آزادئی ملک میں شہزادہ اعلیٰ حضرت کا کردار
کانگریس کا نرم دل 1857/ عیسوی کی فوجی معرکہ آرائی کی ناکامی کو مد نظر رکھتے ہوئے تحریکِ آزادی کو پر امن طریقے سے چلانا چاہتا تھا- ملک کو آزاد کرانے کا جذبہ اس قدر قوی ہوگیا تھا کہ کانگریس کے نرم دل اور اہنسا وادیوں میں کچھ لیڈر اہنسا (عدم تشدد) ترک کرکے جنگ و جدال کا راستہ اپنانا چاہتے تھے- لیکن حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
،،کیا نہتوں کو ان سے (انگریزوں سے) جو تمام ہتھیاروں سے لیس ہوں لڑنے کا حکم دینا سختی نہیں ہے خلاف انصاف نہیں ہے؟ کیا ایسوں کو جنہیں ہتھیار چلانا تو بڑی بات جو اٹھانا بھی نہیں جانتے، جن کے وہم میں بھی کبھی نہیں گزرا کہ بندوق کس طرح اٹھاتے ہیں، تلوار کیوں کر اٹھاتے ہیں تیغ کیسے چلاتے ہیں؟ جنہوں نے کبھی جنگ کے ہنگامے، لڑائی کے معرکے خواب میں نہ دیکھے، انہیں توپوں کے سامنے کر دینا کچھ زیادتی نہیں ہے کیا؟
(احکام الامارت والجہاد، صفحہ/30)
خونی معرکہ آرائی کے نتیجے اور بھارت کی عوام کی قابلِ رحم حالت بیان کر کے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان نے تحریکِ آزادی میں ہنسا ،،تشدد یا جنگجوئی،، کے استعمال کی مخالفت کی- یہ وہ وقت تھا جب گاندھی جی بھی ابو الکلام آزاد کو ،،فتویٰ جہاد،، جاری کرنے سے نہ روک سکے- نہ ہنسا کے استعمال کی مخالفت کرسکے- حقیقت تو یہ تھی کہ تحریکِ خلافت، تحریکِ ہجرت اور تحریکِ جہاد وغیرہ کانگریسیوں ہی نے چلائی تھیں اور موہن داس کرم چند گاندھی جی پارٹی کے ہیڈ اور خاص الخاص بلکہ روح رواں تھے- لہٰذا یہ صرف ابو الکلام آزاد کی تحریک نہیں تھی بلکہ گاندھیائی اور کانگریسی تحریک تھی جس کی مخالفت اور جس کا رد سیدی سرکار اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان نے بھی کیا تھا اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان نے بھی- حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان ،،جہاد بالسیف،، کے حمایتی تھے لیکن مذہبِ اسلام نے ،،جہاد بالسیف،، کی شرطیں بتائی ہیں اور جب وہ شرطیں پوری ہو رہی ہوں تو جہاد بالسیف کیا جاسکتا ہے- کیونکہ یہاں اسلامی جہاد بالسیف کی شرطیں موجود تھیں لہٰذا حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان نے ہندوستانیوں کو ،،جہاد بالسیف سے روکا-
(تحریک جہاد صرف ہندوستانی مسلمانوں کے لیے چلائی گئی تھی اس لیے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان نے مسلمانوں کو اس سے روکا اور اس کے جان لیوا نتائج سے مسلمانوں کو خبردار کیا- حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان لکھتے ہیں
،،نہ ہمارے پاس ہتھیار جنگ ہی انگریزوں جیسے ہیں- نہ ہی باقاعدہ فوج ہے- نہ کوئی سلطان ہے- اس لیے جہاد مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے،،
(احکام الامارت ولجہاد، صفحہ/ 32)
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے ابو الکلام آزاد کی تحریک جہاد کو غیر اسلامی قرار دے کر خونی جد وجہد سے روک دیا- نتیجتاً تحریک آزادی، ہنسا، تشدد کا استعمال نہیں ہوا- اگر حضور مفتی اعظم ہند دور اندیشی اور اپنی بصیرت کو بروئے کار لاکر مولانا آزاد کے فتویٰ کی تردید نہ کرتے تو اس تحریک آزادی کا حشر بھی 1857/ عیسوی کی تحریک آزادی جیسا ہوتا- ملک کی آزادی میں حضور مفتی اعظم ہند کا بڑا اہم حصہ اور کردار ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا اور ہم آزادی کے لیے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان کے ممنون احسان ہیں-
(ماخذ- پیغام رضا کا حضور مفتی اعظم ہند نمبر، صفحہ نمبر/ 13)
آج کے اس مضمون میں مجھے صرف اتناہی کہنا ہے کہ آج منصوبہ بند انداز میں جس طرح سے مسلمانوں کی کردار کشی کی جارہی ہے اس کے پیشِ نظر ہمیں بیدار رہ کر اپنے اسلاف کی روشن و تابندہ شخصیات کو اُجاگر کرنا چاہیے اور آنے والی نسل کے دل ودماغ میں ان کی عقیدت و محبت اور عظمت و قربانی کی شمع جلانی چاہئے اور شر پسند افراد کے باطل منصوبوں کو خاک میں ملانا چاہیے- بلکہ 15/ اگست کو ایک روایت شروع کی جائے وہ یہ کہ مدارس اور مکاتب کے اساتذہ اسکولوں اور کالجوں میں جاکر خطاب کریں اور اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ مدارس میں آکر خطاب کریں، ایسے موقع پر ہمارا پیغام اسکولوں میں پہنچ جایے گا اور جب اسکولوں کے اساتذہ کی تقریریں ہوں گی اس سے بھی اندازہ ہو جائے گا کہ اصلی مسلم مجاہدینِ آزادی کے حوالے سے ان کی معلومات کتنی ہے اور کن کو یہ اصلی ہیرو سمجھتے ہیں؟