بانی دارالہدی اسلامک یونیورسٹی ڈاکٹر باپوٹی حاجی صاحب ؒ ایک نامور شخصیت
صنفان من امتی …… العلماء والامراء
دنیا میں ایسے لوگ بہت ہی کم پیدا ہوتے ہیں جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں اور دنیا سے جاتے جاتے ایک زبردست یادداشت چھوڑ جاتے ہیں انہی میں سے ایک مایہ ناز شخصیت فکروفن کے تاجدار د نیا ئے سنیت کے عالمی خدمتگار احکام خداوندی کے پاسدار با پوٹی حاجی صاحب ہیں۔
حاجی صاحب ایک سخنور اور سخن آرا شخص تھے سادگی کی زندگی بسر کرتے تھے حالانکہ ان کا شمار علاقہ کے امیرالامراء میں ہوتا تھا مگرہمیشہ تعلیم وتربیت میں مصروف رہتے تھے خرمن علم وفضل کے خوشہ چین تھے، گلشن علم وکما ل کے گل چین تھے، مسلمانان کیر الا کے درمیان ان کانام ہمیشہ ممتاز رہا ہے، او رسواکن کیرلااس کے احسان سے گراں بار ہیں ڈاکٹر یو باپوٹی حاجی صاحب بانی دارلہدی خادم دین وملت رہینِ قوم وملت مصلح ِقوم، رہبر قو م، امیر بے مثال جیسے بڑے بڑے اوصاف جمیلہ سے متصف تھے۔
1977 میں بنائے گئے سنی محل فڈریشن کے ایک مایہء ناز ٹرسٹی تھے اور بھی بہت سے مدارس کے عہدے آپ کے سپرد تھے مثلامدرسہ خدمۃ الاسلام چماڈ کے پریسیڈینٹ ودیا بھاسا(تعلیمی) بورڈ کے ممبر، مجلس الدعوۃ الاسلامیۃ کے پریسیڈینٹ، تانور اصلاح العلوم عربک کالج کے ٹرسٹی تھے۔
تاحیات باپوٹی حاجی مسلم جماعت کی بالیدگی میں مصروف رہے لیکن ان کے دل میں مال ودولت، نام وشہرت، دنیاوی حاجات کی کو ئی چاہت وخواہش نہیں تھی بلکہ ان کی حیات قران پاک کی اس آیت وَمَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ کے مصداق تھی‘ عقیدۃًٍ سنی صحیح العقید ہ تھے افکارونظریات میں بھی سنیت کوٹ کوٹ کر بھر ی تھی گویاہر طرح سے سنیت ان کے رگ و پے میں رچی بسی تھی یہی وہ ہستی ہے کہ کیرالا میں سنیوں کے آپسی تفرقہ بازی کو مٹانے کی حتی الوسع کوشش کی تھی پر افسو س کہ ان کی سعی رنگ لاتے لاتے رہ گئی۔
کیرالا کی سرزمین علماؤں کی سرزمین تھی یہاں بڑے بڑے اولیا ء صوفیا ء اور علماء نے جنم لیا تھا لیکن زمانہ کی برق رفتار ترقی میں ایسے ماحو ل کی ضرورت تھی کہ دینی طالب علموں کو دنیاوی علم سے روشناس کرا یاجائے تاکہ وہ دنیا کے ہم رکاب ہوسکیں اس عظیم الشان مقصد کے تحت اس عظیم انسان نے ایک ایسے ادارہ کے بارے میں سوچا جس میں متعلمین دینی علوم کیساتھ دنیوی علوم سے بھی روشناس ہوں اور زمانہ کے تمام چلینج کا بخوبی سامنا کرسکيں، ان کامقصد یہ بھی تھاکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ کے ہر فرد کو علم کے سانچے میں ڈھالکر ان کی ترقیات وحفاظت کے لئے نئی راہیں نکالی جائیں،اپنے اس خواب کی تکمیل کے لئے ا نہوں نے دارلہدی جیسا عظیم الشان کالیج کو قائم کیا ان کی زندگی کا مکمل حصہ اپنی قوم پر احسان سے گراں بارہے وہ ہر شکستہ دلوں کامدواکرتے تھے دینی خدمات کے لئے دلسوزی کرتے اوراس کے لئے فکر مند ر ہتے باپوٹی حاجی کی زندگی امت مسلمہ کی اصلاح وترقی کے لئے قرباں تھی۔
مومن کی بہر لحظہ نئی شان نئی آن کردار میں گفتار میں اللہ کی برہان
ولادت وبچپن: خاندانی پس منظر: باپوٹی حاجی کی پیدائش 1929ء ستمبر کو ہوئی، انکا اصلی نام کُنج اَورَان (ہارون) تھا پھر باپوٹی حاجی کے لقب سے مشہور ہوگئے یہ لقب نام کی صورت اختیار کرلیا، والد کانام کریم کُنجالنَ کٹیُِّ والدہ کانام عائشہ‘انکا خاندان اُلّاٹ کا نام چماڈ کے علاقہ میں مشہورہے۔ اپنے باپ کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں ان کوچھ لڑکے اور سات لڑکیاں ہیں آپ اپنے خاندان سے بہت پیار ومحبت کرتے تھے زندگی کی تمام مصروفیات کے باوجودانہوں نے حقوق والدین اور تربیت اولاد کی ذمہ داری نبھانے میں کوئی قصرو کو تاہی نہیں برتی، خاص طور سے ان کی توجہ اس بات پرہوتی تھی کہ اپنی اولاد کو زیور علم سے آراستہ وپیراستہ کریں خود تو شریعت کے پابندتھے ہی اپنے گھر میں بھی بچوں کو دینی ماحول میں رہنے کی سخت تلقین کرتے اور اس پرعمل پیرا ہونے کے لئے ایڑی چوٹی کازور لگاتے تھے بچوں کے بالغ ہونے کے بعد ہی ان کے لئے الگ الگ کمروں کا انتظام اور شادی کے بعد ہر ایک کو خود کا گھر بناکر دیتے تھے اس کے ساتھ ہی ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ کو ئی کہیں بھی ہو لیکن عید کے دن پورے خاندان ایک ہی گھرمیں اکھٹے ہوکر عید کی خوشیوں میں شریک ہوں گھر کے تمام افرادکو ایک نظر سے دیکھتے تھے اپنے اہل وعیال میں سے ہر فردکو اپنے پاس بٹھاکر انکو وعظ ونصیحت کرنا اورعلم کی اہمیت بتانا ان کے عادات میں شامل تھا۔
عادت وخصلت: آپ بچپن ہی سے امتیازی خصائص و شمائل کے حامل تھے اور حسن سیرت و صورت اور شرافت ونجابت میں بلند مقام رکھتے تھے انکے والدگرامی نے چھوٹے ہی سے اچھی خصلت سے پالا پوساتھاچونکہ ان کے والد کی سوچ وفکر دینداری ودیانتداری سے مملوء تھی اس وجہ سے وہ اپنی اولا د کو بھی ہمہ وقت دینی ماحو ل میں رہنے کی تربیت وتلقین کرتے جسکی بدولت بچپن ہی سے خداداد صلاحیت کے حامل بن گئے تھے ان کو بچپن ہی سے ایک خواہش تھی کہ لوگوں کے درمیان رہکر ان کی مشکلات کو جا نیں اور حل کرنے کی سعی بلیغ کریں جس کے لئے اللہ تعالی نے انکی راہ نمائی فرمائی اور وہ طبیب کے پیشہ سے وابستہ ہوگئے ان کی ایک خصلت اورتھی کہ وہ نمازی بھی تھے ان کا طریقہ تھاکہ وہ صبح کی نماز کے لئے طویل مسافت طے کرکے باجماعت نماز اداکرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے تھے، 1954ء میں حاجی ہو نے کے باوجود وہ ہمہ وقت ایک متعلمانہ زندگی گذارنے کو ترجیح دیتے تھے۔
تعلیم وتربیت: باپوٹی حاجی اپنی چھوٹی عمر میں محی الدین حسن مسلیار کے درس میں (رسم بسم اللہ خوانی)سے تعلیم حاصل کرنا شروع کیا اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی ا ور ساتویں سال میں ام ام ال پی اسکو ل میں داخلہ لیا، اپنى ابتدائی تعلیم ایک سے لیکر پانچ تک مکمل کی اور آٹھ یا دس سال کی عمر میں تِرورانغاڑی مدرسہ نورالہدی میں داخلہ لیا اور مادی علوم کے لئے وہ وہاں کی جی یو پی اسکول یتیم خانہ میں داخل ہوئے لیکن جب وہاں بدعت کے ہنگامے شروع ہوئے تووالدنے وہاں سے نکا لکر چماڈکے درس مدرسہ میں داخلہ کروایااور یہاں اسلامی تعلیم حاصل کی۔ بچپن ہی سے پڑھنے میں ذہین تھے اس وجہ سے والد و اسا تذہ وہم نشینوں میں بھی مقبول تھے 1943ء میں 13 سال کی عمر میں ابتدائی تعلیم مکمل کر کے آگے کی تعلیم حاصل کر نے کے لئے کالیکٹ کارخ کیا‘ 1946ء میں ایس ایس ایل سی پاس ہوئے پھر 1949ء میں کوتاکل (یونا نی اسپتال)ویدشالہ میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے داخل ہوئے اور ہومیوپیتھک میں مہارت حا صل کی ساتھ ہی حساب میں بھی ماہر تھے 1954ء میں گوناگوں تعلیمی ادوار ختم کرکے اسلامی طرز کو اپناتے ہو ئے دینی ودعوتی ادارے قائم کرنے میں مصروف ہوگئے اوران میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے، گرچہ دین کی پڑھائی زیادہ نہیں کی پر اسلامی طور سے پرورش کا اثر یہ رہا کہ ان میں دینی امور رچ بس گیا تھا چونکہ ان کے والدڈاکٹری پیشہ سے وابستہ تھے اس لئے وہ بھی یونانی ڈاکٹری سے جڑے رہے چنانچہ بیک وقت وہ طبیب بھی تھے نمازی بھی مصلح قوم بھی اور داعی بھی وہیں ان کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ طویل مسافت طے کرکے جمعہ کی نماز باجماعت ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے۔
حضرت باپوٹی حاجی صاحب دینی اورریاستی ماحول میں پلے بڑھے ان کی مکمل زندگی دینی اساسیت اور تعلیم وترقی کوشش میں گذری لہذا ان میں امت کے اجتماعی پہلو پر غور کرنے کی طاقت بدرجہ اتم موجود تھی وہ ایسے شخض تھے جو امت مسلمہ کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ باپوٹی حا جی ایسے بلند مرتبہ پرفائز تھے جو حق کے خلاف کرنے والوں سے ہمیشہ ناک بھوں چڑھاتے تھے بلکہ مبتدعین سے ہمیشہ خدا واسطے بیر رکھتے تھے، وہ ایک ایسی عظیم شخصیت ہے جس نے تعلیم وتربیت کا جھنڈا لہرایا اس کی زندگی کا ہرایک لمحہ اسلام کی ترویج وترقی کی کوشش وکاوش میں مصروف تھی، وہ ایک ایسی شخصیت ہے جس نے ظلم وضلال میں بھٹکتے ہوئے لوگوں کو راہ حق کے ساحل پہ پہنچایا۔ ان کے عادات و ا طو ار میں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بڑے شفقت ومحبت سے قریب کرتے تھے اور بزرگوں سے انتہائی احترام کیساتھ پیش آتے تھے ان کے سارے کام مطلب پرستی سے قطع نظر خدمات امت اور انکی حفاظت پر مبنی ہو اکرتے تھے اپنے ریاست میں دین کا وہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ ایک جما عت ملکربھی نہیں انجام دے سکتی آپ جیسا ولی صفت باعمل شخض چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتا۔
دارلہدی اسلامک یونیورسٹی ِباپوٹی حاجی کی رہین منت ہے
ویسے تو انہوں نے بیشمار کازکیے ہیں لیکن ان کی خدمات میں اہم اورسنگ میل کی حیثیت رکھنے والا کیرا لا کی عظیم دانش گاہ دارالہدی اسلامک یونیورسٹی ہے جو تقریبا چونتییس سا ل سے دینی وملی سرگرمیوں میں فعال ومتحرک رہکر دن دونی رات چوگونی ترقیوں کی راہ پر گامزن ہے دارلہدی اسلامک یونیورسٹی حاجی صا حب کے اخلاص وتقوی کی جیتی جاگتی نشانی ہے اس کی بنیادآپ حاجی موصوف صاحب کی جگر توڑ کوششوں و کاوشوں کاثمرہ ونتیجہ ہے، دار لہدی کی ترقی کو وہ اپنی زندگی کا اہم موڑسمجھتے تھے یہ ان کے خلوص کانتیجہ ہے کہ اتنے قلیل عرصہ میں دارلہدی اکاڈمی کا سفرطے کر کے یونیورسٹی کے درجہ علیا پرفائز ہوگیا۔ ان کی زندگی کی ایک دیرینہ خواہش تھی کہ ایک ایسا دینی مدرسہ قائم کیا جائے جس میں دینی اور مادی دونوں علوم پڑھایا جائے اس مقصد کی تکمیل میں ان کو بہت سے مصائب و آلام کا سامنا کرناپڑا، تمام مشکلات وتکالیف برداشت کرکے ایک بنجر زمین جو زیر آب تھی جہا ں گھاس پھوس کیچڑ اور ہرجگہ پانی جما ہوا کرتاتھا اسکے ساتھ چھ سات گز گڈھابھی تھا یعنی وہ ایک ا یسی جگہ تھی کہ وہاں کسی گھر اور بلڈنگ كو بنانے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتاتھا چہ جائیکہ مدرسہ اور دارلعلوم بنے‘ ایسی بارہ ایکڑ زمین کو خرید کر لاریوں سے مٹی لاکر بھرنا اور پاٹنا شروع کیامگر گڈھا تھا کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا، اس ناممکن ونامساعدحالات کو دیکھ کر لوگ حاجی صاحب پر ہنستے اور بھپتی کستے کچھ لوگ یہاں تک کہہ گئے کہ ان کی دماغی حالت وتوازن ٹھیک نہیں ہے، دماغ چل بسا ہے لیکن حاجی صاحب ایسے اخلاق کے دھنی تھے کہ ان باتوں کو سن کراَن سُنی کرتے ہو ئے اپنے دُھن میں مگن چلے جاتے گویا "من کے سچے دُھن کے پکے" کسى با ت کو خاطرمیں نہ لاتے ہو ئے سعی پیہم وجہد مسلسل کرتے ہوئے اپنے خواب وخواہش کوپورا کرنے میں دنیا ومافیہاسے بے نیاز ہو کر ہمہ تن مشغول مصروف رہے۔ع‘
مسلسل کاوشو ں سے ہی تقدیریں سنورتی ہیں جو تھگ کر بیٹھ جاتاہے وہ منزل پانہیں سکتا
جس وقت انہوں نے ایس ایم ایف جمعیۃ کے ماتحت ایم ایم بشیر مسلیار‘سی ایچ عیدروس مسلیار کی مشاورت سے دارالہدی کی تعمیر شروع کی تھی اس وقت کسى کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہاں ایک ایسا دین کا قلعہ تیار ہوگاجس کی تعلیم کا بگل پوری دنیا میں بجے گا۔
آخرکار بہ توفیق الہی علماء کرام و سادات عظام کی موجودگی میں 25 ستمبر 1983ء میں دارلہد ی کاسنگ بنیاد عالم باعمل متقی ومتورع کنیت احمد مسلیار کے دست مقدس سے رکھا گیا او ر 26 جون 1986ء میں مکمل ہوا۔ اور اسی سال تعلیم کا آغاز ہوا ام ام بشیر مسلیار ادارہ ہذاکے پہلے پرنسپل تھے، رفتہ رفتہ اس کی ترقی ہونے لگی اوردیکھتے ہی دیکھتے وہ خو ش نصیب دن آیا کہ اس گہوارہ علم وفن میں ہزاروں کی تعداد میں بچے تعلیم پانے لگے تعلیم میں زیادہ نکھار پیدا کرنے کے لئے علاقائی بچوں کو اردو وعربی زبان سکھانے کیلئے شمالی ہند سے اردو جاننے والے استاذوں کو بلایا، اس کاروائی کو اورآگے بڑھاتے ہوئے 1999ء میں مصرکی مشہو ر یونیورسٹی الازہر سے عربی ادب سکھانے کے لئے ایک استاذ کا تقرر کیاگیا مزید دینی دعوت عام کرنے کے لئے اسلامی وعصری تعلیم سے مزین مرصع علماء پیداکرنے کے لئے امت مسلمہ کے حقیقی درد وکرب کو محسوس کر تے ہو ئے بلغوا عني ولو آية - اطلبو العلم من المهد الی اللحد کا مجسمہ بنکر انکے مفاہیم کو دنیا میں منتشر کرنے کے لئے کیرالا سے باہر ہندوستان کے دیگر صوبوں کے نونہالان اسلام کی تعلیم وتربیت نے انہیں کچو کے لگایا،کیونکہ اسلامی رواداری ہمیں یہی درس دیتی ہے کہ مصلح قو م وہ ہو تا ہے جو صرف اپنی ذا ت وخاندان اور اپنے ہم نسلوں وہم لسانو ں میں محدود محیط نہ رہے بلکہ مصلح قوم وملت کی فکر آفاقی ہوتی ہے جو رنگ ونسل‘ قومیت وعلاقیت‘ صوبائیت و ملکیت سے پرے ہو کر سوچتی ہے، مصلح کی نظر میں اپنے اور بیگانے کا خط امتیاز معدوم ہو جاتاہے، مصلح کی نگاہ میں بس ایک پیغام ہو تاہے؟ اصلاح! اشاعت! ترو یج! بدلاؤ! تبدیلی!اور یہی مصلح کی اصلی علامت ونشانی ہے جو باپوٹی ؒو ایم ایم بشیر‘وسی ایچ عیدروس‘ نور اللہ مراقدہم میں کو ٹ کو ٹ کربھری ہوئی تھی۔
چنانچہ کیر الا وبیرون کیرلاکی خلیج کو پاٹتے ہوئے مصلح قوم وملت نے خارج کیرالا کی تعلیمی اصلا ح کے لئے 1999ء میں شعبہ اردو کا قیام عمل میں لایا اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ آج دارالہدی میں ہندوستان کے مختلف صوبوں کے طلباء بھی علمی تشنگی سے سیراب ہورہے ہیں اور اب وہی مدرسہ یونیورسٹی کی صورت اختیا ر کر گیاجو اب ہندوستان بھرمیں ہی نہیں بلکہ اس کی شہرت بیرونی ممالک میں بھی ہے بلکہ اسے شمالی ہندوستان کی عظیم یونیورسٹیوں میں گناجانے لگاہے جسے ابھی چند دن پہلے ہی اس عمدہ خطاب سے نوازا گیاہے۔
آج دارلہدی جیسی عظیم الشان یونیورسٹی کی آن بان شان وتابانی کو دیکھ کراپنے تو اپنے بیگانے بھی حاجی صا حب کی مدح سرائی کیے بغیر نہیں رہتے جو حضرا ت طعنہ مہنہ کرتے تھے اب وہ انگشت بدنداں ہیں۔یقینا وہ دل ہی دل میں کہتے ہوں گے:
ہماری باتیں ہی باتیں تھی حاجی کام کرتاتھا
دارالہدی آج بھی رو بہ ترقی ہے بلکہ یہ جامعہ تعلیمی میدان کا ایسانظارہ ہے کہ چشم فلک نے اس کی مثال خال خال ہی دیکھاہو گا۔!
دارلہدی کی تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ترقی کے ہر ورق پرباپوٹی حاجی صاحب کانام لکھا پا ئیں گے گویا دارلہدی کانام باپوٹی حاجی اور باپوٹی حاجی کا نام دارلہدی ہے۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ہر کام کو سوچ بچار، جانچ پرکھ کر کرتے، احتیاط سے کام لینا ان کا شیوہ تھا۔ ایک لفظ میں ہم یوں کہیں کہ وہ دیدہ بیناء قوم وفکر رسا تھا تو بجا ہوگا۔ آج دارالہدی یونیورسٹی سنیت کا ایک عظیم گڑھ ہے جس کے نام ہی سے وہابیوں اور متبدعین کی ہو اچھوٹتی نظرآتی ہے۔
نگہ بلند سخن دلنوازجاں پرسوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
عالی جناب باپوٹی حاجی صاحب نے صرف دارالہدی ہی نہیں قائم کیا بلکہ اسکے ساتھ اپنے محلوں کی تعلیمی تر قی اوراتحاد واتفاق کے لئے ہمہ دم کوشاں رہے جس کی جیتی جاگتی مثا ل 1977ء میں قائم کیا گیا ایس ایم ایف SMFنام کی جمعیۃ ہے۔
وہ چماڈ کے باشندے تھے جنہوں نے اپنے دور حیات میں اپنے گاؤں کو کافی ترقی دی، الغرض وہ ہر پہلو سے امت کے محافظ اور ان کے غمگسار اور ہمدردتھے، وہ استقامت کے پہاڑ تھے، حق وباطل نور و ظلمت میں کامل خط امتیازبرتنے والے تھے ، ورع‘ تقوی‘اخلاص وصداقت اورذوق عبادت و دینداری میں راسخ تھے۔ بلند ہمتی شجاعت اور صلحائے امت کی سیرت سے عبرت حاصل کرکے زندگی بسرکرنا ان کی عادت مستمرہ تھی۔
علماء صلحاء کی صحبت نے ان کو صوفی بنا دیا تھا خصوصا سی ایچ عیدروس‘ وایم ایم بشیر مسلیار‘ کی صحبت بابرکت سے زیادہ متاثرتھے۔ ان کی معیت وصحبت کا نتیجہ تھاکہ وہ اعلی مرتبہ پر فائز ہو چکے تھے اورباین وجہ اخلاق واصلاح و تر بیت میں ہمہ تن مشغول ہونے کیساتھ ساتھ درس وتدریس اورمذہب اہل سنت کی نصرت وحمایت میں مصروف رہے وہیں عبادت وریاضت میں سنت نبوی کی پیروی کو اپنا شعار بنانے میں ذرّہ برابر بھی غفلت نہ برتے، جسکی دلیل یہ ہے کہ بڑے سے بڑا کام آن پڑے توبھی عبادت کے وقت میں ان کو ترک کردیتے اورپورے انہماک کیساتھ یاد خدا میں متوجہ ہو جاتے ان کے بارے میں یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ ان کی قمیص میں جو بٹن كى جگہ تھی اسمیں شایدکانٹایاچھوٹی لکڑی لگایا کرتے تھے اوریہ چیز بھی کافی زمانہ سے استعمال کرتے تھے جبکہ ماشااللہ اپنے محلے كے مالداروں میں شمار ہو تے تھے۔ ان کے اخلاص وتوکل کا یہ عالم تھا کہ دارالہد ی کی تعمیر میں صدقہ وغیرہ لینے کے لئے بھی وہ کسی کے سامنے سر نہیں جھکاتے تھے بلکہ لوگ خود سے آکر ان سے مدد دینے کی درخواست کر تے۔ وہ مالدار تھے‘ لیکن اسراف سے کوسوں دور تھے‘ مالدار ہو نے کے باوجود ہم عصر اہل ثروت سے زیادہ سیدھی سادی زندگی گذارتے تھے‘ مال ودولت کو تبلیغ دین واشاعت کے لئے ہی خرچ کرتے‘ فقیرانہ لباس میں مست رہتے تھے"درویش صفت باش کلاہ تتری دار "کے مکمل پاسدار تھے۔
اپنا زاد معاش اپنے یونانی میڈکل سے ہی سنبھالتے تھے وہ بیحد دیندار اور نہایت اخلاص کے پیکر تھے وہ مسلمانوں کے آنکھوں کی ٹھنڈک لوگوں کے دلوں کے موتی تھے الغرض ایک اچھے مومن ہونے کے سارے گن ان میں موجود تھے جس راہ میں چلے وہ راستہ روشن کردیا ان کااخلاص قابل عمل و لائق دیدتھا۔ سچ کہا ڈاکٹر اقبال نے۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پرنہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گذر رکھتی ہے
اس وقت ان کانام اور کام، زمانے میں آفتاب ومہتاب کی طرح دین کااجالا پھیلا رہاہے وہ ایسے پاکدامن وعفت کے پیکر تھے کہ لوگوں کی کوئی غلطی دیکھتے تو اس پر قدغن لگانے کی کوشش کرتے اور نہ یہ کہ فقط روکتے ٹوکتے بلکہ اسے درست کرکے بتاتے کہ اسطرح نہیں‘ ایساہے‘ ان کی پرہیز گاری کا یہ عالم تھا کہ دارلہدی جسے خود ایڑی چوٹی کے زورسے بنایا مگر اس کا ایک گلاس پانی اور چائے بھی بلا معاوضہ پینا گوارہ نہیں کرتے اور اگر پیتے اور کھاتے تو اس کا عوض دارلہدی کے چندہ کے ڈبہ میں ڈال دیتے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ خلوص للہیت ورع تقوی کے کتنے اونچے درجہ پرفائز تھے۔ باپوٹی حاجی صا حب کاعمل وتقوی ان کے لئے درس عبرت ہے جولوگ دورحاضرمیں مدرسوں کے نام پرچندہ کرکے اپنا دھندہ اورمکان چمکاتے ہیں اور مدرسہ کو پیسہ کمانے کا ذریعہ بناتے ہیں مدرسہ کا کھانا پانی کی بات ہی نہ پوچھئے خود بھی کھاتے اور ساتھ میں پوری فیملی کوکھلاتے ہیں اسی پر بس نہیں موقع ملے تو قوم کی ساری رقوم ہضم کرجاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے ہیں۔
باپوٹی حاجی صاحب کے ان جیسے اوربھی بہت سے واقعات وحالات اورکارنامے ہیں جو رہتی دنیا تک قابل یادگار اور غیروں کے لئے درس عبرت و لائق ستائش ہے گویا ان کی زند گی اوروں کے لئے نمونہ عمل ودیدہ مثال ہے۔
ان کا دل سمندر کی طرح وسیع وعریض تھا ان کی فراخ دلى وفیاضی کا یہ عالم تھا کہ کوئی دوسرا اس وصف میں آپکا مماثل نہیں تھاجیسا کہ بیان کیاجاتاہے کہ جب تک وہ یونانی ڈاکٹر کاعہدہ سنبھالے رہے اس دوران بہت سے غریب لوگوں کی بغیر فیس کے ہی مریضوں کی جانچ پڑتال کرتے تھے معاً ان کی مالی امدا دبھی کرتے غرباء پرتوجہ خاص فرماتے اپنی وسعت سے بڑھکر مدد چاہنے والوں کی مدد کرتے، زندگی کے ہر لحظہ کو خداکی مرضی میں گذارنے کی کو شش کرتے، وہ سبھی سے محبت کر تے،مسلم امت کو ایک ہی پرچم کے تلے جمع کرنے کے دلی خواہاں تھے مسلم امت کے حالت زار اور خستہ حالی پردل درد مند رکھتے تھے ان اوصاف کی بدولت ان کامقام اعلی شاہکاروں کی فہرست میں نمایاں ہے۔
کہا یہ بھی جاتا ہے کہ جب وہ حج کو تشریف لے گئے تھے تو وہا ں جو حضرات بیمار پڑتے اور ان کو دوا وغیرہ کی ضرورت بڑتی تو باپوٹی حاجی دوا کا نسخہ تجویز کرتے اسکا اگر کوئی عوض دیتا تو اسے بحفاظت رکھ لیتے چنا نچہ دوران حج انہوں نے اس طرح اتنا پیسہ جمع کرلیا کہ اپنے چماڈ کی مسجد اسی پیسہ سے حج سے واپس ہونے کے بعد تعمیر کرائی۔ سچ کہاہے شاعرنے۔
أیاقبرہاج کیف واریت جودہ لقد کان منہ البر والبحرمترعا
انتقال پرملال: زندگی کے آخری ایام میں بخار میں مبتلا تھے پھر بھی دن رات دارلہدی کی نگہبانی کے لئے تشریف لایاکرتے۔ انتقال کے وقت اپنے بچوں کو پاس بٹھا کر نصیحت کی لیکن ان کے آنکھوں میں آنسوں کے قطرات اولاد واقرباء کی جدائی کے نہیں تھے بلکہ دارلہدی کے لئے ان کی آنکھیں رواں تھی چونکہ وہ خاندان سے زیادہ دارلہدی سے محبت کرتے تھے۔ انہوں نے انتقال سے قبل اپنا کفن خرید کر رکھ لیاتھا جیسے انہیں معلوم ہو کہ اب میں عنقریب اس دار فانی سے کو چ کر جاؤنگا‘ آخر کار دنیا کا یہ انمول ہیرہ ۲۲ جولائی 2003ء بمطابق ۲۲ جمادی الاولی 1424 ہجری کو اس دار فانی سے دار بقاکی طرف رحلت فرماکر اپنے مولائے حقیقی سے جا ملا‘ انا للہ وانا الیہ راجعون ”انتقال کے وقت باپوٹی حاجی صاحب کی عمر 83 برس کی تھی انتقال کی خبر سنتے ہی لوگوں کے آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ گیئں ان کے داغ مفارقت کا غم اتنا گہرا ہے کہ ان زخموں کو مندمل ہونے میں برسوں لگےگا اور پھر بھی نشان تو باقی ہی رہےگا ان کی زندگی کا ہرلمحہ یہ آواز دیتا نظر آ تا ہے۔
جان کر منجملہ خاصان میخانہ مجھے مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
و ماکان حاج ہلکہ ہلک واحد ولکنہ بنیان قوم تہدما
اللہ ان کی خدمات جلیلہ او رمذہبی کاوشوں کو قبول فرمائے آمین۔