اسلامی ادب کی خصوصیات

کسی بھی زبان میں دینی افکار و نظریات اور اسلامی موقف کی ترجمانی کرنے والی خلوص و دیانت پر مبنی تحریر ، جو اصلاحی غرض سے لکھی گئی ہو " اسلامی ادب " کہلاتی ہے ۔  ایک اسلامی مبلّغ جن مذہبی امور کی تبلیغ اپنی تقریر اور خطاب کے ذریعے کرتا ہے ، اسلامی ادیب انہیں امور کی ترویج و اشاعت قرطاس و قلم کے سہارے انجام دیتا ہے ۔ لیکن جس طرح ہر تحریر ادب نہیں ہوتی ، اسی طرح ہر اسلامی تحریر ؛ اسلامی ادب کا شہکار نمونہ نہیں بنتی ۔ بلکہ اس کے لیے فصاحت و بلاغت ، زبان و بیان کی چاشنی ، اسلوب کی ندرت ، خیال کی بلندی و پاکیزگی اور پیرایۂ بیان کی عمدگی امرِ ناگزیر ہے ۔ صداقت و واقعیت ، معروضیت و قطعیت ، خلوص و دیانت اور ثقاہت و بصیرت اس کے لازمی اجزا ہیں ۔ اسلامی ادب کا مقصد بھلائیوں کا فروغ اور برائیوں کا خاتمہ ہے ۔ دیگر عالمی ادبیات کی طرح اسلامی افکار و تعلیمات پر مبنی " اسلامی ادب " کے بھی کچھ بنیادی اوصاف و خصوصیات ہیں ، جن کی پاس داری اسلامی ادب کی نمائندگی کرنے والے ادیبوں کے لیے بہر حال ضروری ہے  ۔ 


( ١ )  مذہبِ اسلام اپنے ماننے والوں کو خلوص و دیانت کی تعلیم دیتا ہے ۔ اہلِ ایمان کا ہر کام اخلاص پر مبنی ہونا چاہیے ۔ نام و نمود ، شہرت ، عہدہ و منصب اور جاہ طلبی کے لیے نہیں ۔ لہٰذا اسلامی ادب کو ہر حال میں خلوص کا آئینہ دار ہونا چاہیے اور ایک اسلامی ادیب کی ہر تحریر ، مضمون اور کتاب اخلاص اور رضائے الہٰی پر مشتمل ہونی چاہیے ۔ اس کی تحریری سرگرمیوں کا مقصد صرف اور رضائے مولیٰ ، اسلام کی نصرت و حمایت اور دین کی ترویج و اشاعت ہو ۔ نام و نمود ، سستی شہرت اور واہ واہی لوٹنے کی غرض سے اسلامی ادب کی ترجمانی کرنے والوں کو دور و نفور رہنا چاہیے ۔ 

( ٢ )  احقاقِ حق و ابطالِ باطل ، اسلام اور قرآن کا طرّۂ امتیاز رہا ہے ۔ اسلامی ادب کو حق کا پرچار ڈنکے کی چوٹ پر کرنے والا ہونا چاہیے اور اس راہ میں گندی سیاست ، ذاتی مفاد اور مصلحت کوشی کو آڑے نہ آنے دینا چاہیے ۔ ہمیشہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہا جائے ۔ حق کی حمایت اور باطل کی سرکوبی میں مسلم ادیبوں کو شمشیرِ برّاں کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ 

( ٣ )  کہتے ہیں کہ :  " تاج محل کی تعمیر آسان ہے ، لیکن شخصیت سازی کا عمل اس سے کئی گنا زیادہ دشوار ہے " ۔ اسلامی ادب کو شخصیت سازی اور ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے ۔ اس کام کے لیے ذہانت و لیاقت کے ساتھ بڑی محنت اور سخت ریاضت درکار ہوتی ہے ۔ مسلم ادیبوں کو اس سلسلے میں حسّاس رہنے کی ضرورت ہے ۔ جو ادب اور لٹریچر انسانی قلوب و اذہان کو کسی خاص نصب العین کے لیے تیار نہ کر سکے ، وہ ادب معنوی لحاظ سے کوئی اہمیت و وقعت نہیں رکھتا ۔ لہٰذا مسلم ادیبوں کو چاہیے کہ وہ دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے محنت و مشقت سے ایسا لٹریچر یا آرٹیکل تیار کرے ، جو ذہن و فکر کو اپیل کرنے والا اور دلوں کو مسّخر کرکے انہیں حرکت پر آمادہ کرنے والا ہو ۔ خلاصۂ کلام یہ کہ اسلامی ادب کو موّثر اور دل پذیر ہونا چاہیے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ادب کو مؤثّر اور شخصیت سازی کا آئینہ دار کیسے بنائے جائے ؟ اس سلسلے میں چند باتیں ملحوظ رکھی جائیں : 

الف  :  -  تحریر آسان ، سادہ اور  زود فہم ہو ۔ زبان گنجلک نہ ہو ۔ اسلوب میں سنجیدگی و دلکشی پائی جائے ۔ اندازِ بیان میں ابتذال اور سوقیانہ پن نہ ہو ۔ 

ب   : -  جو تحریر بھی قارئین کے سامنے پیش کی جائے ، اس میں صداقت و حقانیت کا عنصر شامل ہو ۔ ادیب کے مطالعہ میں وسعت اور فکر میں پختگی ہونی چاہیے ۔ تاکہ قارئین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں ۔  

ج  : -  قوّتِ استدلال مضبوط اور انوکھی ہونی چاہیے ۔ لیکن فلسفیانہ اسلوب اور منطقی انداز میں اپنی بات پیش کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔  

                                          د   : -  ادیب کے قول و عمل اور گفتار و کردار میں مطابقت ہونی چاہیے 

( ٤ )   حق کی حمایت اور باطل کی مخالفت میں خلق و مروّت ، مہر و شفقت اور اعتدال و توازن کا دامن ہاتھوں سے نہ چھوڑنا چاہیے ۔ ورنہ ادب کا بنیادی  مقصد ( اپنے نظریات کا ابلاغ و ترسیل )  حاصل نہ ہوگا اور قارئین پر اس کا خاطر خواہ اثر مرتب نہیں گا ۔ موقع کی نزاکت اور مخاطب کی افتادِ طبع کا خیال کرتے ہوئے بعض اوقات اعتدال اور میانہ روی کی صورت بھی اختیار کی جائے ۔

مدِّ مقابل کی گفتگو کے جواب میں سخت گفتگو کرنے ، اینٹ کا جواب پتھر سے دینے اور گالی کے جواب میں سخت گالی دینے کا انجام نہ کبھی اچھا ہوا ہے ، نہ آئندہ ہو سکتا ہے ۔ اس لیے درست طریقہ یہی ہے کہ مقابل سے نرمی اور تہذیب و شائستگی کے لہجے میں گفتگو کی جائے اور اگر اس کے باوجود وہ جہالت اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے تو قرآنی تعلیم :  و اذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما .  پر عمل کرتے ہوئے اسے الوداعی سلام کیا جائے ۔

( ٥ )  اسلامی ادب کی ایک  خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس سے کسی کی دل آزاری نہ ہونے پائے ۔ مسلم ادیبوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تحریروں سے کسی کی تحقیر و تذلیل نہ کریں ۔ کسی کے تمسخر اور مزاق اڑانے سے ہر حال میں بچا جائے ۔ اخلاقی طور پر اچھی اور معیاری تحریر وہی ہے جو دل شکنی و دل آزاری بننے والے مذکورہ عیوب سے پاک ہو ۔ اس سلسلے میں قرآن مقدس کی یہ آیت پیشِ نظر رکھی جائے  :

يَا ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَىٰ أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَىٰ أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ .  

( قرآن الکریم ، سورة الحجرات ، آیت :  ١١ ) 

ترجمہ :  اے ایمان والو ! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا ( مذاق اڑائیں ) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو ۔  کسی کے ایمان کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے ۔ اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں ۔

( ٦ )  فواحش و منکرات اور ہفوات و لغویات کی غلاظت سے اجتناب اور بیان کی طہارت کا اہتمام ، دینِ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے ۔ تحریر ہو یا تقریر ، گفتگو کی طہارت اور بیان کی پاکیزگی ہر جگہ ہر حال میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ مسلم ادیبوں کو چاہیے کہ وہ  اسلامی ادب کو بیان کی پاکیزگی سے ہمیشہ آراستہ رکھے اور کسی بھی حال میں اپنی تحریر کے دامن کو فواحش و لغویات ، اباحیت پسندی اور کذب و افترا کے بد نما داغ سے آلودہ نہ ہونے دے ۔

( ٧ )  بلا تحقیق کوئی بات نہ قبول کی جائے اور نہ اس کی فی الفور تردید کی جائے ، بلکہ جو بات بھی کسی کی طرف سے پیش کی جائے ، پہلے غیر جانب دارانہ طریقے سے اس کی تحقیق کی جائے اور تحقیق کے بعد ہی اسے قبول کی جائے یا پھر اس کی تردید کی جائے ۔ اسلامی ادب کی یہ ایک نمایاں خصوصیت ہے ۔ اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

( ٨ )  قلم چلانے اور کوئی بھی تحریر منصۂ شہود پر لانے کا ایک مقصد ہوا کرتا ہے اور وہ مقصد نیک بھی ہو سکتا ہے اور بُرا بھی ۔ قلم کا استعمال معاشرے کی اصلاح کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے اور معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے ۔ گویا قلم دو دھاری تلوار ہے ، جس سے دونوں طرح کا کام انجام دیا جا سکتا ہے ۔ ہماری تحریر و قلم کا مقصد وہ ہونا چاہیے ، جس کی خاطر ہماری تخلیق ہوئی ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے  : 

كُنتُمْ خَيرَْ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ لَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكاَنَ خَيرًْا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَ أَكْثرَُهُمُ الْفَاسِقُون . 

 ( قرآن مجید ، سوره آل عمران ،  آيت : ١١٠ ) 

یعنی تم بہترین گروہ ( جماعت ) ہو جسے لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ، لیکن ان میں صرف چند مومنین ہیں اور اکثر فاسق ہیں ۔

اس آیت کریمہ میں بقدرِ وسعت و طاقت ہر مکلّف کو دعوت و تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے اور اہلِ ایمان پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ عائد کیا گیا ہے ۔ اسلامی ادب ، اسلامی فکر کا نمائندہ اور ترجمان ہوا کرتا ہے ۔ اسلامی ادب کا مقصد بھی یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے دعوت و تبلیغ کے کارواں کو آگے بڑھایا جائے اور حتی الوسع امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے ۔ لہٰذا مسلم ادبا و محرّرین کو چاہیے کہ وہ مذکورہ بالا ادبی شرائط و خصوصیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعوت و تبلیغ ، تعلیم و تلقین اور رشد و ہدایت کا کام بطریقِ احسن انجام دیں اور حق و انصاف کا پرچم بلند کرنے کے لیے اپنی ذہنی ، فکری اور قلمی توانیاں صرف کریں ۔ و اللہ المستعان و علیہ التکلان !

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter