VALENTINE DAY:محبت کے نام پر عریانیت و فحاشیت کا ڈے

جب کوئی انسانی گروہ گناہ کا عادی ہوجاتا ہے اور جانتے بوجھتے گناہ کو روادار رکھتا ہے‘ تواس کاطریقہ ء کار یہی ہوتا ہے کہ وہ بدی کو نیکی اور برائی کو اچھائی ثابت کرنے کی جی توڑ کوشش کرتاہے اور یہ آج کے ہی دور میں نہیں ہے بلکہ ہم سے قبل کی قوموں نے بھی یہی صورت اختیار کررکھی تھی۔آج اگر ہم غور کریں تو پتہ چلتاہے کہ لوگ بہت سی برائیوں کا مہذب اور سائشتہ ناموں سے ارتکاب کرتے ہیں لیکن اسکا نام تبدیل کردیتے ہیں۔سود کھاتے ہیں مگر اسکا نام کچھ اور دیکر۔ در ا صل یہ برائی کی سب سے بدترین شکل ہوتی ہے کیونکہ اس میں بھلائی کے نام سے برائی کی جاتی ہے‘تہذیب کے نام پر بد تہذیبی کو روا رکھاجاتاہے‘ آزادی کے نام پر نفس کی غلامی کی ر اہ ہموار کی جاتی ہے۔ اسلام کے آنے سے قبل عربوں کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو دین ابراھیم کا حامل کہتے تھے۔لیکن پوری طرح شرک میں ملوث تھے‘ بہت سے لوگ مرد اور عورتیں بے لباس کعبۃاللہ کا طواف کرتے تھے اور اسے نیکی تصور کرتے تھے کہ جن کپڑوں میں ہم نے گناہ کیا ہے ان میں کیونکر طواف کیا جاوے۔اہل مکہ اپنے امتیاز کو قائم رکھنے کے لئے میدان عرفات نہیں جاتے تھے کہتے تھے کہ ہم ایک اہل حرم ہیں حدود حرم سے باہر کیسے جائیں؟.                    
مغربی تہذیب نے آج یہی صورت اختیار کررکھی ہے؛آج بہت سی مسلمہ اخلاقی برائیاں تہذیب وثقافت کے نام پر روا ہوگئی ہیں۔اسی سلسلہ کی ایک کڑی VALENTINE DAYکا فتنہ ہے جو آج 14 فبروری کو پوری دنیا میں بڑ ی دھوم اور عریانیت وفحاشیت کے ساتھ بڑے زور وشور سے منا جاتا ہے۔  

  ویلنٹائن ڈے کیوں مناتے ہیں؟:  
ویلنٹائن ڈے کیوں مناتے ہیں؟ اس محبت کے دن کے انعقاد کرنے پر بہت سی روایتیں تاریخ کی کتابوں میں پائی جاتی ہے جن میں سے چند معتبر روایتں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہیں :
 ۱) ایک یہ ہے کہ  14  فبروری سن 279 عیسوی کو ایک حادثہ پیش آیا جس کے سبب عشق لڑانے اور غیر شرعی تعلقات رکھنے والوں نے اسے محبت کا دن بنالیا.واقعہ کچھ یوں ہے کہ اس دور کے رومی بادشاہ کلاڈیوس دوم نے اپنی حکومت کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے اپنی حکومت میں نوجوان جوڑے کی شادی پر پابندی لگادی کیونکہ اسکا خیال تھا کے غیر شادی شدہ مرد شادی شدہ مرد سے زیادہ قوی اور طاقتور ہوتا ہے. مگر ویلنٹائن  VALENTINE) ) نامی ایک عیسائی پادری بادشاہ کی مخالفت کرتے ہوئے نوجوان جوڑے کی خفیہ طور پر شادی کراتا رہا اور جب بادشاہ کو خبر ہوئی تو اس نے اسے جیل میں ڈلوادیا اسے وہاں جیلر کی ہوش دلربا قمروش لڑکی سے عشق ہوگیا ابھی عشق نا تمام ہی تھا کہ پادری کو سولی پر چڑھا دیا گیا. چونکہ یہ واقعہ 14 فبروری کو پیش آیا تھا اس لئے ہر سال اس تاریخ کو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ جوڑے محبت کا دن منا کر اسکو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں.


