ لیکن آج کل کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس کو بالائے طالق رکھے ہوئے ہیں۔

میری آخری فریاد علماء کرام و فقہائے عظام سے یہ ہے کہ ضرورت کے تحت مذاہب اربعہ میں جو مسائل عورتوں کے بنیادی حقوق کے متعلق ہو جس میں ان کی رعایت کی گئی ہواور خاص طور پر وہ مسائل جو دور حاضر سے میل کھاتے ہو اس کو جائز اور عام کیا جائے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ یونیفارم سول کوڈ کو ہمارے اوپر تھوپ دیا جائے گا۔ یونیفارم سول کوڈ سے بدرجہا بہتر تو یہی ہے کہ ضرورت کے مطابق مذاہب اربعہ میں سے ہی ایسے فقہاء کے اقوال پر عمل کرے جو زمانۂ حال سے مناسبت رکھتے ہو۔ اور ایسی بات نہیں ہے کہ یہ غیر شرعی بات ہے۔ بلکہ شریعت نے اور فقہائے احناف نے خاص طور پر اس کے جواز کے قائل ہیں۔ جیسا کہ متأخرین فقہائے احناف نے مفقود الخبر شوہر کے مسئلہ میں امام مالک کے قول پر عمل کرنے کی تصریح فرمائی ہے۔ بی جے پی پہلے ہی سے یونیفارم سول کوڈ کے حق میں اب اگر ایسے میں مسلم عورتیں بھی ایسے مسائل میں مشترکہ قانون بنانے کی درخواست کرے تو پھر مجبورا اسلامی شریعت سے ہم ہندوستانی مسلمانوں کو ہاتھ دھونا پڑے گا(نعوذ باللہ)۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter