شیخ زین الدین مخدوم الصغیر

            اس دنیائے رنگ و بو میں کئی اعلیٰ مرتبت شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کے وجود مسعود سے زمانہ مستفیض ہوتا ہے وہ پرانوارہستیاں اپنی تجلیات سے زمانے کوروشن کرتى ہیں ۔ سرزمین کیرالا میں بھی ایک ایسی شخصیت نے جنم لیاجوایک فقيہ ومفتی بے مثال بن کر ابھرے۔ وہ جماعت اہل سنت کے ممتاز ترین فقيہوں میں سے ایک ہیں ،ذکاوتطبع اورقوت اتکان و وسعت مطالعہ میں لا جواب ہیں،مسائل کےاستنباط میں یدطولی رکھتےہیں،ایک اچھےانشائی اور صاحب اسلوب وماہرِعربی ادب ہیں ۔ ان کے شعوری جذبات متعدد کتابوں پر مشتمل ہیں جن میں مذہبی مسائل اورسیاسی مسائل کو بنیادی درجہ  حاصل ہے ۔

دنیاانہیں شیخ زین الدین بن قاضی احمد الغزالی بن الشیخ الامام زین الدین المخدوم الکبیر بن شیخ القاضی علی بن الشیخ احمد الشافعی القاضی الملباری کےنام سے جانتی ہے جبکہ انہوں نے زین الدین المخدوم الصغیر سے شہرت پائی ہے ۔

ولادت با سعادت

آپ کی ولادت با سعادت سن ۸۳۹ھ موافق ۱۵۳1ءکو محلہ چومبل ضلع ماہی پڈوچیری،کیرالاسے متصل میں ہوئی،آپ کے والدبہترین عالم دین تھے، جنکےعلمی کارنامے بھی بہت مشہورہیں ۔آپ کی پرورش عمدہ ماحول میں ہوئی،آپکا خاندان یمنی نسل سے ہے چونکہ آپکے آباءواجداد ميں بعض اشاعت دین کی خاطرکیرلا میں"پنان"نامی جگہ میں تشریف لائے جن کی دینی خدمات سےکیرلا کی عوام میں آپ کے گھرانےکوغیر معمولی مقام حاصل ہوااورلوگوں میں مخدوم خاندان سےمشہورہوئے ۔

آپ کے خاندان کے ہرفرد نے ہندوستان میں نئے انداز میں علمی و دینی خدمات سے لوگوں کی ر ہنمائی کی ہے، حتی کہ لوگوں نے آپ کو رہنمائے سیاسی بھی تسلیم کرلیا آپ نے لوگوں کےاجتماعی وانفرادی وسیاسی وثقافتی ہر میدان کےمسائل کواپنی غیرمعمولی قوت علمی سے حل کیا ، لہذا آج بھی آپ کا نام لوگوں کے دلوں میں ویسے ہی زندہءجاویدہے جس طرح قوموں کے دلوں میں ان کی حیات میں تھا ۔

آپ نے ابتدائی وبنیادی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی اور بعد وفات پدراپنے چچا عبد العزیر المخدوم الملباری کی بارگاہ سے زانوئےتلمذتہ کی جو اس وقت فنان کی جامع مسجد کے شیخ ومدرس کی منصب پر فائز تھے آپکے تحصیل علم کازمانہ مطالعہ کتب اور مسلسل فقہی مسائل پر جد جہد میں مشغول تھا۔علمی ذوق حاصل کرنا آپکا شعار تھا آپ بچپن سے ہی علمی تشنگی بجھانے کے خواہاں تھے، لہذا دوسرےعلماء کی صحبت میں رہتےاوران سے آپ علمي شغف رکھتے تھے ہوئے خدمت اسلامیہ میں مشغول ہوگئے ۔

زیارت حج وبیعت

مولانا شیخ زین الدین احمد اللہ کے زندگی میں وہ دن بھی آہی  گیا  جب اللہ نے آپ کو حرمین شریفین کی زیارت سے سرفراز کیا لہذاآپ نے نوی ھجری کے آخری دیار میں مکہ اور مدینہ کا رخت سفر باندھا اور بعد زیارت وہاں دس سال کا قیام فرمایا دس سال کی مدت میں آپ مختلف علماء  کرام اور مایہ ناز ہستيوں کی نورانی صحبت حاصل کرتے رہے اور حرمین شریفین کے علماء کرام سے علمی طور پر سیراب بھی ہو ئے ، حتٰی کہ آپ نے تصوف شیخ ابوبکری صدیقی رحمہ اللہ سے حاصل کیا اور بعدہ شیخ ابوالحسن بکری سے آپنے قادری طریقت پر بیعت کی ۔

اساتذہ وہم عصر

موصوف گرامی نے بہت سے علماء کرام کی بارگاہ عاطفت میں اپنے زانوائے تلمذ کوبچھائےجس کے نتیجہ میں آپ نے وہ مقام حاصل کیاجوآج بھی زندہ جاوید ہوکرخوداپنےوجودکی گواہی دےرہاہے.

آپ نے جن اساتذہ سے علمی استفادہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

  1. شیخ الاسلام والمسلمین خاتم المحقق مفتی الحرمین الحافظ شہاب الدین احمد بن هجر الہیتمی المصری ۔

  آپ اکثراحمد زین الدین مخدوم کی جدت ذکاوت اور حرص علمی پر تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے۔

  1. شیخ عزالدین بن عبد العزیز الزمزمی۔
  2. شيخ عبدالرحمن بن زیاد
  3. شیخ الاسلام عبد العزیز بن زین الدین المخدوم الکبیر
  4. شیخ ابوالحسن البکری الصفوي
  5. الامام عبدالرحمن الصفوی

آپ جب فقہی مسائل کو حل نہیں کرپاتے تو اکثر ان علماء کرام کی طرف رجوع کرتے جو اس زمانہ میں فقہ میں اعلیٰ مہارت وہ بصارت رکھتے تھے آپ نے جن علماء سے استفتاء کیا ہے ان کے اسماءمبارکہ با لترتیب مذکور ہیں ۔

  1. شمش الدین محمد بن احمد الرملی۹۰۹ھ 1004 ھ(جو شافعی الصغر کے لقب سب معروف ہے اور مشہور کتاب نہایۃ المحتاج فی شرح المناج کے مصنف بھی ہیں ۔
  2. امام شمش الدین محمد بن احمد اللہ جو " الخطيب الشربینی "سے مشہور و معروف ہیں ۔

اور  مغنی المحتاج فی شرح المنہاج  کے مصنف بھی ہیں ۔

  1. امام علامہ مفتی الیمنی نقی الدین عبداللہ بن عبد اللہ بن احمد با مسخر مۃ الشیبانی المحمیری۷۰۹ ھ ۲۷۹ھ
  2. امام علامہ عبد الرووف بن یحی بن عبد الروف المکی الشافعی جنہوں نے شیخ احمد بن حجر البتہی سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔

چونکہ فقیہہ ہو نے کے ناطے آپ نے ہمیشہ علمِ فقہ کی مہارت رکھنے والوں کی صحبت ہی اختیار کی چنانچہ آپکے ہم عصر شخصیات میں قابل ذکر ہم نشینوں کے نام مندرجہ ذیل مذکورہیں ۔

  • شیخ سید الوبکر بن سالم الحضرمی
  • شیخ عید روس الاحمد اماوی
  • علامہ ملا علی القاری
  • اما م شیخ ابن عبد اللہ اشفاق الخضرمی
  • شیخ علامہ عبد العزیز
  • شیخ عبد القادر الثانی الکنوری
  • شیخ ابو الوفائ مسحر بن علاء الدین الحمصی
  • شیخ الید شاہ الحمید میران الناہوری

علمی کارنامے

اللہ تبارک وتعالی نے آپ کو ایسی فقہی بصیرت سے نوازا تھا جس کا اثرتمام فقہ شافعی کے کتب میں آج بھى نظر آتا ہے،آپ کی تصانیف تمام کتب شافعیہ میں گوہرنایاب ہے۔ آپ ملت اسلامیہ کیلئے وہ آثار چھوڑگئے ہیں جو صرف علمی ہی نہیں بلکہ عوامی واجتماعی و سیاسی میدانوں میں بھی باعث ہدایت ہیں ۔

فقہی مؤلفات      

اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ دیار کیرلا میں شیخ احمد زین الدین مخدوم ہی شافعيوں کے مطلق امام  ہیں چونکہ آپکی فقہی خدمات و تالیف نے تمام موجودہ شافعى فقہ میں وہ درجہ پایا ہے جو کسی اور کو نہیں حاصل ہوا لہذا علماء کیرلانے آخر میں مسائل کے حل میں آپ ہی کی کتاب کو مرجع و منبع بنایاہے،اسی طرح علماء  کی اختلاف آراء کے وقت آپ ہی کے قول کو ارجح و اصفی قرار دیا گیاہے ۔اگر چہ آپ نے تصوف و حدیث وتاریخ اور دیگرعلوم اسلامیہ میں اپنی وراثت علمی عوام کوآراستہ وپیراستہ کیا ہے لیکن جو فرحات جلیلۃ آپ نے فقہی میدان میں کی ہیں وہ سب میں بےمثلِ وبے نظیرظاہر ہوتی ہیں ۔ 

آپکی اہم فقہی تأليف 

۱(قرۃ العین بمہات الدین

            جیسا کہ ہم نے اول سطورمیں ذکرکیا کہ امام احمد زین الدین المخدومی الملباری رحمہ اللہ شافعی فقہی مسائل کے بیان مین بہت قیمتی اور ناياب  کتابوں کو تالیف فرمایا ہے لہذا  ان تمام کتابوں میں قرۃ العین بمہات الدین اول فہرست میں ہے یہ کتاب موصوف کی براعت فقہی اور ذہانت علمی پر شاہدہے اسلئے کہ انہوں نے فقہی سمندرکےموتی وجواہرات کواس کتاب میں جمع کیا ہے ۔ 

اتناہی نہیں بلکہ اس کتاب میں ان تما م ترین متون کا ذکر کیاہے جو فقہ شافعی میں قابل استدلات ہیں لیکن بعدمیں اس کتاب کا مطالعہ عوام الناس کے لئے گراں ثابت ہوالہذاامام زین الدین المخدوم نےعام وخاص کی آسانی کیلئےاس کتاب کی شرح کی جس کا نام فتح المعین شرح قرۃ العین بمہات الدین مقررکیا ۔

فتح المعین بشرح قرة العین بمہمات الدین

            جیساکےسطوربالامیں ذکر کیا گیاہے کہ جب قر ۃ العین بمہمات الدین کا مطالعہ طلباء واساتذہ کیلئے صعب الفہم ثابت ہواتو آپ نے اپنی کتاب کی سہل فہم اورتشریح وتوضیح کیلئے فتح المعین کو تالیف کیا حتی کہ سنہ 1574ء میں  یہ کتاب چھپی  اورہرکوئی اس سے خوشی بہ خوشی اپنی فقہی تشنگی بجھانےلگا -  اس کتاب کی شہرت صرف دیارہند میں ہی نہیں بلکہ مصر حجاز ،شام ، بغداد ، انڈونیشیا، ملائشیا، سنگاپور ، سري لنکا  وغیرہ کے بین الاقوامى کلیات وجامعات کے نصاب میں بھی یہ کتاب شامل کی گی۔  