  ۲) اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویلنٹائن کو ملحدوں کے دیوتاؤں کی عبادت کرنے سے انکار کرنے پر قید کرلیا گیا. جیلرکی بیمار بیٹی سے دوستی کرکے اس نے اپنی عبادت کے ذریعہ اسکا علاج کردیا. کہا جاتا ہے کے اپنی پھانسی کے دن 14 فبروری کو اس نے ایک رقعہ پر تحریر کیا جس کے آخر میں لکھا تھا  ”تمہارا ویلنٹائن“  FROM YOUR VALENTINE). )
  ۳) اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویلنٹائن ایک رومن راہب تھا. کلاڈیوس نے اسے قتل کردیا اور اسے فلیمین وے FLEMIAN WAY) ) میں دفن کروایا. اسے ظلم اور ایذارسانی کے دور میں عیسائیوں کی مدد کرتے ہوئے گرفتارکر لیا گیااور 14  فبروری 269ء میں قتل کردیا گیا.
  ۴)  اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویلنٹائن ایک رومن راہب تھا.اس نے جب عیسائی مذہب کو جب اپنایا تو اس کے بادشاہ نے اسے قید کرواکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا. اسے وہا ں جیلر کی حسین و جمیل بیٹی سے محبت ہوگئی جو اسے جیل میں کھانا پہنچا یا کرتی تھی. جب اس بات کی خبر جیلر کو ہوئی تو اس نے بادشاہ سے اسکے قتل کرنے کی اجازت مانگی اور پھر اجازت مل جانے پر جیلر نے اسے قتل کردیا. تاریخ میں ہے کہ رومیوں نے ویلنٹائن کوعیسائی مذہب اپنانے پر قتل کردیا اور جب انہوں نے عیسائیت قبول کی تو یہ دن مناکر اسے خراج عقیدت پیش کرنے لگیں.


 ان ہی تمام روایتیں کے تحت آج یعنی 14  فبروری کا دن تہوار کے طور پر منا یاجارہا ہے. 
 VALENTINE DAYاور اظہار محبت: 
افسوس کے آج کے اس پر فتن دور میں عوام الناس نے محبت کے لفظ کو بھی بد نام کردیا ہے. محبت کیا ہے؟ محبت بے غرض اور پاکیزہ چاہت کا نام ہے. جس چاہت کا مقصد نفس میں سلگنے والی آگ کو غذا فراہم کرنا اور بے لگام خواہشات کی پیاس بجھانا ہو وہ بے غرض اور پاکیزہ چاہت نہیں ہے‘ جو چاہت محض نفس کی تکمیل سے عبارت ہو وہ تو پاکیزگی سے کوسوں دور ہے. اسلام دین محبت ہے‘
اس نے ہر شئی سے محبت کرنے کادرس دیا ہے‘ خدا سے محبت اور اسکے پیارے رسول اکرم  ﷺ  سے محبت‘ ہر مسلمان اور ہر انسان سے محبت‘ اللہ تعالی کی پیدا کردہ ہر مخلوق سے محبت‘ ماں باپ اور بھائی بہنوں سے محبت‘ یہ ایک تحفہء محبت ہے‘ جسے ہر شخص اور ہر جگہ پرپیش کرنا ہے‘ اس میں پاکیزگی ہے‘ اس میں بے غرضی ہے‘ اوراس میں دوام پائیداری ہے. 


ویلنٹائن ڈے ((VALENTINE DAY جس کو ”یوم عاشقاں“  بھی کہا جاتا ہے میں نوجوان جوڑے اپنی محبت کا اظہار اس بے حیائی اور  عریانیت و فحاشیت کے ساتھ کرتے ہیں کے ان حالا ت کو بیان کرنا کسی زبان کے بس میں نہیں ہے. کیونکہ نوجوان غیر شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے سے اپنی محبت کا اظہار فحش مضامین اور فحش تصاویروں کے کارڈ بھیج کر کرتے ہیں. بس اتنا ہی نہیں بعض حضرات تو ایک دوسرے کے لئے کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں پارٹی کا اہتمام کرتے ہیں یا پھر کسی تفریح گاہ میں جاکر اپنی بے نام محبت کا پریکٹیکل (PRACTICAL ) اظہار کرنے کا پلان بناتے ہیں. اپنی اس بے حیائی پر نادم ہونے کے بجائے اپنی سہیلیوں اور دوسرے ہم رقیبوں کے سامنے کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں جیسے انہوں نے سونے کا پہاڑ پالیا ہو.یہ بات درست ہے کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کی فطرت میں شامل ہے مگر یہ کیسی محبت ہے جس نے بندے کو اپنے خالق حقیقی سے دور کردیا ہے.......  جس نے صحیح اور غلط کا تصور ہی بدل دیا ہے..........  جس نے ایک خوبصورت جذبہ کو اب محض نفسانی خواہشات تک محدود کردیا ہے...........  جس نے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ جوڑے کی پہچان مسخ کر رکھی ہے............  جس نے انسانیت کو جانوروں کے سامنے شرمسار کر رکھا ہے. آج اس ” محبت کے دن“  کے موقع پر باقاعدہ ٹی وی ڈراموں میں‘ ریالٹی شوز میں‘ لچر افسانوں میں‘ اور اس موقع پر عریانیت و فحاشیت اور جنسی خواہشات کو ابھارنے والے مناظر سے بھر پور فلموں کے ذریعہ نوجوانوں کے دل و دماغ پر اپنا منفی اثر چھوڑتے ہیں اور انہیں ان سب چیزوں کے ذریعے محبت کرنے (لڑکی پٹانے)کے نت نئے ٹوٹکے بھی سیکھاتا ہے. اگر اس حیاء سوز سلسلہ کو روکا نہیں گیا تو یقینا یہ بد اخلاقی اور محبت کے نام پر عریانیت اور لڑکیوں کا جنسی استحصال ہمارے سماج (  SOCIETY  )کے لئے مہلک ثابت ہو سکتا ہے. 
   آخر کہاں سے ہمیں اس طریقۂ محبت کا سبق ملا؟  اسکا جواب حاصل کرنے کے لئے آپ اپنے ذہن کو یورپ کی طرف روانہ کریں اور دیکھنے کی کوشش کریں کے کیا کچھ یورپ میں ہورہاہے اور یورپی نوجوان جوڑے کیا کررہے ہیں. آپ یہی دیکھیں گے کہ یورپ کی تہذیب وہی تہذیب ہے جس میں انسان کو اپنے جسم پر لباس بھی بوجھ محسوس کرنے لگتا ہے........  جس میں نکاح کے بندھن سے انسان کو اپنی زندگی مقید ہوتی ہوئی نظر آتی ہے...........  جس میں نفس پرستی کی لہریں شرافت و اخلاق کے ساحل سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے.کیا آج کل ہندوستان جیسے مذہبی ملک میں یہ سب نہیں ہورہاہے؟ جہاں مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو بھی عفت و عصمت کو انسانی جوہر تسلیم کرتے ہیں اور انکے نزدیک تو سیتا کا سب سے بڑا و صف اسکی حیاء اور پاکدامنی ہے.کیا یہ ہماری نوجوان نسل دین و اخلاق اور شرافت و حیاء سے آزاد ثقافت کو دعوت دینا نہیں چارہی ہے؟

عزیز قارئین!  شاید آپ نہیں جانتے کے یورپ‘ امریکا اور ان کے ٹکڑے پر پلنے والیں کتے جو کام بندوق‘بارود‘بم اور مھلک ہتھیاروں سے نہ کرسکیں وہ آج پھول اور کارڈ سے کر کررہے ہیں. ہماری خیریت اور بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنے عزیزو رشتہ داروں کو مغربی تہذیب جیسی گندی اور غلیظ تہذیب سے دور رکھیں. اللہ ہمیں قوت عمل داری عطا فرمائے.  آمین
اللہ تعالی قرآن مجید میں ار شاد فرماتا ہے”لا یغیر  اللّہ قوما حتی یغیر ما بانفسہم“ ترجمہ:(اللہ تعالی) نہیں بدلیگا کا اس قوم کی حالت یہاں تک کے (وہ قوم) اپنے آپ کو نہ بدل لے. اور ہمارے آقا‘دونوں جہاں کے داتا‘حضور تاجدار مدینہ‘راحت و قلب و سینہ‘امام الانبیاء‘سید الانبیاء‘ امام الامم‘ نبی الاتم‘نبی بنی آدم‘نبی خیر الامم‘شمس الضحی‘ بدر الدجی‘نور الھدی‘صور العلی‘ کھف الوری‘ مصباح الظلم‘جمیل الشیم‘بے سہاروں کا سہارا‘ بے آسروں کا آسرا‘ بے یاروں کا یار‘بے مددگاروں کا مددگار‘ سید الکونین‘نبی الثقلین‘  نبی الحرمین‘رحمۃ اللعالمین‘ نقیب رب العالمین‘سرور دوجہاں‘بے کسوں کے کس‘ بے بسوں کے بس‘رسول اللہ‘ نبی اللہ‘ حبیب اللہ‘ خلیل اللہ‘ نجیب اللہ‘صبح کائنات کے شمس الضحی‘ شام کائنات کے بدر الدجی‘روحی فدا جناب عربی محمد مصطفی  ﷺ  کا فرمان عالیشان ہے:   ”  اذا لم تستحی فاصنع ما شئت“  بے حیا باش و ہر چہ خواہی کن (اگرتم بے حیا ہو تو جو چاہو کرو).

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter