شب برات کی فضلیت اور اس کی معنویت
اللہ رب العزت کی رحمت و بخشش کے دروازے یوں تو ہر وقت اپنے بندوں کے لیے کھلے رہتے ہیں مگر پھر بھی ربِ کریم کی سال بھر میں رحمت و مغفرت کا یہ عالم کہ ناتواں مخلوق پر کرم نوازیوں کے دریا بہانے اور بندوں کی خطاؤں ،گناہوں کی مغفرت اور خصوصی انعامات سے نواز نے کے لیے کچھ دنوں کو خاص برکت و فضلیت عطا فرمائی-جن میں رب کریم اپنی شانِ کریمی کے ساتھ گناہ گار بندوں کو بخشش و مغفرت کی خلعت سے سرفراز فرماتاہے ان خاص دنوں میں شعبان کی پندرہویں شب یعنی شب برات بھی ہے جو بڑی بزرگیوں اور برکتوں کی حامل ہے اس شب دوسری راتوں پر خاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے یہ نزولِ رحمت کی رات ہے برکت اور مغفرت والی رات ہے یہ رات فیصلے و قضا،قبول و رضا،اور سعادتوں و قربت کی رات ہے جس کی معنویت اور مقتضیات بنیادی طور پر یہ ہے کہ غفلت میں پڑے لوگوں کو جگاکر فکر آخرت کی طرف رغبت دلانا ہے احساس ندامت کے ساتھ ربِ غفور کی طرف رجوع کرنا ہے رب کی بندگی سے لبریز ہوکر اس کی بارگاہ باعزت باقار بنانے کی کوشش ہے رشتۂ عبودیت کو استوار کرنے کی سعیِ جمیل ہے زندگی کی پریشانیوں سے خلاصی کی دعائیں کی جاتی ہے اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو در مولیٰ کی طرف لانے کی کوشش کی جاتی ہے _
اہل سنت و جماعت ہمیشہ اس رات کو خاص اہمیت دیتے ہیں اس رات کثرت سے استغفار و قیام اور نوافل کا اہتمام حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے معمولات میں سے تھا آپ کی سنت مبارکہ کی اتباع میں یہی معمولات صحابۂ کرام تابعین و تبع تابعین اور ائمہ سلف بھی ہمیشہ سے رہے ہیں اور آج تک تسلسل کے ساتھ چلے آرہے ہیں اس رات فرائض و واجبات اور سنن کے ساتھ نوافل کا بھی اہتمام کرتے ہیں درود و سلام کی محافل منعقد کرتے ہیں اس رات کثرت سے استغفار ذکر و اذکار کیا جاتا ہے ائمہ و اسلاف نہ صرف اس پر عمل کرتے آئے ہیں بلکہ باضابطہ اپنی تصنیفات و تالیفات میں اس کا ذکر بھی کیا ہے _چناں چہ امام ترمذی نے اپنی کتاب جامع الترمذی میں "باب ماجاء فی لیلہ النصف من شعبان" شب برات سے متعلق مستقل باب قائم کیا ہے ،امام ابن حبان نے اپنی صحیح حدیث کی کتاب "الصحیح" میں "ذکر مغفرتہ اللہ جل جلاہ فی لیلہ النصف من شعبان"کے نام سے ایک مستقل باب قائم کیا ہے ،امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی رحمہ اللہ نے " عمل الیوم و الیلہ" کے نام سے کتاب تالیف کی جس میں انھوں نے شب و روز کے مسنون اعمال و اذکار اور فضائل کا بیان کیا ہے ،امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی نے "فضائل الاوقات" اور "شعب الایمان"وغیرہ تالیف فرمائیں ،شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے غنیہ الطالبین تالیف فرمائی ، امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ علیہ نے "الدر المنثور" میں 25 احادیث شب برات کی فضیلت میں جمع کیا ہے ،امام ابو ذکریا یحییٰ بن شرف النووی رحمہ اللہ نے "الاذکار من کلام سید الابرار" کے عنوان سے معروف زمانہ کتاب تالیف فرمائی ،اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے " ما ثبت فی ایام السنہ " لکھی _شب برات کی عصری معنویت یہ ہے کہ بلاشبھہ بندگی کا پہلا مطالبہ عمل ہے گویا انسان کی زندگی عمل ہے اور عمل ہی زندگی ہے بے عمل زندگی موجبِ غضب الہی اور رسوائی کا باعث ہے چناں چہ خالقِ ارض و سما کا انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد ہی بندگی ہے مگر مقصدِ تخلیق کو دنیاوی مصروفیات اور مادی محبت کی وجہ سے فراموش کردیا جاتا ہے شب برات اسی فراموشی کی بھرپائی کے طور پر بابرکت دن بن کر آیا ہے جس میں احساسِ بندگی کو اجاگر کرنا کیا جاتا ہے کیوں کہ جب خدا کی بندگی کا احساس انسانوں کا احاطہ کرلیتی ہے تو اس کی طرزِ حیات ،رہن سہن،اٹھنا بیٹھنا الغرض زندگی کا ہر لمحہ عبادت بن جاتا ہے اسی احساس کو زندہ کرنے کے لیےاس خاص شب کا اہتما کیا جاتا ہے _
شب برات کی معنویت اس طور سے معلوم ہوتی ہے کہ ایمان کے بعد عمل بہت ضروری ہے بغیر عمل کے ایمان شجر بلا مثمر ہے اسی وجہ سے اعمال کی تحریک و تقویت میں شب برات بہت ہی اہم ہے گویا کہ شب برات امت مسلمہ کے لیے اعمال میں حرکت و نشاط اور بہتر تبدیلی کا پروانہ ہے جس کی وجہ سے شب برات کو شب صک یعنی پروانۂ نجات بھی کہا گیا ہے تو شب برات کا پیغام امت مسلمہ کے نام یہ ہے اس رات کثرت سے ذکر الہی کرے رب کی بارگاہ میں آنسو بہائے اور خود کے لیے اعمال صالحہ کی توفیق کے لیے دعا بھی کرے گویا شب برات اعمال صالحہ اور تصحیحِ اعمال کی جانب بہترین رہنمائی ہے _
شب برات کی معنویت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ جیسا کہ حضرتِ انسان دنیاوی چکاچوند اور خوب صورتی کی وجہ سے فکرِ آخرت سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور دل میں دنیا کی محبت رچ بس جاتی ہے شب برات دنیا و آخرت کے سنوارنے میں اہم رول ادا کرتی ہے لوگوں کو فکر آخرت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اس شب قبرستان جانا ہوتا ہے زیارتِ قبور کا اہتما ہوتا ہے جس میں مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی جاتی ہے مذکورہ چیزیں ایسی ہیں جس سے انسان کو آخرت کی فکر ہوتی ہے اور بندہ رب کی اطاعت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور احکامِ الہی بجالانے پر مجبور ہوتا ہے تو شب برات کی آمد کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ ہمہ وقت فکر آخرت کو ملحوظ رکھے اور احتسابی کیفیت کو مد نظر رکھے _
شب برات کی معنویت اس طور پر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ رات بخشش و مغفرت کی رات ہے اس کو اس طرح سمجھیں کہ شب کا معنی رات اور براتہ کا معنی نجات تو شب برات کا مطلب ہوا گناہوں سے نجات کی رات ،سادہ لفظوں میں کہا جائے کہ اس شب کا استقبال اس طرز سے کرے کہ زندگی احکامِ الہی کے تابع ہوجائے زندگی اسوۂ رسول کی سانچے میں ڈھل جاے تاکہ اس شب کی برکت و فیضان سے رب غفور ہماری گناہوں کو بخش دے ہماری خطاؤں کو معاف کردے واضح ہوا کہ شب برات رحمت و برکت اور مغفرت والی شب ہے
خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ یہ سب اس عظیم رات کو اس میں کار فرما روح کے مطابق گزارنے کے ہی بدولت ممکن ہے ورنہ عام راتوں کی طرح یہ مبارک رات ہی شمار ہوگا کہ اس رات نیکیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں برکات کا نزول ہوتا ہے برائیاں مٹا دی جاتی ہے ضرور اس بات کی ہے کہ اس رات کو محض رسم سمجھ نہیں بلکہ اصل و ضرورت سمجھ کر بجالائیں جس بنیادی پیغام یہی ہے کہ فرض و واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کیا جاے ہمہ وقت احتسابی کیفیت کو پیش نگاہ رکھاجاے دنیا کی لذتوں کو در کنار کرکے آخرت کی فکر ہونی چاہیے اور اعمالِ صالحہ میں پختگی لاے دعا گو ہوں رب تعالیٰ اس مبارک شب کی برکتوں اور فیضان سے سبھی کو مالامال کرے اور عمل صالح کی توفیق عطا کرے آمین _