چونکہ اس کتاب کو فقہ شافعی میں عظیم مقام عطا کیا گیا لہذا اس کی طباعت کیرلا کے مختلف حصوں میں کئی بارکی گئی۔ علماۓ شافعیہ نے اپنے فقہی مسائل اور احکام دینیہ میں اس کتاب کو مرجع اساسی کےطورپرقبول کیا تاہم مذہب شافعی کےاکثروبیشترمسائل پرفتوی اسی کتاب سے دئے جانے لگاہے ۔ 

            جنوبی ہند میں مذہب شافعی کی  اشاعت میں اس کتاب نے بڑا رول ادا کیا ہے جبکہ وہ تمام درس جو اس کتاب کے ذریعے  مختلف یونیورسٹيوں میں ديئے گئے مفید ثابت ہوئے،اورطلباء واساتذہ نےمختلف زبانوں میں اس کتاب کو متعدد شروح وحواشی سے مزین کیاان علماءوں میں سے ابوبکر بن المرحوم محمد شطاالدمياطي قابل ذکر ہیں جنہوں نے اس کتاب کے غائرانہ مطالعے کے بعد اس كو"اعانۃ الطالبین علی حل الفاظ فتح المعین"نامی حاشیہ جلیلہ سے آراستہ کیا۔ اس کتاب کیلئےاس سے بڑھ کرفخرکی بات اورکیا ہوسکتی ہےکہ علماءعرب عجم نےعالمى سطح پراس کتاب سے استفادہ کیا ہےاور اسکےمتعددحواشی اور شروحات بھی تیارکئےہیں ان شروحات نے عام مسلمین کیلئے کتاب کی پیچیدہ گانٹھوں کو کھول کرقابل فہم بنایاہےپھربعدمیں کچھ علماءنےاسےملباری زبان میں ترجمہ کیاتاکہ یہ اورواضح اورجلی ہوجائے،باالجملہ فتح المعین نے علماء شافعیہ کے مابین دورحاضر میں وہ مقام حاصل کیا جو"مختصرالقدري"نےعلماء احناف کے درمیان حاصل کیا ہے ۔  

فتح المعین کے کی شروحات وحواشی

فتح المعین کی اہم شروحات وحواشی اورعلماء مندرجہ ذیل ہیں

  • اعانۃ المعین علی فتح المعین : شیخ علی صرین
  • اعانۃ الطالبین علی حل الفاظ فتح المعین : شیخ علامہ سیدابوبکربن سیدمحمد شطاالدمیاطی
  • ترشیح المستفیدین بتوشیخ فتح المعین :علامہ سیدعلوي بن سیداحمدالسقاف
  • شرح فتح المعین(۲جلد میں) شیخ علامہ احمد بن شیخ محمد شیرازی الناداخری
  • تنشیط المطالعین شرح فتح المعین(نمازکے بیان تک) شیخ مولوی علی بن عبد الرحمن النقشبندی التانوری
  • شرح علی فتح المعین للشیخ کنجی محمد مسلیاربن احمد کوتی مسلیار
  • شیخ الملہم شرح فتح المعین۔ یرمتوربیران اورک ابوبکرحضرت تانوری

وفات

مشہورمصری مورخ عبد المنعم النمر کتاب تاریخ الاسلام فی الہند میں رقم طرازہیں کہ آپکی وفات 991ھ میں ہوئی جبکہ دوسرےمورخین کاکہناہےکہ آپکاوصال987ھ میں ہوا۔ بہرحال اقوال متعددہیں لیکن اسی پربیشترلوگوں کا اتفاق ہےکہ 1583ءكو"کنجی پلی ماهى"میں انتقال ہوا۔ آخرکاراہل سنت والجماعت کاوہ پھول جواپنی خوشبوکوعرصوں سےقلمی طورپرہواوں میں گھول رہاتھاایک دن ایسابھى آیاکہ امت مسلمہ اس عظیم فقیہ عالم اورمجاہدوطن سے محروم ہوگئی ۔"اناللہ واناالیہ راجعون"اللہ ہم سب کو ان عظیم علماوں کے نقش قدم پرچلنےکی توفیق عطافرمائے۔ آمین.

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter